حم السجدہ آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
اس سورت کا دوسرا نام فصّلت ہے اس کی شان نزول کی روایات میں بتلایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ و فصیخ آدمی عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرے چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور آپ پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیشکش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد مال ودولت کا حصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کر دیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرا دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرمائی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا اس نے واپس جا کر سرداران قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر وشاعری مطلب اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سرداران قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا لیکن وہ غور وفکر کیا کرتے؟ الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہوگیا ہے یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیر وتفسیر نے بیان کی ہیں امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے بھی انہیں نقل کیا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سورت کا ابتدائی حصہ سنایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حمۤ
9 Tafsir Jalalayn
حٰم۔
آیت نمبر 1 تا 8
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے حٰمٓ اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ کلام رحمٰن و رحیم کی طرف سے اتارا ہوا ہے (تَنْزِیلٌ) مبتداء ہے، کتابٌ اس کی خبر، یعنی یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کی آیتوں کو خوب کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے یعنی احکام وقصص و مواعظ کو خوب ممتاز و ممیّز کرکے بیان کیا گیا ہے (حال یہ کہ) قرآن عربی میں ہے قرآناً ، کتابٌ سے بسبب صفت کے حال ہے، لقومٍ ، فصلت سے متعلق ہے، اس قوم کے لئے جو مجھتی ہو اور وہ قوم عرب ہے، خوشخبری سنانے والا ہے (بشیراً ) قرآن کی صفت ہے، پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ موڑ لیا، اور وہ قبول کرنے کے لئے سنتے ہی نہیں ہیں، اور انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلارہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ (لگی ہوئی) ہے یعنی ہمارے کانوں میں گرانی ہے اور ہمارے اور تیرے ایک حجاب ہے یعنی دینی اختلاف ہے اچھا تو تو اپنے دین پر عمل کئے جا اور ہم اپنے دین پر عمل کررہے ہیں، آپ کہہ دیجئے ! کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے تو تم ایمان اور اطاعت اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے معافی چاہو اور مشرکوں کے لئے بڑی خرابی ہے، وَیْلٌ کلمہ عذاب ہے، وہ لوگ جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ھُمْ تاکید ہے بیشک جو لوگ ایمان لائیں
اور نیک عمل کریں ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : تَنْزِیْلٌ مصدر بمعنی اسم مفعول، مبتداء، کتابٌ خبر۔ شبہ : تنزیل نکرہ ہے اس کا مبتداء کیسے صحیح ہے ؟
دفع : من الرحمٰن الرحیم، تنزیل کی صفت ہے، جس کی وجہ سے تخصیص ہو کر مبتداء صحیح ہوگیا، تقدیر عبارت یہ ہوگی المنزَّلُ مِنَ الرحمٰن الرحیم کتابٌ۔
قولہ : فصِّلَتْ آیاتہ کتاب کی صفت ہے۔ قولہ : حال من کتاب بصفتہٖ یعنی قرآن کتاب سے حال ہے۔
شبہ : کتاب نکرہ یہ ذالحال واقع نہیں ہوسکتا، اس لئے ذوالحال کے لئے معرفہ ہونا ضروری ہے۔
دفع : فُصِّلتْ آیاتہٗ چونکہ کتاب کی صفت ہے، لہٰذا کتاب کا ذوالحال واقع ہونا درست ہے حال من الکتاب بصفتہٖ کا یہی مطلب ہے، بصفتہٖ میں باء سببیہ ہے۔ قولہ : لقوم متعلق بفصلت یہ بھی ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : قرآن کریم کی آیات تو سب کے لئے مفصل اور واضح ہیں پھر قوم عاقل کے ساتھ تخصیص کی گئی ؟
دفع : اگرچہ قرآنی آیات فی نفسہٖ سب کے لئے مفصلہ واضحہ ہیں، مگر چونکہ عقل وفہم والے ہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس لئے عقلمندوں اور دانشمندوں کی تخصیص کی گئی ہے۔
قولہ : بشیراً صفۃ قرآنٍ ، بشیرًا قرآن کی صفت ہے، اور یہ بھی درست ہے، کہ بشیرًا و نذیرًا دونوں کتاب سے حال یا نعت واقع ہوں، اور عرب کی تخصیص اس لئے ہے کہ عرب قرآن کو بلا واسطہ سمجھنے والے اور اولین محاطب ہیں بخلاف غیر عرب کے۔
قولہ : وقالوا اس کا عطف اعراضَ پر ہے۔ قولہ : ثِقلٌ یہ وَقْرٌ کے اصل کا بیان ہے، مراد اس سے گراں گوشی (بہراپن) ہے۔
قولہ : وھم بالاخرۃِ ھم کافرون اس کا عطف یٗؤ تُوْنَ پر ہے، اور الذین کے تحت داخل ہے ھم ضمیر فصل کو حصر کے لئے لایا گیا ہے
قولہ : تاکید اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ھم ثانی اول ھُم کی تاکید ہے، اور ترویح الارواح میں کہا ہے، کافرون مشرکین کی تاکید ہے، گویا کہ یہ اعتراض کا جواب ہے کہ جب ان کی صفت شرک کو بیان کرتے ہوئے مشرکین کہہ دیا، تو پھر ھم کافروں کی کیا ضرورت تھی جواب کا حاصل یہ ہے کہ کافروں، مشرکینَ کی تاکید ہے لہٰذا بےفائدہ نہیں ہے۔
