یٰس آية ۱
يٰسٓ ۚ
طاہر القادری:
یا، سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ya, Seen.
1 Abul A'ala Maududi
یٰس
2 Ahmed Raza Khan
یسٰں
3 Ahmed Ali
یسۤ
4 Ahsanul Bayan
یٰسِین (١)
١۔١ بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنٰی میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یٰسٓ
6 Muhammad Junagarhi
یٰس
7 Muhammad Hussain Najafi
یاسین(ص)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یٰسۤ
9 Tafsir Jalalayn
یٰسین
آیت نمبر 1 تا 12
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے یسٓن اس سے اللہ کی کیا مراد ہے وہی بہتر جانتا ہے قسم ہے محکم قرآن کی جو عجیب نظم اور انوکھے معانی سے محکم ہے بلاشبہ اے محمد آپ مرسلین میں سے ہیں (اور) سیدھے راستہ پر ہیں علیٰ اپنے ماقبل (مرسلین) سے متعلق ہے (اور طریق مستقیم سے مراد) انبیاء سابقین کا طریقہ ہے، جو کہ توحید اور ہدایت کا راستہ ہے، اور قسم وغیرہ کے ذریعہ تاکید کافروں کے قول لَسْتَ مُرسَلاً کو رد کرنے کے لئے ہے یہ قرآن اس (خدا) کا نازل کردہ ہے جو اپنے ملک میں غالب اور اپنی مخلوق پر مہربان ہے (تنزیل العزیز) مبتداء محذوف یعنی القرآن کی خبر ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو آگاہ کریں کہ جس کے آباء (و اجداد) کو آگاہ نہیں کیا گیا یعنی جن کو (فترت) یعنی وقفہ کے زمانہ میں آگاہ نہیں کیا گیا، لِتُنْذِرَ ، تنزیل کے متعلق ہے، اسی وجہ سے یہ قوم ایمان و ہدایت سے بیخبر ہے ان میں سے اکثر لوگوں پر (تقدیری طور پر ) بات ثابت ہوچکی ہے تو یہ اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اس طریقہ سے کہ طوق نے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ جکڑ دیا ہے چناچہ وہ بندھے ہوئے ہاتھ ٹھوڑی تک پھنسے ہوئے ہیں اَذْقان ذَقَنٌ کی جمع ہے اور ذَقَنْ دونوں جبڑوں کے ملنے کی جگہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے ہیں ان کو جھکا نہیں سکتے اور یہ ایک تمثیل ہے، اور مراد ہے کہ لوگ ایمان کا اقرار نہیں کرتے اور نہ اپنے سروں کو ایمان کے لئے جھکاتے ہیں اور ہم نے ایک آڑان کے سامنے اور ایک آڑان کے پیچھے کردی، دونوں جگہ سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے ہم نے ان کے اوپر پردہ ڈال دیا تو وہ دیکھ نہیں سکتے یہ بھی ایک تمثیل ہے ان پر ایمان کے راستوں کو مسدود کرنے کے لئے اور ان کو آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کو الف سے بدل کر، اور ثانی کی تسہیل (نرمی) کے ساتھ، اور مسہلہ اور غیر مسہلہ کے درمیان الف داخل کرکے، اور ترک ادخال کرکے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں آپ تو صرف اس شخص کو نصیحت کرسکتے ہیں جو نصیحت یعنی قرآن کی پیروی کرے اور غائبانہ طور پر یعنی رحمٰن کو بغیر دیکھے رحمٰن سے ڈرے آپ کا ڈرانا اس کو فائدہ دے سکتا ہے سو آپ اس کو مغفرت کی اور عمدہ عوض کی کہ وہ جنت ہے خوشخبری سنادیجئے، اور بیشک ہم مردوں کو اٹھانے کے لئے زندہ کریں گے اور انہوں نے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال کرکے آگے بھیجے ہیں اور جو اعمال پیچھے چھوڑے ہیں جن کے نقش قدم پر بعد میں چلا گیا ہم ان کو زندہ کریں گے ہم انکو لوح محفوظ میں قلمبند کرلیتے ہیں تاکہ انکو ان اعمال کی جزاء دی جائے اور ہم نے ہر چیز کو روشن کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، روشن کتاب لوح محفوظ ہے کُلَّ شئ اس فعل مقدر کیوجہ سے منصوب ہے جس کی بعد والا فعل (اَحصینَاہ) تفسیر کررہا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یٰسٓ قراء سبعہ نے نون کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اس کے علاوہ نون کا ضمہ، فتحہ، کسرہ تین قراءتیں اور بھی ہیں مگر شاذ ہیں
قولہ : اللہ اعلم بمرادہٖ حروف مقطعات کے بارے میں یہ قول سب سے اسلم اور احوط ہے، ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یٰسٓ لغت بنی طے میں ” یا انسان “ کے معنی میں ہے، اور ابن الحنفیہ سے مروی ہے یٰسٓ ” یامحمد “ کے معنی میں ہے۔
قولہ : والقرآن الحکیم واؤ قسمیہ ہے اور القرآن مقسم بہ ہے اِنّکَ لمِنَ الْمُرسَلِیْنَ جواب قسم ہے۔
قولہ : مُقْمَحُوْنَ یہ اقماحٌ سے مُقْمَحٌ اسم مفعول کی جمع مذکر ہے قَمْحٌ مادہ ہے گردن پھنسنے کی وجہ سے سر اوپر کو اٹھے ہوئے، بَعیْرٌ قامِعٌ وہ اونٹ جو پانی پینے کے بعد آنکھیں بند کرکے سر اٹھا کر کھڑا ہو، چونکہ دوزخیوں کی گردنوں میں طوق پھنسنے ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے ٹھوڑیاں اوپر کو اٹھ جائیں گی، جس کی وجہ سے لامحالہ سر بھی اوپر کو اٹھ جائیں گے۔ (لغات القرآن)
قولہ : تنزیل العزیز یہ ھٰذا مبتداء محذوف کی خبر ہے یا اَمْدَحُ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے ای اَمْدَحُ تَنْزِیْلَ العزِیْزِ یا نَزَّلَ
محذوف کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای نَزَّلَ تنزِیْلاً ۔
قولہ : فِی لوحٍ محفوظٍ یہ نکتُبُ کا ظرف ہے، بہتر ہوتا کہ مفسر (رح) تعالیٰ فی لوح محفوظ کے بجائے فی صحف الملائکۃ کہتے اس لئے کہ دنیا میں اعمال کی کتاب صحف ملائکہ میں ہوتی ہے نہ کہ لوح محفوظ میں۔
قولہ : کُلَّ شیئٍ اپنے مابعد فعل کی وجہ سے منصوب ہے، اور یہ باب اشتغال سے ہے ای اَحْصَیْنَا کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہ۔
قولہ : آثار، اَثَرْ . کی جمع ہے نشان کو کہتے ہیں، یہاں عملی نمونے مراد ہیں خواہ اچھے ہوں یا برے۔
تفسیر وتشریح
سورة یٰسٓ کے فضائل : احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یٰسٓ قلب القرآن لا یقْرَؤھَاعَبْدٌ یُرِیْدُ اللہ وَالدَّ الْآخِرَۃَ اِلَّا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذنبِہٖ وَمَا تَأخَّرَ فَاقرء وھَا عَلیٰ مَوتَاکُمْ معقل بن یسار نے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یٰسین قرآن کا دل ہے، جو بندہ اس کو خالص لوجہ اللہ اور طلب آخرت کے لئے پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیں گے، لہٰذا تم اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھا کرو۔ (فتح القدیر اختصارًا)
امام غزالی (رح) تعالیٰ نے فرمایا سورة یٰسین کو قلب قرآن فرمانے کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ اس سورت میں قیامت حشر و نشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اور اصول ایمان میں سے عقیدۂ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے، خوف آخرت ہی انسان کو عمل آخرت پر آمادہ اور مستعد کرسکتا ہے اور وہی اس کو ناجائز خواہشات اور حرام سے روکتا ہے تو جس طرح بدن کی صحت قلب پر موقوف ہے اسیطرح ایمان کی صحت فکر آخرت پر موقوف ہے۔ (روح)
سورة یٰسین کے دوسرے نام : سورة یٰسین کو حدیث شریف میں عظیمہ بھی کہا گیا ہے، اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ تورات میں اس سورت کا نام مُعِمہ آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا وآخرت میں خیرات و برکات کو عام کرنے والی، اور بعض روایات میں اس کا نام مدافعہ بھی آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والوں سے بلاؤں کو دفع کرنے والی، اسی طرح بعض روایات میں اس کا نام قاضیہ آیا ہے یعنی حاجات کو پورا کرنے والی۔ (روح المعانی)
یٰسٓ یہ حروف مقطعات میں سے ہے اور جمہور مفسرین کا مشہور قول تو وہی ہے کہ اس کی صحیح اور حقیقی مراد تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، احکام القرآن میں امام مالک (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰسین اللہ کے اسماء میں سے ایک ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ” اے انسان “ اور انسان سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
