سبا آية ۱۰
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۗ يٰجِبَالُ اَوِّبِىْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَــنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ ۙ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر کے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا،
English Sahih:
And We certainly gave David from Us bounty. [We said], "O mountains, repeat [Our] praises with him, and the birds [as well]." And We made pliable for him iron,
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ اللہ کی رجوع کرو اور اے پرندو! اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کیا
3 Ahmed Ali
اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی دی تھی اے پہاڑو ان کی تسبیح کی آواز کا جواب دیا کرو اور پرندوں کو تابع کر دیا تھا اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا (١) اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (٢) (یہی حکم ہے) اور ہم نے اسی لئے لوہا نرم کر دیا (٣)
١٠۔١ یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔
١٠۔٢ ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہو جاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہو جاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داؤد علیہ السلام کے ساتھ مصروف تسبیح ہو جاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے (فتح القدیر)
١٠۔٣ یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی۔ اے پہاڑو ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو (ان کا مسخر کردیا) اور ان کے لئے ہم نے لوہے کو نرم کردیا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم ہے) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کردیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بلاشبہ ہم نے داؤد(ع) کو اپنے ہاں سے (بڑی) فضیلت عطا کی تھی (اور پہاڑوں سے کہا) اے پہاڑو ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا) اور ہم نے ان کیلئے لوہا نرم کر دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے داؤد کو یہ فضل عطا کیا کہ پہاڑو تم ان کے ساتھ تسبیح پروردگار کیا کرو اور پرندوں کو لَسخّر کردیا اور لوہے کو نرم کردیا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے برتری بخشی تھی اے پہاڑو ! ان کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندوں کو (انکا مسخر کردیا) اور انکے لئے ہم نے لوہے کو نرم کردیا
آیت نمبر 10 تا 14
ترجمہ : اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑی نعمت عطاء کی یعنی نبوت اور کتاب، اور ہم نے کہا اے پہاڑ اور اے پرندو تم داؤد کے ساتھ تسبیح دہراؤ، طیرَ منصوب ہے جبال کے محل پر عطف ہونے کی وجہ سے، اور ہم نے داؤد کے ساتھ تسبیح پڑھنے کا حکم دیا، اور ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کردیا چناچہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھ میں لوہا گوندھے ہوئے آٹے کے مانند ہوگیا اور ہم نے