المائدہ آية ۱
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ۗ اُحِلَّتْ لَـكُمْ بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى الصَّيْدِ وَاَنْـتُمْ حُرُمٌ ۗ اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيْدُ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, fulfill [all] contracts. Lawful for you are the animals of grazing livestock except for that which is recited to you [in this Quran] – hunting not being permitted while you are in the state of ihram. Indeed, Allah ordains what He intends.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اپنے قول پورے کرو تمہارے لئے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگر وہ جو آگے سنایا جائے گا تم کو لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو بیشک اللہ حکم فرماتا ہے جو چاہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! عہدوں کوپورا کرو تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال ہیں سوائے ان کے جو تمہیں آگے سنائے جائیں گے مگر شکار کو احرام کی حالت میں حلال نہ جانو الله جو چاہے حکم دیتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو (١) تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں (٢) بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے (٣) مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ تعالٰی جو چاہے حکم کرتا ہے۔
١۔١ عقود عقد کی جمع ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہدوپیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی جن کا اللہ تعالٰی نے انسانوں کو عاقل و بالغ ٹھہرایا ہے اور عہد و پیماں کرنے پر معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔
١۔٢ بھیمہ چوپائے (چار ٹانگوں والے) جانور کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بہم، ابہام ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل وفہم میں چونکہ ابہام ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا کہا جاتا ہے انعام اونٹ، گائے بکری بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے یہ بھیمتہ الانعام نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں جن کی تفصیل (سورہ الانعام آیت نمبر ۱٤۳ میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلًا ہرن نیل گائے وغیرہ جن کا عمومًا شکار کیا جاتا ہے یہ بھی حلال ہیں۔ حالت احرام میں ان کا دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانور ذوناب اور جو پرندے ذومخلب نہیں ہیں وہ سب حلال ہیں جیسا کہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۳ کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے ۔ذوناب کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنی کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہے اور چیرتا ہو مثلا شیر چیتا کتا بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو مثلًا شکرہ، باز، شاہیں، عقاب وغیرہ حرام ہیں۔
١۔٣ ان کی تفصیل آیت نمبر ٣ میں آرہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو، تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو تمہارے لئے چوپائے، مویشی حلال کر دیئے گئے ہیں۔ سوائے ان کے جن کا ذکر تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا۔ ہاں جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ سمجھو۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے وہ حکم دیتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اپنے عہد و پیمان اور معاملات کی پابندی کرو تمہارے لئے تمام چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں علاوہ ان کے جوتمہیں پڑھ کر سنائے جارہے ہیں. مگر حالاُ احرام میں شکار کو حلال مت سمجھ لینا بے شک اللہ جو چاہتا حکم دیتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو یعنی ان محکم قول وقراروں کو پورا کرو جو تم نے اللہ سے اور انسانوں سے کئے ہیں، تمہارے لئے مویشی چوپایوں مثلاً اونٹ، گائے اور بکری (وغیرہ) کو ذبح کر کے کھانا حلال کردیا گیا ہے، مگر وہ جانور حلال نہیں کئے گئے جن کی حرمت تم کو آئندہ آیت حرمت علیکم المیتة میں بتائی جا رہی ہے یہ استثناء منقطع ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ متصل ہو، اور تحریم موت وغیرہ کے عارض ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن حالت احرام میں شکار کو حلال نہ سمجھو یعنی جب تم محرم ہو، اور غیرَ ، کم (کی طرف لوٹنے والی) ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اللہ تعالیٰ حلت (و حرمت) کے جو احکام چاہتا ہے حکم دیتا ہے، اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں۔ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، حرم میں شکار کر کے اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو شعائر شعیرَةٌ کی جمع ہے یعنی خدائی دین کی نشانی، اور نہ حرمت والے مہینے کی، اس میں قتل کر کے (بےحرمتی کرو) اور نہ ہدی کے جانوروں پر دست درازی کر کے ان کی بےحرمتی کرو، ہدی وہ مویشی جانور جس کو (قربانی کے لئے) حرم لیجایا جائے۔ اور نہ ان جانوروں پر دست درازی کرو جن کی گردنوں میں (نذر خداوندی کی علامت کے طور پر حرم کے درخت کے پٹے) پڑے ہوں اور قتال کر کے نہ ان لوگوں کی بےحرمتی کرو جو بیت الحرام کے قصد سے جا رہے ہوں کہ اپنے رب کے فضل اور تجارت کے ذریعہ اپنے رب کے رزق کے اور بزعم خویش بیت اللہ کے قصد سے اس کی رضا مندی کے طالب ہوں، یہ حکم آیت براءت سے منسوخ ہے اور جب تم احرام سے فارغ ہوجائو تو شکار کی اجازت ہے (فاصطادوا) میں امر اباحت کے لئے ہے، اور ان لوگوں کی دشمنی کہ جنہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر قتل وغیرہ کے ذریعہ زیادتی کرو (شَنَاٰن) نون کے فتحہ اور سکون کے ساتھ بمعنی بغض ہے، اور نیکی پر اس کام کو کر کے جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے اور تقوے پر اس کام کو ترک کر کے جس سے تم کو منع کیا ہے ایک دوسروں کا تعاون کرتے رہو اور گناہ پر اور اللہ کی حدود میں زیادتی (کی باتوں میں) ایک دوسرے کا تعاون مت کرو ( تعاونوا) میں اصل میں دو تائوں میں سے ایک تاء محذوف ہے، اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہو بایں صورت کہ اس کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ اپنی مخالفت کرنے والے کو سخت سزا دینے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : المَائِدة، دستر خوان، جمع موائد۔ قولہ : بالُعُقُوْدِ ، واحد عقد پختہ عہد مصدر ہے بطور اسم استعمال ہوا ہے۔
قولہ : بَھِیْمَةُ ، جمع بَھَائِم، مویشی چوپائے عرف عرب میں بھائم کا اطلاق درندو پرند کے علاوہ ہر حیوان پر ہوتا ہے بھیمة، ابھام سے ماخوذ ہے چونکہ چوپایوں کی آواز میں ابہام ہوتا ہے اسی وجہ سے ان کو بہائم کہا جاتا ہے۔
قولہ : انعام، واحد نَعْمٌ بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، اونٹ، انعام میں اونٹ کا شامل ہونا ضروری ہے بغیر اونٹ کی شمولیت کے انعام نہیں کہا جاتا، عرب کے نزدیک اونٹ چونکہ بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کو نعم کہا جانے لگا۔
قولہ : اَکْلاً ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : حلت و حرمت تو افعال کے اوصاف میں سے ہے یہاں ذات یعنی بہیمة الانعام کا وصف قرار دیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔
جواب : اکلاً محذوف مان کر اسی سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
قولہ : تَحْرِیْمُہٗ ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بھیم، متلو اشیاء میں سے نہیں ہے ؟ جواب : بھیمة متلو نہیں ہے بلکہ متلو تحریم بھیمة ہے۔
قولہ : فَالاِسْتِثْنَاء مُنْقِطعٌ، اسلئے کہ مستثنیٰ منہ جو کہ بھیمة الانعام ہے اور مستثنیٰ جو کہ ما یتلی علیکم ہے ایک جنس کے نہیں ہیں، مستثنیٰ منہ از قبیل ذوات ہے اور مستثنیٰ از قبیل الفاظ۔
قولہ : یَجُوْزُ ان یَّکُوْنَ مُتَّصِلاً ، تقدیر مضاف کی صورت میں الا ما یتلی علیکم، احلت لکم بھیمة الانعام سے مستثنیٰ متصل ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی ای اِلاَّ محرم ما یتلی علیکم، اور محرم سے مراد میتة ہے۔
قولہ : لِمَاعَرَضَ مِنَ الْمَوْتِ ، اس میں اشارہ ہے کہ انعام مذکورہ کی حرمت ذاتی نہیں بلکہ موت کی وجہ سے طاری ہے۔
قولہ : و انتم حُرُم یہ جملہ غیر محلِّی الصید کی ضمیر مستتر سے حال ہے جو لکم ضمیر کی طرف راجع ہے یعنی غیر محلِّی الصید ذوالجلال ہے اور وانتم حُرُم حال ہے۔ قولہ : وھذا مَنْسُوْخ بآ یَةٍ بَرَآءَ ةٍٍ ” وھی قولہ تعالی، اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “۔
تفسیر وتشریح
