يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۤٮِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۗ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَ تْقٰٮكُمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے
English Sahih:
O mankind, indeed We have created you from male and female and made you peoples and tribes that you may know one another. Indeed, the most noble of you in the sight of Allah is the most righteous of you. Indeed, Allah is Knowing and Aware.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے،
احمد علی Ahmed Ali
ا ے لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (۱) اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے (۲) ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے (۳) یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
۱۳۔۱ یعنی آدم وحوا علیہما السلام سے یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی مان باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم علیہ السلام سے ہی جا کر ملتا ہے ۔
۱۳۔۲ شعوب شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کر سکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بد قسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا ۔
۱۳۔۳ یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقوی ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر ۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد (آدم(ع)) اور ایک عورت (حوا(ع)) سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا باخبر ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
نسل انسانی کا نکتہ آغاز
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے یعنی حضرت آدم سے ان ہی سے ان کی بیوی صاحبہ حضرت حوا کو پیدا کیا تھا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی پھیلی۔ شعوب قبائل سے عام ہے مثال کے طور پر عرب تو شعوب میں داخل ہے پھر قریش غیر قریش پھر ان کی تقسیم میں یہ سب قبائل داخل ہے بعض کہتے ہیں شعوب سے مراد عجمی لوگ اور قبائل سے مراد عرب جماعتیں۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کو اسباط کہا گیا ہے میں نے ان تمام باتوں کو ایک علیحدہ مقدمہ میں لکھ دیا ہے جسے میں نے ابو عمر بن عبداللہ کی کتاب الانباہ اور کتاب القصد والامم فی معرفۃ انساب العرب والعجم سے جمع کیا ہے مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہوگی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی کی وجہ سے ہوگی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلے برادریاں اور جماعتیں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہوجائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں قبیلہ حمیر اپنے حلفیوں کی طرف منسوب ہوتا تھا اور حجازی عرب اپنے قبیلوں کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے ترمذی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کرسکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے پھر فرمایا حسب نسب اللہ کے ہاں نہیں چلتا وہاں تو فضیلت، تقویٰ اور پرہیزگاری سے ملتی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہوجاؤ گے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کردی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین وتقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو، بخیل، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں۔ مسند احمد میں ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا کی کوئی چیز یا کوئی شخص کبھی بھلا نہیں لگتا تھا مگر تقوے والے انسان کے اللہ تمہیں جانتا ہے اور تمہارے کاموں سے بھی خبردار ہے ہدایت کے لائق جو ہیں انہیں راہ راست دکھاتا ہے اور جو اس لائق نہیں وہ بےراہ ہو رہے ہیں۔ رحم اور عذاب اس کی مشیت پر موقوف ہیں فضیلت اس کے ہاتھ ہے جسے چاہے جس پر چاہے بزرگی عطا فرمائے یہ تمام امور اس کے علم اور اس کی خبر پر مبنی ہیں۔ اس آیت کریمہ اور ان احادیث شریفہ سے استدلال کر کے علماء نے فرمایا ہے کہ نکاح میں قومیت اور حسب نسب کی شرط نہیں سوائے دین کے اور کوئی شرط معتبر نہیں۔ دوسروں نے کہا ہے کہ ہم نسبی اور قومیت بھی شرط ہے اور ان کے دلائل ان کے سوا اور ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں اور ہم بھی انہیں کتاب الاحکام میں ذکر کرچکے ہیں فالحمد اللہ۔ طبرانی میں حضرت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے بنو ہاشم میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہ نسبت اور تمام لوگوں کے بہت زیادہ قریب ہوں پس فرمایا تیرے سوا میں بھی بہت زیادہ قریب ہوں ان سے بہ نسبت تیرے جو تجھے آپ سے نسبت ہے۔