حکم دیا کہ لوہے کی لمبی (مکمل) زرہ بناؤ کہ ان کو پہننے والا زمین میں گھسیٹے اور بنانے میں یکسانیت کا خیال رکھو زرہ سازکو ” سراد “ کہتے ہیں یعنی ایسی زرہ بناؤ کہ اس کے حلقے مساوی ہوں، اے آل داؤد تم داؤد کی معیت میں نیک کام کیا کرو میں سب کے اعمال کو دیکھتا ہوں لہٰذا میں تم کو اس کا صلہ دوں گا اور ہم نے ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا اور ایک قراءت میں ریحٌ رفع کے ساتھ کہ اس کا صبح سے زوال تک کا سفر ایک ماہ کی مسافت تھی غدوٌّ الغداۃُ سے ماخوذ ہے، بمعنی صبح اور (اسی طرح) اس کا شام (یعنی) زوال سے غروب تک کا سفر ایک ماہ کی مسافت تھی اور ہم نے سلیمان کے لئے تانبے کا چشمہ پگھلا کر جاری کردیا چناچہ تین رات دن تک پانی کے مانند جاری رکھا، حضرت سلیمان کو جو (بطورمعجزہ) عطا کیا گیا تھا آج تک لوگ اس کو استعمال کررہے ہیں، جناتوں میں سے کچھ ایسے تھے جو حکم خداوندی سے (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) کے ماتحت ہو کر کام کرتے تھے اور جو ان میں سے (سلیمان) کی اطاعت کے ہمارے حکم سے سرتابی کرے گا ہم کو آخرت میں آگ کا عذاب چکھائیں گے، اور کہا گیا ہے کہ دنیا ہی میں (چکھائیں گے) بایں طور کہ فرشتہ اس کو آگ کے کوڑے سے ایک مار مارے گا کہ وہ آگ اس کو جلا دے گی سلیمان جو چاہتے تھے (جنات) ان کے لئے وہ بنا دیتے تھے مثلاً محاریب یعنی بڑی بڑی اونچی عمارتیں کہ جن پر سیڑھیوں کے ذریعہ چڑھا جائے اور مجسمے، تماثیل کی جمع ہے، تمثال ہر اس شئ کو کہتے ہیں جس کو تو کسی کے مثل بنائے یعنی تانبے کی یا سیسہ کی یا سنگ مرمر کی مورتیں بناتے تھے اور مورتوں کا بنانا ان کی شریعت میں حرام نہیں تھا اور حوض جیسی لگن (بناتے تھے) جِفَانُ جَفنَۃٌ کی جمع ہے (بمعنی لگن، بڑے پیالے) اور جَوَابٌ جابیَۃٌ کی جمع ہے، بڑے حوض کو کہتے ہیں، جَفْنَۃٌ سے بیک وقت ایک ہزار آدمی کھا سکتے ہیں اور ایک جگہ جمی رہنے والی دیگیں (بناتے تھے) جن کے پائے ہوتے تھے جو اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھیں، یہ یمن میں پہاڑوں سے بنائی جاتی تھیں، کہ جن سیڑھیوں کے ذریعہ چڑھا جاتا تھا، ہم نے کہا اے آل داؤد اللہ کی اطاعت میں جو کچھ اس نے تم کو دیا ہے اس کے شکریہ میں (نیک) عمل کرو میرے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہی ہوتے ہیں، یعنی میری نعمت کا عملی طور پر شکر کرنے والے (کم ہوتے ہیں) پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیج دیا یعنی انتقال ہوگیا اور اپنے عصا کے سہارے ایک سال تک بحالت مردہ کھڑے رہے اور جنات اپنی عادت کے مطابق اعمال شاقہ میں لگے رہے (انکو) (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا احساس تک نہ ہوا، یہاں تک کہ جب دیمک نے ان کا عصا کھالیا تو مردہ ہونے کی وجہ سے گرپڑے، تو ان کی موت کی خبر کسی نے ان کو نہ دی سوائے دیمک کے الارْضُ ، اُرِضَتِ الخَشَبَۃُ سے مصدر مجہول ہے (یعنی) اس کو دیمک نے کھالیا جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی مِنْشأۃٌ ہمزہ کے ساتھ ہے، اور ہمزہ الف کے ساتھ بھی ہے (مِنْساۃ) ای عصَاہُ اس لئے کہ اس سے دور کیا جاتا