قولہ : ممنون اسم مفعول مَنَّ سے واحد مذکر غائب ہے (ن) کم کیا ہوا، قطع کیا ہوا۔
تفسیر ویشریح
یہ سات سورتیں ہیں جو حٰمٓ سے شروع ہوئی ہیں، جن کو اٰلِ حٰمٓ یا حَوَامیم کہا جاتا ہے، باہم امتیاز کے لئے اس کے ساتھ نام میں کچھ الفاظ بھی شامل کردیئے جاتے ہیں، مثلاً سورة مومن کے حٰمٓ المؤمن اور اس سورت کے حٰمٓ میں حٰمٓ سجدہ کہا جاتا ہے، اس سورت کا
دوسرا نام فُصِّلَتْ بھی ہے۔
شان نزول : نزول قرآن کے بعد ابتداء اسلام میں کفار نے زور وقوت کے ساتھ اسلام کی تحریک کو دبانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور
آپ پر ایمان لانے والوں کی طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر خوف زدہ کرنے کی بہت کوشش کیں، لیکن اسلام ان کی خواہش کے علی الرغم بڑھتا اور قوت پکڑتا چلا گیا، پہلے عمر بن الخطاب جیسے قوی اور جری اسلام میں داخل ہوگئے، اس کے بعد حضرت حمزہ (رض) جو قریش کے مسلم سردار تھے مسلمان ہوگئے، تو اب مجبوراً قریش مکہ نے ڈرانے دھمکانے کی پالیسی چھوڑ کر ترغیب و لالچ کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا راستہ روکنے کی تدبیریں سوچنا شروع کردیں، اسی سلسلہ کا ایک واقعہ حافظ ابن کثیر نے مسند نزار، ابو یعلیٰ اور بغوی کی روایتوں سے نقل کیا ہے، محمد بن اسحٰق نے بیان کیا کہ محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا بڑا قریش کا بڑا سردار مانا جاتا تھا، ایک روز قریش کی جماعت کے ساتھ حرم کعبہ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم کے ایک گوشہ میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے، قریش سرداروں نے باہم مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے، ہمیں اس کے سدباب کے لئے ضرور کچھ کرنا چاہیے اگر آپ لوگوں کی رائے ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کروں، اور ان کے سامنے کچھ ترغیبی چیزیں پیش کروں، اگر ان میں سے وہ کسی چیز کو قبول کرلیں تو ہم وہ چیز انہیں دیدیں تاکہ وہ ہمارے دین و مذہب کے خلاف تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، سب نے ایک زبان ہو کر کہا اے ابوالولید (یہ غلبہ کی کنیت ہے) آپ ضرور ایسا کریں، چناچہ عتبہ بن ربعیہ اٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدمت میں گیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عربوں میں انتشار اور افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد پیش کش کی کہ اس نئی دعوت سے آپ کا مقصد مال و دولت حاصل کرنا ہے وہ تو ہم جمع کئے دیتے ہیں، اور اگر آپ قیادت و سیادت چاہتے ہیں تو ہم آج ہی سے آپ کو اپنا لیڈر اور سردار تسلیم کئے لیتے ہیں، اور اگر آپ کسی حسین و جمیل لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس لڑکیوں کا آپ کے لئے انتظام کئے دیتے ہیں، اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کی وجہ سے آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ سے آپ کا علاج کرادیتے ہیں، اور اگر آپ بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں، عتبہ جو کہ نہایت فصیح اور قادر الکلام تھا طویل تقریر کرتا رہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش سے سنتے رہے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو الولید آپ اپنی بات پوری کرچکے ؟ آپ نے فرمایا اب میری سنئے، اس نے کہا ہاں بیشک میں سنوں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے کوئی جواب دینے کے بجائے اس سورت کی تلاوت شروع فرمادی، آپ برابر اس سورت کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ بڑے غور سے سنتا رہا، جب آپ اس آیت پر پہنچے فاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثل صاعِقَۃِ عادٍ وَّثمود تو عتبہ نے اپنا ہاتھ آپ کے دہن مبارک پر رکھ دیا اور اپنے نسب اور رشتہ کی قسم دے کر کہا ان پر رحم کیجئے، اگے کچھ نہ فرمایئے، اور ابن اسحٰق کی روایت میں ہے کہ عتبہ بڑے غور سے آپ کی تلاوت سنتا رہا اور جب آپ نے آیت سجدہ پر پہنچ کر سجدہ کیا اور فرمایا اے ابوالولید آپ نے سن لیا، اب آپ کو اختیار ہے جو چاہے کرو، عتبہ آپ کے پاس سے اٹھ کر اپنی مجلس کی طرف چلا تو یہ لوگ دور سے عتبہ کو دیکھ کر کہنے لگے، خدا کی قسم ابوالولید کا چہرہ بدلا ہوا ہے، اب اس لا چہرہ وہ نہیں جو یہاں سے جاتے وقت تھا، جب عتبہ اپنی مجلس میں پہنچا، تو لوگوں نے معلوم کیا، کہو ابوالولید ! کیا خبر لائے ؟ عتبہ (ابوالولید) نے کہا میری خبر یہ ہے : ” میں نے ایسا کلام سنا کہ خدا کی قسم اس سے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا تھا، خدا کی قسم نہ تو یہ جادوئی کلام ہے اور نہ شعر و شاعری، اور نہ کاہنوں کا کلام، اے میری قوم قریش ! تم میری بات مانو اور اس کو میرے حوالہ کردو، میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ اس سے مقابلہ اور ایذاء سے باز آجاؤ، اور ان کو ان کے کام پر چھوڑ دو ، کیونکہ ان کے اس کلام کی ایک خاص شان ہونے والی ہے، تم ابھی انتظار کرو، باقی عرب لوگوں کا معاملہ دیکھو، اگر قریش کے علاوہ دیگر لوگوں نے ان کو شکست دیدی تو تمہارا مقصد تمہاری کوشش کے بغیر حاصل ہوگیا، اور اگر وہ عرب پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی، انکی عزت سے تمہاری عزت ہوگی اور اس وقت تم انکی کامیابی کے شریک ہوؤ گے “۔ جب قریشیوں نے ابوالولید کا مشورہ سنا تو کہنے لگے اے ابوالولید تم پر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جادو کردیا، عتبہ نے جواب دیا میری رائے تو یہی ہے اگے تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔
وقالو۔۔ اکنۃ، اَکِنَّۃٍ کِنانٌ کی جمع ہے، پردہ، کنان دراصل تیردان (ترکش) کو کہتے ہیں، یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری ایمان و توحید کی دعوت سمجھیں یہاں مشرکین نے تین باتیں کہی ہیں : (١) یہ کہ ہمارے قلوب پر آپ کے کلام سے پردہ پڑا ہوا ہے (٢) یہ کہ ہمارے کان آپ کی باتوں سے بہرے ہیں (٣) یہ کہ ہمارے اور آپ کے درمیان پردے حائل ہیں
وَقْرًا، وقر کے اصل معنی بوجھ کے ہیں، یہاں ثقل سماعت مراد ہے جو حق کے سنتے میں مانع تھا، اور یہ کہ ہمارے اور آپ
کے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ آپ جو کہتے ہو وہ ہم سن نہیں سکتے، اور جو کرتے ہوا سے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو ، اور ہم آپکو آپکے حال پر چھوڑ دیں، آپ ہمارے دین پر عمل نہیں کرتے ہم آپکے دین پر عمل نہیں کرسکتے
لَایوتونَ الزکوٰۃ یعنی یہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے۔
سوال : یہ سورت مکی ہے، اور زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی ہے تو پھر فرضیت سے قبل عدم ادائیگی کا الزام کیسا ؟
جواب : ابن کثیر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ نفس زکوٰۃ کی فرضیت تو ابتداء اسلام میں نماز کے ساتھ ہوئی تھی، جس کا ذکر سورة مزمل کی آیات میں ہے، مگر اس کے نصابوں کی تفصیلات اور وصولی کا انتظام مدینہ طیبہ میں قائم ہوا، اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ زکوٰۃ مکہ میں فرض نہیں ہوئی تھی۔
سوال : اس آیت میں مشرکین کی ترک زکوٰۃ پر مذمت کی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا مشرکین و کفار فروع مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کے مکلّف ہیں ؟ فروغ تو ایمان کے بعد واجب ہوتے ہیں، اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کفار فروع کے بھی مکلف ہیں۔
جواب : بعض ائمہ فقہاء کے نزدیک کفار بھی مخاطب بالفروع ہیں، ان کے اعتبار سے تو یہ اعتراض سرے سے وارد ہی نہیں ہوتا، اور حضرت کفار کو مخاطب بالفروع نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ اس میں ترک زکوٰۃ پر اصل مذمت نہیں بلکہ ان کا ترک زکوٰۃ چونکہ کفر کی بناء پر تھا اور ترک زکوٰۃ اس کی علامت تھی اصل قصور ایمان نہ لانا ہے (معارف) حسن اور قتادہ نے کہا ہے لا یقرُّونَ بوجوبھا یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے مطلب زکوٰۃ کے وجوب کا اقرار نہ کرنا ہے، اور ضحاک و مقاتل نے کہا ہے لا یتصدقون ولا ینفقون فی الطاعۃ یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے مستحقین اور عزیز و اقارب پر خرچ نہ کرنا مراد ہے، یعنی کفار کے عزیز و اقارب میں جو مسلمان ہوجاتے تھے ان کی مالی امداد نہیں کرتے تھے، جو کہ ایک اخلاقی نسبی فریضہ ہے، وقال الفراء کان المشرکون ینفقون النفقات ویسقون الحجیج ویطعمُونَھُمْ فَحَرَّمُوْا ذٰلک علیٰ مَنْ آمَنَ بحمدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی مشرکین صدیقہ کرتے تھے اور حاجیوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے، مگر جو مسلمان ہوجاتے تھے ان کو محروم رکھتے تھے، اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر شو کانی)
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے سے یہاں لَا الٰہَ اِلَّا اللہ کی گواہی نہ دینا ہے اسلئے کہ یہ کلمہ انسان کی ذات کی زکوٰۃ ہے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے نفوس کا لا الٰہ الَّا اللہ کہہ کر شرک سے پاک صاف نہیں کرتے تھے۔ (حاشیہ جلالین)
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem
12 Tafsir Ibn Kathir
