الزخرف آية ۱۶
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّاَصْفٰٮكُمْ بِالْبَنِيْنَ
طاہر القادری:
(اے کافرو! اپنے پیمانۂ فکر کے مطابق یہی جواب دو کہ) کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے (خود اپنے لئے تو) بیٹیاں بنا رکھی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مختص کر رکھا ہے،
English Sahih:
Or has He taken, out of what He has created, daughters and chosen you for [having] sons?
1 Abul A'ala Maududi
کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا اس نے اپنے لیے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں لیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا
3 Ahmed Ali
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے بیٹیاں لے لیں اور تمہیں بیٹے چن کر دیئے
4 Ahsanul Bayan
کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دیئے
6 Muhammad Junagarhi
کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا خدا نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لئے بیٹیاں منتخب کی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مخصوص کر دیا؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
سچ بتاؤ کیا خدا نے اپنی تمام مخلوقات میں سے اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور تمہارے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دے دئیے
آیت نمبر ١٦ تا ٢٥
ترجمہ : کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں تو خود رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا (یہ بات) تمہارے سابق قول سے لازم آرہی ہے، (اَمْ ) میں ہمزہ انکار کے لئے ہے، اور قول مقدر ہے ای اتَقُولُوْنَ ، وَاَصْفَاکُمْ بِالبَنِیْنَ کا عطف اِتَّخَذَ پر ہونے کی وجہ سے منجملہ منکر (و مذموم) ہے (حالانکہ) ان میں سے کسی کو جب اس چیز (بیٹی) کی خبر دی جائے جس کی تشبیہ اس نے (اللہ) رحمٰن کے لئے بیان کی ہے بیٹیوں کی اس کی طرف نسبت کر کے اس کا شبیہ قرار دیا، اس لئے کہ ولد والد کے مشابہ ہوتا ہے، معنی یہ کہ جب اس کے (گھر) پیدا ہونے والی بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ غمزدہ کے مانند متغیر ہو کر سیاہ ہوجاتا ہے، حال یہ کہ وہ غم سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو پھر وہ بیٹیوں کی نسبت اللہ کی طرف کیوں کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ تو اس سے برتر ہے (اَوَ ) میں ہمزہ انکار کے لئے اور واو (عاطفہ) عطف جملہ کے لئے ہے یعنی کیا یہ لوگ ان کو کہ جن کی پرورش زیورات زینت میں ہو اور جھگڑے کے وقت اپنی بات واضح نہ کرسکیں، اللہ کے لئے ثابت کرتے ہیں یعنی بوجہ عورت ذات ہونے کے حجت میں کمزور ہونے کی وجہ سے (اپنے مدعا کو) ظاہر نہیں کرسکتی، اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمان کے بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے ؟ ان کی یہ گواہی کہ وہ عورتیں ہیں لکھ لی جائے گی اور اس بارے میں ان سے آخرت میں باز پرس ہوگی اور اس شہادت پر سزا مرتب ہوگی اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی یعنی ملائکہ کی عبادت نہ کرتے سو ہمارا فرشتوں کی بندگی کرنا اس کی مشیئت سے ہے اور وہ اس سے راضی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کی یعنی ان کی عبادت سے (اللہ کی) رضا مندی کے بارے میں مقولہ کی کچھ خبر نہیں یہ تو محض اٹکل سے باتیں کرتے ہیں (یعنی) دروغ گوئی کرتے ہیں، اس دروغ گوئی کی وجہ سے ان کی سزا مرتب کی جائے گی کیا ہم نے انہیں اس سے یعنی قرآن سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی جو غیر اللہ کی عبادت کے (جواز) کے بارے میں ہو جس کو وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں یعنی ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم تو بلاشبہ ان کے نقش قدم پر چل رہے، ان ہی کی بدولت ہدایت یافتہ ہیں حالانکہ وہ غیر اللہ کی بندگی کرتے تھے، اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے آپ کی قوم کے مانند جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم تو ان ہی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں (اے نبی آپ) ان سے دریافت کیجئے کیا تم اپنی قوم کی اس بات کی پیروی کرو گے اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہت بہتر طریقہ لے کر آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے منکر ہیں جسے تم کو اور تم سے پہلے والوں کو دے کر بھیجا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈرانے کے لئے کہا ہم نے ان سے یعنی آپ سے پہلے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں سے انتقام لیا، دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ؟
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَللاّزمُ مِن قولِکُمْ السّابِق قول سابق سے مراد مشرکین مکہ کا قول الملائکۃ بنات اللہ ہے یعنی ملائکہ کو جب اللہ کی بیٹیاں قرار دے دیا تو اس سے یہ بات خود بخود لازم آگئی کہ بیٹے ان قائلین کے لئے مخصوص ہیں، لہٰذا مشرکین مکہ کا قول وَاَصفاکم بالبنین کا بھی جو کہ ان کے قول سابق کے لئے لازم ہے، منکرومذموم ہونا ثابت ہوگیا۔
قولہ : بما ضَرَبَ ، ما موصولہ سے بنات مراد ہیں، اور ضَرَبَ بمعنی جَعَلَ ہے جیسا کہ شارح نے جَعَلَ مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے جَعَل کا مفعول اول ہٗ ضمیر محذوف ہے جو کہ موصول کا عائد بھی ہے ای ضَرَبَہٗ اور مثلاً مفعول ثانی ہے، معنی میں شبھاً کے ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ای جَعَلَ البنات لہٗ شِبْھاً یعنی بنات کی اللہ کی طرف نسبت کر کے بنات کو اللہ کے مشابہ قرار دے دیا، اس لئے کہ اولاد والد کے مشابہ ہوا کرتی ہے۔
قولہ : اَوَ میں ہمزہ انکار کے لئے ہے اور واؤ عطف جملہ علی الجملہ کے لئے ہے بجملۃ میں با بمعنی لام ہے بجملہ عطف سے متعلق ہے اور معطوف محذوف ہے اور وہ یَجْعَلُوْنَ ہے اور معطوف علیہ بھی محذوف ہے اور وہ یَجْتَزِؤُنَ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أیَجْتَرِؤُن ویَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ مَنْ یُنْشَّاُ فِی الحِلیَۃِ ۔
قولہ : یُنَشَّؤُا واحد مذکر غائب فعل مضارع مجہول، مصدر تَنْشِئَۃ پرورش پانا (تفعیل) وہ پرورش پاتا ہے، یہ ترجمہ مَنْ کے لفظ کا اعتبار کرنے کی صورت میں ہے اور معنی کے اعتبار کی صورت میں وہ پرورش پاتی ہیں ترجمہ ہوگا۔
قولہ : غَیْرُ مُبین، مُظْھِرُ الحجۃ، مُبین کی تفسیر مُظْھِرٌ سے کر کے اشارہ کردیا کہ مبین یہاں اَبَان متعدی سے ہے۔
قولہ : وَجَعلُوا الملائِکَۃَ یہاں جَعَل بمعنی قال اور حَکَمَ ہے، کہا جاتا ہے جَعَلْتُ زیدًا اَعْلَمَ الناس زید کے بارے میں میں نے اَعْلَم الناس ہونے کا حکم لگایا۔
قولہ : لَو شاء الرّحمٰنُ ، شاءَ کا مفعول محذوف ہے ای لَو شاء الرحمٰن عدم عبادَۃِ الملائکۃ مَا عَبَدْناھُمْ ۔
قولہ : اِنّا ما شُونَ علیٰ آثارھم، ما شون مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ علیٰ آثارھم، ما شُونَ محذوف کے متعلق ہو کر اِنّا کی خبر ہے۔
