النساء آية ۴۳
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْـتُمْ سُكَارٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِىْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۗ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَاۤءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۤٮِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۤءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۤءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not approach prayer while you are intoxicated until you know what you are saying or in a state of janabah, except those passing through [a place of prayer], until you have washed [your whole body]. And if you are ill or on a journey or one of you comes from the place of relieving himself or you have contacted women [i.e., had sexual intercourse] and find no water, then seek clean earth and wipe over your faces and your hands [with it]. Indeed, Allah is ever Pardoning and Forgiving.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو اور نہ ناپاکی کی حالت میں بے نہائے مگر مسافری میں اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتو ں کو چھوا اور پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو بیشک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! جس وقت کہ تم نشہ میں ہو نماز کے نزدیک نہ جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھو سکوکہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنبی ہونے کی حالت میں مگر راستہ گزرتے ہوئے یہاں تک کہ غسل کر لو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی شخص تم میں سے رفع حاجت کر کے آئے یا عورتوں کے پاس گئے ہو پھر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اسے اپنے مونہوں پر اور ہاتھوں پر ملو بے شک الله معاف کرنے والا بخشنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ (١) جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو (٢) ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے (٣) اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو (٤) بیشک اللہ تعالٰی معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔
٤٣۔١ یہ حکم اس وقت دیا گیا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو۔ گویا اسوقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروطہ ہے)
٤٣۔٢ یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت بہت ضروری ہے۔
٤٣۔٣ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑے تو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔
٤٣۔٤ (۱) بیمار سے مراد وہ بیمار جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو، (۲) مسافر عام ہے لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طرر پر پیش آتی تھی اس لیے بطور خاص ان کے لیے اجازت بیان کردی گئی ہے (۳) قضائے حاجت سے آنے والا (٤) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قال فی التیمم;(ضربۃ للوجہ والکفین) (مسند احمد۔ عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ جلد ٤حفحہ ۲٦۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے (صعیدا طیبا) سے مراد پاک مٹی ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہرچیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے حدیث میں اس کی مذید وضاحت کردی گئی ہے (جعلت تربتھا لنا طھورا اذا لم نجد الماء) (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد) جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ، جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو، ہاں اگر راه چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منھ اور اپنے ہاتھ مل لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ، بخشنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو۔ نماز کے قریب مت جاؤ جبکہ نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ (نشہ اتر جائے اور) تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور نہ ہی جنابت کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ) یہاں تک کہ غسل کر لو۔ الا یہ کہ تم راستے سے گزر رہے ہو (سفر میں ہو)۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کے آئے۔ یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پھر پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ کہ (اس سے) اپنے چہروں اور ہاتھوں کے کچھ حصہ پر مسح کرلو۔ بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے، بڑا بخشنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی مگر یہ کہ راستہ سے گزر رہے ہو جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پیخانہ نکل آئے, یا عورتوں سے باہمی جنسی ربط قائم ہوجائے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تمیم کرلو اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ یہ آیت حرمت شراب کی آیت سے منسوخ ہے اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر راستے چلے جا رہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عوتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح (کر کے) تیمم کرلو بیشک خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
آیت نمبر ٤٣ تا ٥٠
ترجمہ : اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یعنی نماز مت پڑھو، اس لئے کہ اس آیت کے نزول کا سبب حالت نشے میں جماعت سے نماز پڑھنا تھا، یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ یعنی ہوش میں آجاؤ، اور نہ حالت جنابت میں جب تک کہ تم غسل نہ کرلو (نماز پڑھو) حالت جنابت خواہ ادخال کی وجہ سے ہو یا انزال کی وجہ سے جنبًا کا اطلاق مفرد اور غیرمفرد دونوں پر ہوتا ہے، بجز اس کے کہ تم حالت سفر میں ہو تو تمہارے لئے (بغیر غسل) نماز پڑھنا جائز ہے، مسافر کو مستثنیٰ کیا ہے اسلئے کہ مسافر کا حکم عنقریب آتا ہے (اور وہ تیمّم ہے) اور کہا گیا ہے کہ ممانعت نماز گاہوں یعنی مسجد میں داخل ہونے سے ہے مگر بغیر رکے مساجد سے گذرنے کی اجازت ہے اور اگر تم ایسے مریض ہو کہ پانی نقصان دہ ہو یا تم مسافر ہو اور تم جنبی ہو یا محدث ( بےوضو) یا تم میں سے کوئی استنجا سے آیا ہو (غائط) وہ جگہ جو قضائِ حاجت کے لئے تیار کی گئی ہو، یعنی اس کو حدث ہوگیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور ایک قراءت میں بغیر الف کے ہے اور ان دونوں کے ایک ہی یعنی ہیں، لَمْس سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہاتھ سے چھونے کے ہیں، ابن عمر (رض) کا یہی قول ہے اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مسلک ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ نے باقی جسم کے مس کو بھی اسی (مس بالید) کے ساتھ ملا دیا ہے اور ابن عباس سے (لمس) کے معنی جماع کے منقول ہیں پھر تم پانی نہ پاؤ یعنی طلب و جستجو کے نماز کے لئے طہارت کے لئے پانی نہ پاؤ اس کا تعلق مریضوں کے علاوہ سے ہے، تو تم تیمّم کرو یعنی وقت کے داخل ہونے کے بعد پاک مٹی کا قصد کرو تو اس مٹی پر دو ضربیں مارو اور ان کو اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مع کہنیوں کے مسح کرو (لفظ) مسح متعدی بنفشہ اور متعدی بالحرف دونوں طرح ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑا مغفرت کرنے والا ہے کیا تم نے انھیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ؟ اور وہ یہود ہیں وہ ہدایت کے بجائے گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی گمراہ ہوجاؤ (یعنی) راہ حق سے ہٹ جاؤ تاکہ تم بھی ان جیسے ہوجاؤ اللہ تمہارے دشمنوں کو جانتا ہے سو وہ تم کو ان سے باخبر کرتا ہے تاکہ ان سے بچتے رہو، اور اللہ کا تمہارے لئے محافظ ہونا کافی ہے اور اللہ تم کو ان کے مکر سے بچانے والا کافی ہے بعض یہود ان کلمات کو جن کے ذریعہ تورات میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات نازل فرمائیں انکے مفہوم سے پھر ادیتے ہیں یعنی اس مفہوم سے جس کے لئے ان کو وضع کیا گیا ہے۔ اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرماتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے آپ کی بات سنی اور آپ کے حکم کی نافرمانی کی اور (ہماری) سنو تمہیں سنوایا نہ جائے اور وہ آپ سے رَاعِنَا ( ہماری رعایت کرو) کہتے ہیں، لیکن وہ (راعنا) کہنے میں اپنی زبان کو گھمادیتے ہیں دین اسلام میں طعنہ زنی کرتے ہیں، اور ان کی زبان میں گالی کا کلمہ ہے، حالانکہ اس کلمہ سے سن کو خطاب کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور اگر یہ لوگ عَصَیْنَا کے بجائے، سَمِعنَا وَ اَطَعنَا، اور فقط واسمع کہتے اور وانظرنا، یعنی رَاعِنَا کے بجائے اُنْظُرْاِلَیْنَا (یعنی ہماری رعایت کیجئے) کہتے تو جو کچھ یہ کہتے ہیں اس سے بہتر اور اس سے درست تر ہوتا لیکن اللہ نے ان کو ان کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے، لہٰذا ان میں سے ایمان نہ لائیں گے مگر بہت تھوڑے