ہے، دفع کیا جاتا ہے اور دھمکایا جاتا ہے چناچہ جب سلیمان (علیہ السلام) مردہ ہو کر گرپڑے تب کہیں جنات کو ان کی (موت) کا علم ہوا اگر جنات غیب داں ہوتے تو اس ذلت کی مشقت میں مبتلا نہ رہتے اور ان کے دعوائے علم غیب کی نفی اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت مخفی رہی یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زندہ سمجھ کر اپنے دعوائے غیب کے باوجود مشقت کے کام میں نہ لگے رہتے، اور عمل شاق کی ایک سال کی مدت کا علم عصا کی اس مقدار کے حساب سے ہوا جس مقدار کو دیمک نے سلیمان کی موت کے بعد مثلاً ایک رات دن میں کھایا تھا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَوِّبِیْ یہ تاویبٌ سے امر کا واحد مؤنث حاضر ہے بمعنی تَرْجِیْعٌ باربار دہرانا، تکرار کرنا، اَوِّبِیْ اصل میں اَوِّبِیْنَ تھا امر کی وجہ سے نون حذف ہوگیا وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلاً واؤ استینافیہ ہے اور لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے، تقدیر یہ ہے وعزتنا وجلالنا لقد اٰتینا منا، مِنَّا، اٰتَیْنَا سے متعلق ہے یا محذوف سے متعلق ہو کر حال ہے تقدیر عبارت ہے کائنًا مِنّا فَضْلاً ، کائنًا مِنَّا اصل میں فَضٌلاً کی صفت ہے مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہوگیا فَضْلاً مفعول ثانی ہے اور داؤد مفعول اول ہے۔
قولہ : وقُلْنَا یَا جِبَالُ. یا جِبَالُ ، قُلْنَا فعل محذوف کا مقولہ ہے اور اس کا عطف اٰتَیْنَا پر ہے والطَّیْرَ کا عطف محل جبال پر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس لئے کہ منادی مفرد محلاً منصوب ہوتا ہے یا مفعول معہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے والطَّیرُ لفظ جبال پر عطف کی وجہ سے مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔
قولہ : دُرُوْعًا، دُرُوْعًا مقدر مان کر شارح نے اشارہ کردیا سابغاتٍ صفت ہے اور دُرُوْعًا اس کا موصوف محذوف ہے۔
قولہ : سَرْدٌ زرہ کو کہتے ہیں سَرَّادٌ زرہ ساز کو کہتے ہیں۔
قولہ : لِسُلَیْمَانَ مفسر علام نے سَخَّرْنَا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مجرور کا متعلق سخَّرنا ہے اور ریح مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور رفع کی صورت میں ریح مبتداء مؤخر حذف مضاف کے ساتھ اور لسلیمانَ خبر مقدم، تقدیر عبارت یہ ہے وَتُسَخَّر الرِّیْحُ کائِنٌ لسُلَیمَانَ مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کے مقام کردیا۔
قولہ : ومِنَ الجِنِ مَنْ یعمَلُ ، مِنَ الجِنّ فعل مقدر کے متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وسَخّرنالَہٗ مِنَ الجِنِّ اور مَنْ یعمل فعل مقدر بہ ہوگا، اور یہ بھی جائز ہے کہ من الجن خبر مقدم ہو اور مَنْ یعمَلُ مبتداء مؤخر۔
قولہ : قُدُورٍ. قِدْرٌ کی جمع ہے بمعنی ہانڈی راسیاتٌ ای ثابتاتٌ.
قولہ : اعْمَلُوْا جملہ مستانفہ ہے اٰلَ داوٗدَ منادیٰ ہے حرف ندا محذوف ہے اور شُکْرًا مفعول لہ ہے۔
قولہ : قلیلٌ خبر مقدم ہے اور من عبادی اس کی صفت ہے اور الشکور مبتدامؤخر ہے۔
قولہ : الارْضَۃُ دیمک، کرمک، چوب خور، (جمع) ارضٌ.