فرماتا ہے کہ یہ عربی کا قرآن اللہ رحمان کا اتار ہوا ہے۔ جیسے اور آیت میں فرمایا اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ اور آیت میں ہے روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لئے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے، اس کی آیتیں مفصل ہیں، ان کے معانی ظاہر ہیں، احکام مضبوط ہیں۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں جیسے اور آیت میں ہے (كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ۙ ) 11 ۔ ھود :1) ، یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم وخبیر اللہ جل شانہ کا لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز۔ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔ حکیم وحمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں۔ یہ ایک طرف مومنوں کو بشارت دیتا ہے۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے۔ کفار کو ڈراتا ہے۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں، پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں۔ مسند عبد بن حمید میں حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعرو شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں۔ (یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کردیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں۔ چناچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آکر کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبد اللہ ؟ (یعنی آپ کے والد صاحب) آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبد المطلب ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر بھی خاموش رہے۔ وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کردیا۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے۔ قریشیوں میں کاہن ہے۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آجائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کردینا چاہتا ہے، سن ! اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کردیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس کہہ چکے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اب میری سنو ! چناچہ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اسی سورت کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع (مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) تک پڑھا اتنا سن کر عتبہ بول پڑا بس کیجئے آپ کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ عتبہ نے کہا سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا ؟ عتبہ نے جواب دیا کہ میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا۔ بغوی بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کردیا۔ اس پر ابو جہل نے کہا کہ قریشیو ! میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جھک کیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں۔ اسے ٹھیک کرلوں گا۔ وہاں جا کر ابو جہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آگیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے۔ حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کرکے تیری حالت ٹھیک کردیں۔ تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے۔ اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کیا غرض ہے ؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا۔ وہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) ، تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد جھوٹے نہیں۔ سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریقے پر ہے اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کرلیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ حضرت حمزہ مسلمان ہوچکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہوگئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی۔ سب قریشی اس پر رضامند ہوئے۔ یہ حضور کے پاس آیا اور کہنے لگا برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں اس نے کہا سنو اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو۔ اور اگر آپ کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کرلیتے ہیں۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں، اور اگر آپ کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کرکے آپ کا علاج کراتے ہیں۔ ایسا ہوجاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آجاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے۔ اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا اپنی سب بات کہہ چکے ؟ کہا ہاں فرمایا اب میری سنو۔ وہ متوجہ ہوگیا آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا فرمایا ابو الولید میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے۔ عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا۔ واللہ ! نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے۔ سنو قریشیو ! میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کرلو۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آجائیں گے اگر وہ اس پر غالب آگئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے۔ یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابو الولید قسم اللہ کی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجھ پر جادو کردیا۔ اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے۔