سے جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب، اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی جاچکی ہے اس کتاب قرآن پر ایمان لاؤجس کو ہم نے نازل کیا جو اس کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے یعنی تو رات اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑدیں یعنی اس میں چیزیں (مثلاً ) آنکھ، ناک اور ابروکو مٹادیں، اور چہروں کو پیچھے کی طرف پلٹ دیں اور ان کو گُدّیوں کے مانند ایک تختی کردیں، یا ہم ان پر لعنت بھجیں یعنی بندروں کی شکل میں کردیں، جیسا کہ ہم نے لعنت کی یعنی مسخ کردیا ان میں سے یوم السبت والوں کو اور اللہ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے، اور جب ( مذکورہ آیت) نازل ہوئی تو عبداللہ بن سلام ایمان لے آئے تو کہا گیا کہ یہ وعید مشروط تھی مگر جب ان میں سے بعض لوگ ایمان لے آئے تو وہ وعید واپس لے لی گئی، اور کہا گیا ہے کہ مٹانا اور مسخ کرنا قبل القیامت ہوگا، یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جا نیکو نہیں بخشتا اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو معاف کردیتا ہے جس کے لئے گناہ معاف کرنا چاہتا ہے اس طریقہ پر کہ ان کو بغیر عذاب جنت میں داخل نہیں کردیگا، اور جو شخص اللہ کے ساتھ ( کسی کو) شریک ٹھہراتا ہے یقینا اسنے گناہ کا ارتکاب کیا۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجو اپنی ستائش خود کرتے ہیں ؟ اور وہ یہود ہیں جبکہ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں، (یعنی) بات ایسی نہیں ہے کہ ان کے پاک کہنے سے وہ پاک ہوجائیں، بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ایمان کے ذریعہ پاکیزہ کرتا ہے اور کسی پر بھی اس کے اعمال میں کمی کرکے ایک گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائیگا، دیکھو یہ کس طرح اللہ پر اس کا بہتان باندھتے ہیں ؟ اور یہ صریح گناہ ہونے کے اعتبار سے کافی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ای لَاتُصَلُّوا، لاتقربوا الصلوةَ کی تفسیر لاتصلوا سے کرکے ان لوگوں پر رد کردیا جو لا تقربوا الصلوةَ سے قریب الی المسجد سے نہی مراد لیتے ہیں۔
قولہ : باَن تَصْحُوْا، یہ اَلصّحْوُ سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں نشہ کی وجہ سے مدہوشی سے ہوش میں آنا۔
قولہ : نَصْبُہ \& عَلَی الْحَالِ ، اس میں اشارہ ہے کہ وَلَا جُنُبًاکا عطف اَنْتُمْ سُکاریٰ پر ہے اور معطوف علیہ چونکہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے لہٰذا ولا جنبًا بھی حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا، جنبًا کا عطف وانتم سکاریٰ پر ہے۔
قولہ : وھُوَیُطْلَقُ عَلَی الْمُفْرَدِوَغَیْرِہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : جُنُبًا، لَا تَقْربوا کی ضمیر فاعل سے حال ہے جو کہ جمع ہے اور جنبًا مفرد ہے لہٰذا حال واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : جُنبًا اسم، مصدر اَلاِ جْناب کے قائم مقام ہے جس میں مفرد تثنیہ جمع اور مذکرومؤنث سب برابر ہیں، لہٰذا حال واقع ہونا صحیح ہے وَلَاجُنُبًا کا عطف، وَاَنْتُمْ سُکاریٰ پر ہے یعنی تم حالت نشہ میں اور حالت جنابت میں نماز کے قریب بھی مت جاؤ۔
قولہ : اِلّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ ، یہ مخاطبین کے عام حالات سے استثناء ہے، ای لا تصلوا جُنبًا فی عامة الا حوال اِلّا فی حالت السفر اِذَالم تجدوا مائً .
قولہ : قِیْلَ اَلْمُرَادُ الُنَّھْیُ عَنْ قِرْبانِ مَوَاضِعِ الصَّلوٰةِ ، یہ آیت کی دوسری مفسیر ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ نے اسی کو لیا ہے۔
قولہ : بَعْدَ دُخُوْلِ الْوَقْتِ ، یہ تفسیر امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مذہب کے مطابق ہے۔
قولہ : تُرَابًا طَاھِرًا صعیدًا طیبًا کی یہ تفسیر امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مذہب کے مطابق ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک تراب کے علاوہ ریت پتھر وغیرہ سے بھی تیمّم درست ہے۔
قولہ : وبِالْحَرْفِ یہ ان لوگوں پر رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بو جو ھکم میں باء زائد ہے اسلئے کہ مسح متعدی بنفسہ بھی ہے اور متعدی بحرب الباء بھی۔
قولہ : حَال بِمَعْنَی الدُّعَائِ اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ غیر مُسْمَعٍ اِسْمع کی ضمیر انت سے حال ہے نہ کہ صفت اسلئے کہ ضمیر نہ صفت واقع ہوتی ہے اور نہ موصوف، اور غیر مسمع نددعاء کے معنی میں ہے، ای لا سَمِعْتَ بصَمَم اوبموتٍ.