قولہ : مِنْسَأَۃٌ بروزن مِفْعَلَۃُ ایک قراءت میں الف کے ساتھ ہے، عصا، دفع کرنے کا آلہ۔ قولہ : دَابَّۃ الأرضِ دیمک۔
تفسیر وتشریح
ولقد۔۔ فضلاً فضل کے معنی زیادتی کے ہیں مگر یہاں دواؤد علیہ السلاۃ والسلام کی امتیازی خصوصیات مراد ہیں یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا، ان امتیازی خصوصیات میں سے حسن صوت کی نعمت تھی کہ جب آپ ذکر الہٰی یا زبور کی تلاوت کرتے تھے تو پتھرب کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہوجاتے فضاء میں اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمرمہ خواں ہوجاتے۔ والطیرَ کا عطف یا جبالُ کے محل پر ہے، اس لئے کہ یا جبالُ محلاً منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے نادَیْنَا الجِبَالَ والطَیْرَ پہاڑ یہ تسبیح کو داؤد علیہ السلاۃ والسلام کے ساتھ کرتے تھے اس عام تسبیح کے علاوہ ہے جس میں کل مخلوقات شریک ہیں اور جو ہر وقت اور ہر زمانہ میں جاری ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے وَاِنْ مِنْ شَئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بحَمْدِہٖ ولٰکِن لا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیحَھُمْ یہاں جس تسبیح کا ذکر ہے وہ حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے یہ ظاہر ہے کہ اس تسبیح کو عام لوگ بھی سنتے سمجھتے ہوں گے، ورنہ پھر معجزہ ہی نہ ہوگا۔
والنا۔۔ لاحدید (الآیۃ) یہ حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کا دوسرا معجزہ ہے، حسن بصری، قتادہ اور اعمش رحمھم اللہ تعالیٰ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم کردیا تھا، جس کی وجہ سے نہ گرم کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اور نہ ہتھوڑے سے کوٹنے کی، ایک دوسری آیت میں یہ بھی مذکور ہے وَعَلَّمْنَاہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لکّمْ یعنی ہم نے ان کو زرہ سازی کی صنعت سکھائی، اور اس آیت میں بھی آگے قدِّر فی السَّردِ آیا ہے، یہ بھی اس صنعت سکھانے کی تکمیل ہے لفظ قدِّر تقدیر سے مشتق ہے جس کے معنی ایک اندازے سے بنانے کے ہیں اور سَرْدٌ کے معنی بننے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ زرہ بنانے میں یکسانیت ملحوظ رہے حلقے چھوٹے بڑے نہ ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ مصنوع میں باطنی خوبی کے ساتھ ظاہری خوبی بھی مطلوب ہے
قَدِّرفَی السَّرْدِ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)
بعض حضرات نے قدِّر فی السَّردِ سے یہ مراد لیا ہے کہ اس صنعت کے لئے وقت کی ایک مقدار معین کرلینا چاہیے تاکہ تمام اوقات اس میں صرف نہ ہوجائیں، ایسا نہ ہو کہ عبادت اور امور سلطنت کی انجام دہی میں اس کی وجہ سے خلل پڑے۔
صنعت وحرفت کی فضیلت : مذکورہ آیت سے ثابت ہوا کہ اشیاء ضروریہ کی ایجاد وصنعت ایسی اہم چیز ہے کہ حق تعالیٰ نے خود اس کی تعلیم کا اہتمام فرمایا، اور عظیم الشان پیغمبروں کو سکھلایا، حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کو زرہ سازی کی صنعت سکھائی اور حضرت نوح علیہ السلاۃ والسلام کو کشتی بنانے کی صنعت سکھائی گئی، اسی طرح دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی مختلف صنعتیں سکھانا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
صنعت کار کو حقیر سمجھنا گناہ ہے : عرب میں مختلف آدمی مختلف صنعتیں اختیار کرتے تھے کسی صنعت کو حقیر نہیں سمجھا جاتا تھا،
اور نہ پیشوں کی بنیاد پر کوئی برادری بنتی تھی، پیشے کے بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھنا اور برادری بنانا یہ ہندوستان میں ہندؤں کی پیدارار ہے، ہندؤں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ اثرات قائم ہوگئے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کو زرہ سازی سکھانے کی حکمت : تفسیر ابن کثیر میں امام حدیث حافظ ابن عسا کر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام اپنی خلافت و سلطنت کے زمانہ میں بھیس بدل کر بازار وغیرہ میں جاتے اور رعایا کے حالات معلوم کرتے اور پوچھتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے ؟ چونکہ داؤد علیہ السلاۃ والسلام کی سلطنت میں عدل و انصاف عام تھا سب لوگ خوشحال تھے ہر انسان عیش و آرام کے ساتھ زندگی گذارتا تھا، اس لئے جس سے سوال کرتے وہ داؤد علیہ السلاۃ والسلام کی تعریف کرتا۔ حق تعالیٰ نے ان کی تعلیم کے لئے ایک فرشتے کو بشکل انسانی بھیج دیا جب داؤدعلیہ السلاۃ والسلام کی اس سے ملاقات ہوئی تو عادت کے مطابق اس سے بھی وہی سوال کیا، فرشتے نے جواب دیا، داؤد بہت اچھا آدمی ہے اپنے نفس کے لئے اور رعیت کے لئے بھی، مگر اس میں ایک کمی ہے اگر وہ نہ ہوتی تو وہ بالکل کامل تھا، داؤد علیہ السلاۃ والسلام نے پوچھا وہ کیا کمی ہے ؟ فرشتے نے کہا وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ مسلمانوں کے بیت المال سے لیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام نے بارگاہ خداوندی میں التجاء کی کہ مجھے کوئی ایسا کام سکھا دیں کہ جا میں اپنے ہاتھ کی مزدوری سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا گذارا کرسکوں اور مسلمانوں کی خدمت اور سلطنت کا کام بلا معاوضہ کروں، حق تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا، اور ان کو زرہ سازی اور پیغمبرانہ یہ اعزاز دیا کہ لوہے کو ان کے لئے نرم کردیا۔
مسئلہ : خلیفۂ وقت یا سلطان جو اپنا پورا وقت امور سلطنت کی انجام دہی میں صرف کرتا ہے شرعاً اسکے لئے یہ جائز ہے کہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا متوسط نفقہ بیت المال سے لے لے، لیکن اگر کوئی دوسری صورت گذارے کی ہوسکے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ جو علماء کرام تعلیم و تبلیغ کی خدمت مفت انجام دیتے ہوں، اور قاضی و مفتی جو لوگوں کے کام میں اپنا وقت صرف کرتے ہوں انکا بھی یہی حکم ہے
وَلِسُلیمَانَ الریحَ حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کے خصوصی فضائل کے ذکر کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام
کے خصوصی فضائل کا ذکر فرمایا، اور فرمایا کہ جس طرح داؤد علیہ السلاۃ والسلام کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کے لئے ہوا کو مسخر کردیا، حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام مع اپنے اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک ماہ کی مسافت صبح سے دوپہر تک طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے ہوجاتی، اس طرح ایک دن میں دو ماہ کی مسافت طے ہوجاتی، حضرت حسن بصری (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ تسخیر ہوا کا معجزہ حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کو ان کے اس عمل کے صلہ میں عطا ہوا تھا کہ ایک روز وہ اپنے گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول تھے، اس میں ایسی مشغولیت ہوئی کہ عصر کی نماز قضاء ہوگئی چونکہ گھوڑے اس غفلت کا سبب ہوئے تھے، اس سبب غفلت کو ختم کرنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام نے ان گھوڑوں کو ذبح کردیا (کیونکہ سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کی شریعت میں گھوڑوں کی قربانی جائز تھی) اور یہ گھوڑے خود سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کی ملک تھے، اس لئے بیت المال مے نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، حضرت داؤد علیہ السلاۃ والسلام کے لئے لوہا نرم کردیا تھا، تو حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کے زمانے میں جنات کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جنات غیب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلاۃ والسلام کی موت کے ذریعہ سے اس عقیدے کے فساد کو واضح فرمادیا۔
10 Tafsir as-Saadi
ہم نے اپنے بندے اور رسول داؤد علیہ السلام پر احسان کیا اور ہم نے انہیں علم نافع اور عمل صالح میں فضیلت بخشی اور انہیں دینی اور دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے کہ اس نے پہاڑوں، حیوانات اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ داؤد علیہ السلام کی حمد و تسبیح کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔ یہ ایسی نعمت ہے جو آپ کے خصائص میں شمار ہوتی ہے اور یہ خصوصیت آپ سے پہلے کسی کو عطا کی گئی نہ آپ کے بعد۔ یہ آواز آپ کو اور دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح پر آمادہ کرتی تھی۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ جمادات، پہاڑ اور حیوانات حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز کا جواب دیتے ہوئے اپنے رب کی تسبیح و تکبیر اور تمجید و تحمید کرتے ہیں تو یہ چیز ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر پر آمادہ کرتی۔