قولہ : کذٰلک ای الأمر کما ذُکِرَ یعنی عورتیں عام طور پر حجت میں عاجز اور کمزور ہوتی ہیں مَا اَرْسَلْنَا جملہ مستانفہ ہے أتَتَّبِعُوْنَ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے اور واؤ حالیہ ہے ای أتقتدون باآبائِکم ولَو جئتُکُمْ باَھدیٰ الخ ای بدین الأھدیٰ وَاَصْوَب مِمّا وَجَدْتُمْ الخ اسم تفصیل کا استعمال اِرْخاء عنان اور مخاطب کی بات بڑی کرنے کے طور پر ہے ورنہ ان کے دین اور طریقہ میں سرے سے ہدایت ہی نہیں ہے۔
تفسیر وتشریح
اَمِ اتَّخَذَوْا مِمَّایَخْلُقُ اس آیت میں مشرکین کی جہالت اور سفاہت کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ کے لئے اولاد ٹھہرائی اور وہ بھی وہ کہ جس کو وہ خود اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں یعنی لڑکیاں۔
اَوَ مَنْ یُّنَشّؤ ُ ا فِی الحِلْیَۃِ ینشَّؤ ُ ا نَشْوٌ سے ہے بمعنی تربیت ونشوونما، یہاں عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ بطور خاص کیا ہے، اول یہ کہ ان کی نشوونما، زیب وزینت وزیورات میں ہوتی ہے یعنی شعور بیدار ہوتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور جمال افروز چیزوں کی طرف ہوتی ہے، مطلب یہ کہ جن کی حالت یہ ہے کہ وہ تو اپنے ذاتی معاملات کے درست کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں، دوسرے اگر کسی سے بحث و تکرار ہوجائے تو وہ اپنی بات بھی صحیح طریقہ سے (فطری حجاب کی وجہ سے) واضح نہیں کرسکتیں، نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ کرسکتی ہیں، عورت کی یہ وہ دو فطری کمزوریاں ہیں جن کی بناء پر مرد عورت پر ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔
وَقَالُوْا لوْ شَاءَ الرحمٰن ما عَبَدْنٰھُمْ الخ مشرکین مکہ کی ایک بڑی دلیل بتوں کی بندگی پر یہ تھی کہ خدا کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا اگر خدا کی مشیت نہ ہوتی ہم بت پرستی نہ کرتے، یہ بات صحیح ہے کہ مشیت ایزدی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا مگر مشرکین “ مشیت ” اور “ رضا ” کے فرق سے ناواقف ہیں، اس لئے وہ مشیت سے رضاء پر استدلال کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے، ہر کام یقیناً اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے، لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے، ظلم و زیادتی، چوری وبدکاری، انسان اللہ کی مشیت اور اس کے ارادہ ہی سے کرتا ہے، اگر خدا چاہے تو انسان کو ان کاموں پر قدرت ہی نہ دے، لیکن یہ جبر کی صورت ہوگی، اس نے انسان کو ارادہ اور اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، اسی لئے اس نے دونوں قسموں کے کاموں کی وضاحت کردی، جن سے وہ راضی ہوتا ہے ان کی بھی اور جن سے وہ ناراض ہوتا ہے ان کی بھی، انسان دونوں قسموں کے کاموں میں جس کام کو کرے گا اللہ اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، ورنہ تو یہ عطا کردہ اختیار سلب کرنے کے مترادف ہوگا، البتہ اس کی سزا اگر چاہے گا تو آخرت میں ضرور دے گا۔
اَمْ اٰتَیْنَاھُمْ کِتَابًا اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم سے پہلے ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہو جس میں ان کو بتوں کی بندگی کی اجازت دی گئی ہو، جس کی وجہ سے یہ بتوں کی بندگی کرتے ہوں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تقلید آباء کے علاوہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، یعنی وہ اپنے آباء کی اندھی تقلید میں اس قدر پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت و صراحت بھی انہیں اس سے نہیں روک سکی۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya Allah ney apni makhlooq mein say apney liye to betiyan pasand ki hain , aur tumhen beton kay liye muntakhib kiya hai-?