کسی کا یٰسین نام رکھنا کیسا ہے ؟ امام مالک (رح) تعالیٰ نے اس کو اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ ان کے نزدیک یہ اسماء الہٰیہ میں سے ہے اور اس کے صحیح معنی معلوم نہیں اس لئے ممکن ہے کہ اس کے کوئی ایسے معنی ہوں کہ اللہ کے ساتھ مخصوص ہوں البتہ اگر اس لفظ کو یٰسین، یاسین کے رسم الخط سے لکھا جائے تو یہ کسی انسان کا نام رکھنا کا ئز ہے، کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے سَلاَمٌ علیٰ آل یاسین یا الیاسین۔ (ابن عربی، معارف)
یٰسٓ۔۔ الحکیم یعنی قسم ہے حکمتوں سے پُر قرآن کی، قرآن کریم اپنی اعجازی شان اور پُر حکمت تعلیمات اور پختہ مضامین کے لحاظ سے اس بات کا بڑا زبردست شاہد ہے کہ جو نبی امی کو لے کو آیا ہے یقیناً وہ اللہ کا بھیجا ہوا اور بلاشک وشبہ راہ مستقیم پر ہے، اس کی پیروی کرنے والوں کو کوئی منزل مقصود سے بھٹکنے کا نہیں۔
تَنْزِیْلَ العَزِیزِ الرَّحِیْمِ یعنی یہ قرآن حکیم اس خدا کا نازل کیا ہوا ہے جو زبردست بھی ہے کہ منکرین کو سزا دیئے بغیر نہ چھوڑے، اور رحم کرنے والا بھی ہے کہ ماننے والوں کو نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال کردے اسی لئے آیات قرآنیہ میں بعض آیات شان لطف ومہر کا اور بعض شان غضب وقہر کا پہلو لئے ہوئے ہیں۔
لتنذر۔۔۔ غافلون یعنی بہت ہی مشکل اور کٹھن کام آپ کے سپرد ہوا ہے کہ قوم (عرب) کو اس قرآن کے ذریعہ ہوشیار اور بیدار کریں جس کے پاس صدیوں سے کوئی بیدار کرنے والا نہیں آیا، وہ جاہل اور غافل قوم جسے نہ خدا کی خبر اور نہ آخرت کی، نہ ماضی سے عبرت نہ مستقبل کی فکر، نہ مبدأ پر نظر اور نہ منتہا پر، نہ نیک وبد کی تمیز اور نہ بھلے برے کا شعور، اس کو اتنی ممتد جہالت و غفلت کی تاریکیوں سے نکال کر رشد و ہدایت کی صاف شاہ راہ پر کھڑا کرنا کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے، بلاشبہ آپ پوری قوت وتندہی کے ساتھ ان کو اس غفلت وجیالت کے خوفناک نتائج اور بھیانک و ہولناک مستقبل سے ڈر کر فلاح و بہبود کے اعلیٰ مدارج پر پہنچانے کی کوشش کریں گے، لیکن آپ کو بہت سے ایسے افراد بھی ملیں گے جو کسی قسم کی نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں، شیطان ان پر پوری طرح مسلط ہوچکا ہے کہ ان کی حماقتوں اور شرارتوں کو ان کی نظر میں خوشنما اور آراستہ کرکے دکھلا رہا ہے، اس وقت ایک طرف شیطان کی بات لَاُ غْوِیَنَّھُمْ اجمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ المُخْلَصِیْنَ (مخلصین کے سوا میں سب کو بہکا کررہوں گا) سچی ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف حق تعالیٰ کا قول لَأ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ ومِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اجمعین (تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے دوزخ کو بھردوں گا) ثابت اور چسپاں ہوجاتا ہے۔
لقد۔۔۔ اکثرھم (الآیۃ) حق تعالیٰ نے کفر و ایمان اور دوزخ و جنت کے دونوں راستے انسان کے سامنے کردیئے ہیں، اور ایمان کی دعوت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھی بھیج دیں، انسان کو اتنا اختیار بھی دیدیا کہ وہ بھلے برے میں تمیز کرسکے، جو بدنصیب نہ غور وفکر سے کام لے اور نہ دلائل قدرت میں غور کرے نہ انبیاء کی دعوت پر کان دھرے اور نہ واقعات وحادثات کو دیکھ کر چشم عبرت دا کرے، تو اس نے اپنے اختیار سے جو راہ اختیار کرلی تو حق تعالیٰ نے اس کے لئے اسی کے اسباب جمع فرمادیئے ہیں، اسی کو اس طرح تعبیر کیا ہے لَقَد حقَّ القَولُ علیٰ اکثرِھِمْ فھُمْ لاَ یٗؤمِنُوْنَ یعنی ان میں سے بیشتر لوگوں پرتو ان کے سواء اختیار کی بناء پر یہ قول حق جاری ہوچکا ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۔
انا۔۔۔ اعناقھم (الآیۃ) اس آیت میں مذکورہ لوگوں کے حال کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کے گردن میں ایسے طوق ڈالدیئے گئے ہوں کہ ان کا چہرہ اور آنکھیں اوپر اٹھ جائیں، جو نہ اپنے وجود کو دیکھ سکے اور نہ اس کو واستہ ہی نظر آئے، تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص خود کو کسی کھڈ میں گرنے سے نہیں بچاسکتا۔