بہت سے علماء کہتے ہیں کہ یہ نعمت داؤد علیہ السلام کی آواز کی طرب خیزی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت خوبصورت آواز سے سرفراز فرمایا تھا اور انہیں اس میدان میں سب پر فوقیت حاصل تھی۔ جب آپ تسبیح و تہلیل اور تمجید و تحمید میں اپنی طرب انگیز آواز بلند کرتے تو جن و انس، پرندے اور پہاڑ آپ کی آواز پر جھوم اٹھتے اور اپنے رب کی تحمید و تسبیح بیان کرنے لگتے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ آپ کی آواز پر طرب میں آ کر تسبیح و تحمید بیان کرنے والے جمادات و حیوانات کی تسبیح کا اجر بھی آپ کو حاصل ہوتا تھا کیونکہ آپ ان کی تسبیح و تحمید کا سبب تھے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی آپ پر فضل و کرم تھا کہ اس نے لوہے کو آپ کے لئے نرم کردیا تاکہ آپ زر ہیں تیار کیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زرہ کی صنعت کی تعلیم دی اور زرہ کے حلقوں کو اندازے پر رکھنا سکھایا یعنی آپ اندازے کے ساتھ زرہ کا حلقہ بناتے تھے پھر ان کو ایک دوسرے میں داخل کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ﴾ (الانبیاء: 21؍80) ” اور ہم نے تمہارے لئے ان کو زرہ بنانا سکھا دیا تاکہ یہ زر ہیں تمہیں ایک دوسرے کی ضرب سے محفوظ رکھیں، تو پھر کیا تم شکر گزار ہو گے؟“
11 Mufti Taqi Usmani
aur waqiaa yeh hai kay hum ney dawood ko khaas apney paas say fazal ata kiya tha . aey paharo ! tum bhi tasbeeh mein unn kay sath hum aawaz ban jao , aur aey parindon ! tum bhi . aur hum ney unn kay liye lohey ko naram ker diya tha ,
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت داؤد پر انعامات الٰہی۔
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت داؤد (علیہ السلام) پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ یہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آگیا۔ پہاڑوں نے آواز میں آوا زملا کر اللہ کی حمد وثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رات کو حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔ ابو عثمان نہدی کا بیان ہے کہ واللہ ہم نے حضرت ابو موسیٰ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی۔ اوبی کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ حضرت داؤد کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں۔ تاویب کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں۔ جیسے سری کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد بیان کرو۔ اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کیلئے لوہا نرم کردیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہوجاتا تھا جیسے دھاگے، اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کردیتے۔ زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح انداز سے حلقے اور کڑیاں ہوں۔ ابن عساکر میں ہے حضرت داؤد (علیہ السلام) بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے ؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا۔ حضرت داؤد کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا انہوں نے کہا کہ داؤد ہے تو اچھا آدمی اگر ایک کمی اسمیں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا۔ آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو بھی اسی میں سے کھلاتا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتادے جس سے میں اتنا حاصل کرلیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کیلئے بالکل نرم کردیا۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں۔ ایک زرہ بناکر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرلیتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کیلئے ایک صدقے کیلئے ایک رکھ چھوڑنے کیلئے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں۔ حضرت داؤد کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بےنظیر تھا اللہ کی کتاب زبور پڑھنے کو بیٹھتے۔ آواز نکلتے ہی چرند پرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں۔ آپ کی بےمثل خوش آوازی کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں۔ اپنی نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں۔ اس کی فرمانبرداری ترک کردی جائے۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں۔