المؤمن آية ۲۳
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍۙ
طاہر القادری:
اور بے شک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا،
English Sahih:
And We did certainly send Moses with Our signs and a clear authority
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے موسیٰؑ کو
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور روشن سند کے ساتھ بھیجا،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزات اور واضح دلیل دے کر بھیجا تھا
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔ (۱)
۲۳۔۱ آیات سے مراد وہ نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سلطان مبین سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا
7 Muhammad Hussain Najafi
بیشک ہم نے موسیٰ(ع) کو فرعون، ہامان اور قارون کی طرف اپنی نشانیوں (معجزوں) اور کھلی ہوئی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا﴾ ” بلا شبہ ہم نے بھیجا“ یعنی ان جیسے مکذبین کی طرف ﴿مُوسَىٰ ﴾ موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو ﴿بِآيَاتِنَا ﴾ ” اپنی (بڑی بڑی) نشانیوں کے ساتھ“ جو موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی حقیقت اور مشرکین کے موقف کے بطلان پر قطعی طور پر دلالت کرتی تھیں ۔ ﴿وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ﴾ یعنی ایک واضح حجت کے ساتھ جو دلوں پر مسلط ہو کر ان کو سرنگوں کردیتی ہے، مثلاً سانپ اور عصا اور اس قسم کے دیگر معجزات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی مدد فرمائی اور ان کے لئے حق کی دعوت کو آسان بنایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney musa ko apni nishaniyon aur bari wazeh daleel dey ker firon , hamaan aur qaroon kay paas bheja tha ,
12 Tafsir Ibn Kathir
فرعون کا بدترین حکم۔
اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے سابقہ رسولوں کے قصے بیان فرماتا ہے کہ جس طرح انجام کار فتح و ظفر ان کے ساتھ رہی اسی طرح آپ بھی ان کفار سے کوئی اندیشہ نہ کیجئے۔ میری مدد آپ کے ساتھ ہے۔ انجام کار آپ ہی کی بہتری اور برتری ہوگی جیسے کہ حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ ہم نے انہیں دلائل وبراہین کے ساتھ بھیجا، قبطیوں کے بادشاہ فرعون کی طرف جو مصر کا سلطان تھا اور ہامان کی طرف جو اس کا وزیر اعظم تھا اور قارون کی طرف جو اس کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور تاجروں کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان بدنصیبوں نے اللہ کے اس زبردست رسول کو جھٹلایا اور ان کی توہین کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے۔ یہی جواب سابقہ امتوں کے بھی انبیاء (علیہم السلام) کو دیتے ہے۔ جیسے ارشاد ہے ( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52ۚ ) 51 ۔ الذاریات :52) ، یعنی اس طرح ان سے پہلے بھی جتنے رسول آئے سب سے ان کی قوم نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا انہوں نے اس پر کوئی متفقہ تجویز کر رکھی ہے ؟ نہیں بلکہ دراصل یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں، جب ہمارے رسول موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس حق لائے اور انہوں نے اللہ کے رسول کو ستانا اور دکھ دینا شروع کیا اور فرعون نے حکم جاری کردیا اس رسول پر جو ایمان لائے ہیں ان کے ہاں جو لڑکے ہیں انہیں قتل کردو اور جو لڑکیاں ہوں انہیں زندہ چھوڑ دو ، اس سے پہلے بھی وہ یہی حکم جاری کرچکا تھا۔ اس لئے کہ اسے خوف تھا کہ کہیں موسیٰ پیدا نہ ہوجائیں یا اس لئے کہ بنی اسرائیل کی تعداد کم کر دے اور انہیں کمزور اور بےطاقت بنا دے اور ممکن ہے دونوں مصلحتیں سامنے ہوں اور ان کی گنتی نہ بڑھے اور یہ پست و ذلیل رہیں بلکہ انہیں خیال ہو کہ ہماری اس مصیبت کا باعث حضرت موسیٰ ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذاء دی گئی اور آپ کے تشریف لانے کے بعد بھی ہم ستائے گئے۔ آپ نے جواب دیا تم جلدی نہ کرو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو برباد کر دے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنائے پھر دیکھے۔ کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ فرعون کا یہ حکم دوبارہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا فریب اور ان کی یہ پالیسی کہ بنی اسرائیل فنا ہوجائیں بےفائدہ اور فضول تھی۔ فرعون کا ایک بدترین قصد بیان ہو رہا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنی قوم سے کہا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں گا وہ اگرچہ اپنے اللہ کو بھی اپنی مدد کے لئے پکارے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اسے زندہ چھوڑا گیا تو وہ تمہاے دین کو بدل دے گا تمہاری عادت و رسومات کو تم سے چھڑا دے گا اور زمین میں ایک فساد پھیلا دے گا۔ اسی لئے عرب میں یہ مثل مشہو رہو گئی صار الرعن مذاکرا یعنی فرعون بھی واعظ بن گیا۔ بعض قرأتوں میں بجائے ان یطھر کے یطھر ہے، حضرت موسیٰ کو جب فرعون کا یہ بد ارادہ ملعوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں اس کی اور اس جیسے لوگوں کی برائی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے مخاطب لوگو ! میں ہر اس شخص کی ایذاء رسانی سے جو حق سے تکبر کرنے والا اور قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے ولا ہو، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب جناب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے یعنی اے اللہ ان کی برائی سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اور ہم تجھ پر ان کے مقابلے میں بھروسہ کرتے ہیں۔