وجعلنا۔۔۔ سدًّا (الآیۃ) مذکورہ لوگوں کی یہ دوسری تمثیل ہے، ان لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ اس کے چاروں طرف دیوار کھڑی کردی گئی ہو، اور وہ اس چہار دیواری میں محصور ہو کر رہ گیا ہو جس کی وجہ سے وہ باہر کی چیزوں سے بالکل بیخبر ہے، ان کافروں کے گرد بھی ان کی جہالت اور مزید برآں عنادوہٹ دھرمی نے محاصرہ کرلیا ہے، کہ باہر کی حق باتیں ان تک پہنچتی ہی نہیں۔ امام رازی نے فرمایا کہ نظر سے مانع دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک مانع تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے خود اپنے وجود کو بھی نہ دیکھ سکے، دوسرا وہ کہ اپنے گروپیش کو نہ دیکھ سکے، ان کفار کے لئے حق بنیی سے دونوں قسم کے مانع موجود تھے، اس لئے پہلی تمثیل پہلے مانع کی ہے کہ جس کی گردن نیچے کو جھک نہ سکے، وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ سکتا، اور دوسری تمثیل دوسرے مانع کی ہے کہ گردوپیش کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح، معارف)
جمہور مفسرین نے مذکورہ تمثیل کو ان کے کفر وعناد کی تمثیل ہی قرار دیا ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے بعض روایات کی بناء پر ایک واقعہ کا بیان قرار دیا ہے، کہ ابوجہل اور بعض دوسرے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے یا ایذاء پہنچانے کا پختہ عزم کرکے آپ کی طرف بڑھے، مگر اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، جس کی وجہ سے آپ ان کو نظر نہ آئے عاجز ہو کر نامراد واپس آگئے، اسی قسم کے متعدد واقعات تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، قرطبی وغیرہ میں منقول ہیں، مگر ان میں پیشتر روایات ضیعف ہیں جس کی وجہ سے ان پر آیت کی تفسیر کا مدار نہیں رکھا جاسکتا۔
ونکتب۔۔ آثارھم، ماقَدَّموا سے وہ آثار مراد ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور آثارھم سے وہ اعمال مراد ہیں جس کے عملی نمونے (اچھے یا برے) وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے، اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتداء میں لوگ وہ اعمال اختیار کرتے ہیں، جس طرح حدیث میں ہے، جس نے اسلام میں کوئی نیا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کا بھی کو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اس کے اپنے گناہوں کا بھی بوجھ ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرے گا اس کے ان میں سے کسی کے بوجھ میں کمی ہو۔ (صحیح بخاری، مسلم، کتاب الزکوٰۃ) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے (١) ایک علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں (٢) دوسرے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرے (٣) تیسرے صدقہ جاریہ جس سے لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الوصیۃ)
ونکتب۔۔ آثارھم کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کارخیر میں اگر کوئی آدمی چلت پھرت اور کوشش کرتا ہے تو اسکے ہر قدم یعنی اسکی کوشش اور سعی کا اجر اسکو دیا جاتا ہے، عہد نبوی میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی پڑی تھی، نبی سلمہ کے مکانات مسجد نبوی سے ذرا فاصلہ پر تھے، بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکو مسجد کے قریب ہونے سے روک دیا، اور فرمایا دِیَارَ کُمْ تکتبُ آثارکمْ (اور یہ جملہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا) یعنی تمہارے گھر اگرچہ (مسجد نبوی سے) دور ہیں لیکن وہیں رہو جتنے قدم تم چل کر آتے ہو وہ لکھے جاتے ہیں (صحیح مسلم کتاب المساجد)
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
Ya-Seen !