قولہ : کَلِمَةُ سَبٍّ یعنی یہود کی لغت میں رَاعِنا، کا کلمہ گالی کے لئے استعمال ہوتا تھا یا تو اس لئے کہ رعونت بمعنی حماقت سے مشتق ہے اس صورت میں الف ندا کا ہوگا بمعنی اے بیوقوف یا راعنا کے عین کسرہ کو کھینچ کر ای راعینا ہمارے چروا ہے۔
قولہ : بِتَزْکِیَتِھِم اَنْفُسَھُم یہ لَیْسَ کی خبر ہے۔
قولہ : بَیِّناً ، مُبیناً کی تفسیر بیّنًا سے کرکے اشارہ کردیا کہ مبینًا اگرچہ متعدی ہے مگر معنی میں لازم کے ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : یٰآیُّھَاالَّذینَ اٰمنوالاتقربوا الصلوة وَانتم سُکَاریٰ ، ترمذی میں حضرت علی (رض) کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ شراب کی حرمت سے پہلے ایک دفعہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے صحابہ کرام کی دعوت کی تھی جس میں شراب نوشی کا بھی انتظام تھا، جب یہ حضرات کھاپی چکے تو مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا اور حضرت علی (رض) کو امام بنادیا گیا، ان سے نماز میں \&\& قل یااَیّھَاالکٰفرون کی تلاوت میں بوجہ نشہ کے سخت غلطی ہوگئی کہ اس طرح پڑھ دیا، قل یاَیّھَاالکافرون لااَعْبُدُ مَا تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون \&\& تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی، جس میں تنبیہ فرمائی گئی کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے۔
شراب کی حرمت : شراب کے متعلق یہ دوسرا حکم ہے پہلا حکم وہ تھا جو سورة بقرہ (آیت ٢١٩) میں گذرا، اس میں صرف یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شراب بری چیز ہے، اللہ کو پسند نہیں، چناچہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت نے اسکے بعد ہی شراب ترک کردی، مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے، حتی کہ بعض اوقات نشہ کی حالت میں بھی نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے تھے، اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے غالباً ٤ ھ کی ابتدا میں یہ دوسرا حکم نازل ہواجس کے ذریعہ نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے ممانعت کردی گئی، اسکے کچھ مدت بعد شراب کی قطعی حرمت کا وہ حکم آیا جو سورة مادہ آیت ٩٠۔ ٩١ میں ہے۔
مسئلہ : جس طرح حالت نشہ میں نماز پڑھنا حرام ہے بعض مفسرین نے فرمایا کہ جب نیند کا ایسا غلبہ ہو کہ آدمی اپنی زبان پر قابو نہ رکھے تو اس حالت میں بھی نماز پڑھنا درست نہیں، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے۔
اِذانَعِسَ اَحَدُ کم فی الصّلوٰةِ فلیَرْ قُدْ حتی یَذْھَبَ عنہ النَّوْمُ لا یَدْرِی لَعَلَّہ \& یَسْتَغْفِرُفَیَسُبُّ نَفْسَہ \&. (قرطبی)
ترجمہ : اگر تم میں سے کسی کو اونگھ آنے لگے تو اسے کچھ دیر کے لئے سو جانا چاہیے تاکہ نیند کا اثر چلا جائے ورنہ نیند کی حالت میں وہ سمجھ نہ سکے گا، اور بجائے دعاء و استغفار کے اپنے لئے بددعاء کرنے لگے گا۔
تیمّم کے احکام : اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان و کرم ہے کہ اس نے طہارت کے لئے ایسی چیز کو پانی کے قائم مقام کردیا کہ جو پانی سے زیادہ سہل الحصول ہے اور یہ سہولت صرف امت محمدیہ ہی کو دی ہے۔
ولا جُنُبًا، جنابت کے اصل معنی دوری اور بیگانگی کے ہیں، اسی سے لفظ اجنبی ہے اصطلاح شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست حکمی ہے جو قضائے شہوت سے یا خواب میں مادہ منویہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔
اِلّا عابری سبیل، فقہاء اور مفسرین میں سے ایک جماعت نے آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے الایہ کہ کسی ضرورت کے لئے مسجد سے گذرنا ہو اس رائے کو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک، حسن بصری، اور ابراہیم نخعی وغیرہ نے اختیار کیا ہے، دوسری جماعت نے اس سے سفر مراد لیا ہے، یعنی آدمی اگر حالت سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمّم کیا جاسکتا ہے، یہ رائے حضرت علی، ابن عباس، سعیدبن جبیر اور دیگر حضرات کی ہے، تیمّم کے تفصیلی مسائل کے لئے فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انہیں معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختلف ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لیے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہوا سے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ﴾(البقرہ : 2؍219) ” تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کردیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا فرمایا : ﴿ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (المائدہ :5؍90) ” بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ “
نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب۔ شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنی سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔
﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ﴾” اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ ہوجاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو“ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ ﴿حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا﴾ ” حتی کہ تم غسل کرلو۔“ یہ جنبی کے لیے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لیے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔
﴿وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا﴾” اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تمیم کرلو“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لیے تمیم کو پانی کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تیمم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہوسکتا ہے، اس لیے جب مسافر کے پاس پینے اور دیگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و برازیا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لیے تمیم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تمیم مباح فرمایا ہے۔
(١) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں۔
(٢) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں۔
مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ) کا معنی بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لیے تمیم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھوٹا ہے، البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہوگا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔
فقہاء ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ” اس نے نہ پایا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہوجائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً﴾ میں داخل ہے اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے اور وہ ہے تمیم کی مشروعیت۔ تمیم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد
تمیم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے ﴿صَعِيدًا ﴾ سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ ” صعید“ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ﴾(المائدہ :5؍6) ’’پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ﴿ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم﴾ ” اور (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو“ جیسا کہ سورۃ مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔
آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، تمام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تمیم کیا جائے۔ جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تیمم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کےتیمم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تیمم میں ہے۔
فائدہ :۔ معلوم ہونا چاہئے کہ طب کا دار و مدار تین قواعد پر ہے۔ (١) ضرر رساں اشیاء سے حفظان صحت۔ (٢) موذی امراض سے نجات حاصل کرنا۔ (٣) ان امراض سے بچاؤ۔
رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔
مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لیے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لیے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کیلیے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے محرم شخص کے لیے سرمنڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کرسکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔
آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تمیم کرناجائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لیے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے۔﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴾” بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہگاروں کے لیے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انہیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندہ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tum nashay ki halat mein ho to uss waqt tak namaz kay qareeb bhi naa jana jab tak tum jo kuch keh rahey ho ussay samajhney naa lago , aur janabat ki halat mein bhi jab tak ghusul naa kerlo , ( namaz jaeez nahi ) illa yeh kay tum musafir ho ( aur paani naa milay to tayammum ker kay namaz parh saktay ho ) . aur agar tum beemar ho ya safar per ho ya tum mein say koi qazaye hajat ki jagah say aaya ho ya tum ney aurton ko chooa ho , phir tum ko paani naa milay to pak mitti say tayammum kerlo , aur apney chehron aur haathon ka ( uss mitti say ) masah kerlo . beyshak Allah bara moaaf kernay wala bara bakhshney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
بتدریج حرمت شراب اور پس منظر
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ جنبی شخص جسے نہانے کی حاجت کو محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورة بقرہ کی (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :219) کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب وہ آیت حضرت عمر (رض) کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا اسے سن کر بھی جناب فاروق (رض) نے یہی دعا مانگی تو (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90 اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ 91) 5 ۔ المائدہ :90-91) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر فاروق اعظم (رض) نے فرمایا ہم باز آئے۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس قوت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے، ابن ماجہ شریف میں ہے حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہوگئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے دعوت کی سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہوگئے اتنے میں نماز کا وقت آگیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورة ( آیت قل یا ایھا الکافرون) میں اس طرح پڑھا (آیت ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون) اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) حضرت عبدالرحمن اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کردی اس پر یہ آیت اتری۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے تھا نہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا (آیت " قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین، ) پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کردیا گیا حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ( ابن جریر) حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے بالکل تائب ہوگئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی حضرت ضحاک (رح) فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے، امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے، بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لئے کہ خطاب کا تکلیف کی سمجھنا شرط ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں اس لئے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کرسکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے واللہ اعلم پس یہ حکم بھی اسی طرح ہوگا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کرسکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد سے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہوسکتا ہے، مسند احمد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے۔
آداب مسجد اور مسائل تیمم
پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کرلے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کردو حضرت ابوبکر (رض) کا دروازہ رہنے دو ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابوبکر (رض) ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کرسکیں اس لئے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور صدیق اکبر (رض) کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی، بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے حضرت ابوبکر (رض) کے حضرت علی (رض) کا نام ہے وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرم ہے ہاں گزر جانا جائز ہے، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے ہیں ان دونوں کے گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو ام المومنین نے عرض کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حیض سے ہوں آپ نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جاسکتی ہے اور نفاس والی کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا آسکتی ہیں۔ ابو داؤد میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ میں حائض اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ امام ابو مسلم خطابی (رح) فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ " افلت " اس کا راوی مجہول ہے۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی وجہ معدوم ذہلی ہیں۔ پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ (رض) اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ (رض) ہے لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ (رض) کا ہی ہے۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں یہ حدیث بالکل ضعیف ہیں واللہ اعلم۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمن سے بھی اس کے مثل مروی ہے، عبداللہ بن کثیر (رح) فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے، اس حدیث سے بھی مسئلہ کی شہادت ہوسکتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر ہے (سنن اور احمد) امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں اس سے مراد صرف گزر جانا ہے کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو نماز کے لئے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے عابر کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں عبرفلان النھر فلاں شخص نے نہر سے عبور کرلیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے ہیں۔ امام ابن جیریر جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے واللہ اعلم۔ پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کرلو امام ابو حنیفہ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کرلے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کرلے۔ حضرت امام احمدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کرلیا تو اسے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے چناچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے۔ حضرت عطا بن یسار (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے واللہ اعلم۔ پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کرسکتے تھے نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے، دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا۔ غائط نرم زمین کو یہاں سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے لا مستم کی دوسری قرأت لمستم ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے (ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33 ۔ الاحزاب :49) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر مجامعت سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو ان کے ذمہ عدت نہیں، یہاں بھی لفظ (آیت من قبل ان تمسوھن) ہے حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اولا مستم النساء سے مراد مجامعت ہے۔ حضرت علی (رض) حضرت ابی بن کعب (رض) حضرت مجاہد (رض) حضرت طاؤس (رض) حضرت حسن (رض) حضرت عبید بن عمیر حضرت سعید بن جبیر (رض) حضرت شعبی (رح) حضرت قتادہ (رح) حضرت مقاتل (رح) بن حیان سے بھی یہی مروی ہے۔ سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے، میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہوگئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے، بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا۔ لمس سے مراد چھونا ہے۔ اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا۔ فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا۔ لمس سے مراد چھونا ہے، ابن عمر (رض) بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے لمس میں داخل جانتے تھے عبیدہ، ابو عثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے ہیں کہ لمس سے مراد جماع کے علاوہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا (موطامالک) دار قطنی میں خود عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم۔ مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی (رح) اور ان کے ساتھی امام مالک (رح) ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے۔ اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأتیں ہیں لا مستم اور لمستم اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ) 6 ۔ الانعام :7) ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے اسی طرح حضرت ماعز بن مالک (رض) کو رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہوگا ہاتھ لگایا ہوگا وہاں بھی لفظ لمست ہے۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی اور حدیث میں ہے (حدیث والیدز ناھا اللمس ہاتھ کا " زنا " چھونا اور ہاتھ لگانا ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے ہوں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع ملامست سے منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے شاعر کہتا ہے ولمست کفی کفہ اطلب الغنی میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا میں تونگری چاہتا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک جنبیہ عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ) 11 ۔ ہود :114) نازل ہوتی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں وضو کر کے نماز ادا کرلے اس پر حضرت معاذ (رض) پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے کام ہے آپ جواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لئے ہے، امام ترمذی (رح) اسے زائدہ کی حدیث سے یہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لئے دیا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلی اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لئے دیا ہو جیسے کہ حضرت صدیق (رض) والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ پوری حدیث سورة آل عمران میں (ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران :135) کی تفسیر میں گزر چکی ہے، امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی، حضرت مائی عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں آنحضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔ حضرت حبیب (رح) فرماتے ہیں مائی عائشہ (رض) نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں، اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے بغیر وضو کیے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی حضرت صدیقہ (رض) سے سننے والے حضرت عروہ بن زبیر (رح) ہیں اور روایت میں ہے کہ وضو کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی، حضرت ام المومنین ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے (ابن جریر) حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اس سے اکثر فقہا نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لئے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی ؟ کیا تو مسلمان نہیں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہوگیا اور پانی نہ ملا آپ نے فرمایا پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی تھی۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے، امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، صعید کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہوجائیں گے۔ امام مالک (رح) کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابوحنیفہ (رح) کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں (فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا) 18 ۔ الکہف :40) یعنی ہوجائے وہ مٹی پھسلتی دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے ترتیب دی گئیں ہمارے لئے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں اور ایک سند سے بجائے تربت کے ترابت کا لفظ مروی ہے۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیتے۔ یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لئے بہتر ہے، امام ترمذی (رح) اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابو الحسن قطان (رح) بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لئے کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 5 ۔ المائدہ :38) کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لئے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے۔ لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا فعل بتاتے ہیں امام بخاری (رح) امام شافعی (رح) کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر میرے سلام کا جواب دیا (ابن جریر) یہ تو تھا امام شافعی (رح) کا جدید مذہب۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پر پہنچے تک مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آیا کہ میں جنبی ہوگیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے دربار میں حضرت عمار (رض) بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کرلی جب میں واپس پلٹے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ نے فرمایا مجھے اتنا کافی تھا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لئے ہے، مسند احمد میں ہے حضرت شقیق (رح) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ (رض) اور حضرت ابو موسیٰ رض اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو لیلیٰ (رح) نے حضرت عبداللہ (رض) سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے تو نماز نہ پڑھے اس پر حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا کیا تمہیں یاد نہیں جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے بارے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہوگیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے اور فرمایا اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے اور ضرب ایک ہی رہی، تو حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا لیکن حضرت عمر (رض) نے اس پر قناعت نہیں کی یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورة نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب حضرت عبداللہ (رض) نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہوگا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے سورة مائدہ میں فرمان ہے (فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ) 5 ۔ المائدہ :6) اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو۔ اس سے حضرت امام شافعی (رح) نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ حضرت ابو جہم رض اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث میں گزرا ہے۔ کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استنجا کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لئے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کرلینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔ پس یہ امت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کیے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے لئے زمین مسجد بنائی گئی اور اپنے ہاتھ پر مسح کر۔ پانی نہ ملنے کے وقت اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و در گزر شان ہے کہ اس نے تمہارے لئے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑجاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نماز کو ناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے مثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بےوضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کردیا، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں الحمدا للہ۔ تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورة نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے بیان کرتے ہیں کہ سورة مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہوئی یہ اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورة مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت اسماء (رض) سے ایک ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہوگیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا۔ انہوں نے بےوضو نماز ادا کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا، حضرت اسید بن حضیر (رض) کہنے لگے اے ام المومنین عائشہ (رض) آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ بخاری میں ہے حضرت صدیقہ (رض) فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گرپڑا جس کے ڈھونڈنے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع قافلہ ٹھہر گئے اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا لوگ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑگئے چناچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے آتے ہی مجھے کہنے لگے تو نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچو کے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا حضرت اسید بن حضیر (رض) کہنے لگے اے ابوبکر (رض) کے گھرانے والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اہلیہ حضرت عائشہ (رض) کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے۔ ام المومنین (رض) کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرپڑا تھا اور گم ہوگیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہی تھا پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاری اور مسلمانوں نے حضور کے ساتھ کھڑے ہو کر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اس سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) حضرت عائشہ (رض) پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے ابن مردویہ میں روایت ہے حضرت اسلع بن شریک (رض) فرماتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو چلا رہا تھا۔ جس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار تھے جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہوگیا ادھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مرجاؤں گا یا بیمار پڑجاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے چناچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ نے مجھے فرمایا اسلع کیا بات ہے ؟ اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے آپ نے فرمایا یہ کیوں ؟ تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا) 4 ۔ النسآء :43) تک نازل فرمائی یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے۔