زمانہ نزول : مسند احمد اور طبرانی میں اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں سورة مائدہ کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں، اس شان نزول کی روایت کی سند میں اسماء بنت یزید کا پروردہ شہر بن حوشب ایک راوی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف اور کثیر الارسال لکھا ہے، لیکن تقریب میں اس کو صدوق لکھا ہے شہر بن حوشب کی یہ روایت چونکہ اسماء بنت یزید سے ہے جو شہر بن حوشب کی پرورش کرنے والی ہیں، اس لئے اس سند میں ارسال کا احتمال بھی باقی نہیں رہتا، اس لئے کہ تابعی اگر واسطہ صحابی کے بغیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے تو اس کو ارسال کہتے ہیں اور اس کی روایت کو مرسل کہتے ہیں اس سند میں وہ بات نہیں ہے۔
عقد : عقد کسے کہتے ہیں : تفسیر ابن جریر میں علی بن طلحہ کے واسطہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی جو روایت ہے اس میں حلال و حرام چیزوں کے جو احکام عہد کے طور پر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان ہی کو عقود کی تفسیر قرار دیا ہے۔
بھیمة الانعام : مویشی چوپایوں کو کہتے ہیں ان میں پالتو جانور اونٹ، گائے، بھیڑ بکری اور جنگلی شکار کر کے کھانے کے قابل جانور مثلاً نیل گائے، ہرن وغیرہ بھی داخل ہیں انعام کے مفہوم میں چوپائے درندے شامل نہیں ہیں اس لئے کہ عرب کے محاورے میں درندوں کے نام الگ الگ ہیں، اسی حکم کو بیان کرنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب درندے چوپائے حرام ہیں، چناچہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درندے جانوروں کے حرام ہونے کا ارشاد فرمایا ہے، اسی طرح آپ نے پھاڑنے والے پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جس کے پنجے ہوتے ہیں، جو دوسرے جانوروں کو شکار کرتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے ” نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطیر “۔
اِلاَّ مَا یتلیٰ علیکم، کا مطلب ہے کہ آئندہ آیت ” حرمت علیکم المیتة “ میں جن جانوروں کا ذکر فرمایا ہے وہ حرام ہیں غیر محلی الصید وانتم حرم کا مطلب ہے کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے غیر محلی الصید وانتم حرم کا مطلب ہے کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے البتہ دریائی جانوروں کا شکار بحالت احرام روا ہے بعض جانوروں کے حلال اور بعض کے حرام کرنے کی مصلحت اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، اللہ حاکم مطلق ہے اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے، بندوں کو اس کے حکم پر چوں وچرا کرنے کا حق نہیں، اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں لیکن بندہ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی پر مصلحت سمجھتا ہے بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔
شعائر کیا ہیں ؟ ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر وعمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا شعار کہلاتی ہے، کیونکہ وہ اس کے لئے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے، سرکاری پرچم، فوج، پولیس وغیرہ کی وردی (یونیفارم) سکے اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں، اور وہ اپنے محکموں سے بلکہ جو بھی اس کے زیر اقتدار ہے اس سے احترام کا مطالبہ کرتی ہے گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے لئے، چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے لئے شعائر ہیں، کیس، کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہے یہ سب مسلک اپنے اپنے پیروئوں سے اپنے شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر کوئی شخص کسی نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اس نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔
شعائر اللہ کا احترام : شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہوجائے ان چند دخائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں، شعائر اسلام ان اعمال وافعال کو کہا جاتا ہے جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس ومشاہد ہیں، جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ، اور سنت کے مطابق داڑھی، مگر صاف اور صحیح بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور علماء سے منقول ہے اور وہ یہ کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔
احرام بھی من جملہ شعائر اللہ ہے، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بےحرمتی کرنا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو اس بات کا حکم ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے۔ ان میں کمی کی جائے نہ ان کو توڑا جائے۔ یہ آیت کریمہ ان تمام معاہدوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کا التزام، اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں سے کچھ کمی نہ کرنا اور یہ ان معاہدوں کو بھی شامل ہے جو بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین آپ کی اتباع اور اطاعت کے بارے میں ہیں اور اسی طرح اس میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو بندے اور اس کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں، نیز اس آیت کریمہ کے حکم میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو فراخی اور تنگ دستی، آسانی اور تنگی میں صحبت اور دوستی کے حقوق کے بارے میں ہیں۔ اس کے تحت وہ معاہدے بھی آتے ہیں جو معاملات، مثلاً خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ اس میں صدقات اور ہبہ وغیرہ کے معاہدے کی پابندی، مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے جن کی پابندی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عائد کیا ہے۔﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ (الحجرات :49؍10) ” تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں“ بلکہ حق کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے مل جل کر رہنا اور قطع تعلقات سے اجتناب وغیرہ تک شامل ہے۔
پس اس حکم میں دین کے تمام اصول و فروغ شامل ہیں اور دین کے تمام اصول و فروع ان معاہدوں میں داخل ہیں جن کی پابندی کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أُحِلَّتْ لَكُم ﴾” تمہارے لئے حلال کردیئے گئے۔‘‘ یعنی تمہاری خاطر اور تم پر رحمت کی بنا پر حلال کردیئے گئے ہیں۔ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ ﴾ ” چوپائے مویشی“ یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ بلکہ بسا اوقات اس میں جنگلی جانور، مثلاً ہرن، گورخر اور اس قسم کے دیگر شکار کئے جانے والے جانور بھی شامل ہیں۔ بعض صحابہ کرام اس آیت کریمہ سے اس بچے کی حلت پر بھی استدلال کرتے ہیں جو ذبح کرتے وقت مذبوحہ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور ذبح کرنے کے بعد وہ مذبوحہ کے پیٹ میں مر جاتا ہے۔
[حدیث میں بھی ایسے بچے کو یہ کہہ کر حلال قرار دیا گیا ہے ذَکوٰۃُ الجَنِیْنِ ذَکَاۃُ أمِّہِ (ابوداؤد، ترمذی، بحوالہ صحیح الجامع) ” بچے کا ذبح کرنا یہی ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کرلیا جائے۔“ یعنی ماں کا ذبح کرلینا، بچے کی حلت کے لئے کافی ہے۔ (ص۔ ی)]
﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ” سوائے ان چیزوں (کی تحریم) کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔“ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۔۔الاٰیة﴾(المائدۃ:5؍3)” تم پر حرام کردیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو گر کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور وہ جانور جسے درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم ذبح کرلو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کئے جائیں۔۔۔ “
مذکورہ بالا تمام جانور اگرچہ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ﴾ مویشیوں میں شامل ہیں تاہم یہ مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔
یہ چوپائے مویشی عام طور پر تمام احوال و اوقات میں مباح ہیں البتہ احرام کی حالت میں ان کے شکار کو مستثنی ٰقرار دیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ﴾” مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں“ یعنی یہ جانور تمہارے لئے تمام احوال میں حلال ہیں سوائے اس حالت میں جبکہ تم احرام کی حالت میں ہو تب اس حالت میں شکار نہ کرو، یعنی احرام میں ان کو مارنے کی جرأت نہ کرو، کیونکہ حالت احرام میں ان کا شکار کرنا مثلاً ہرن وغیرہ کو مارنا تمہارے لئے جائز نہیں۔ شکار سے مراد وہ جنگلی جانور ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ﴾ ” بے شک اللہ جو چاہے، فیصلہ کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اس امر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس طرح اس نے تمہارے مصالح کے حصول اور مضرت کو دور کرنے کے لئے تمہیں معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا اور تم پر رحمت کی بنا پر اس نے تمہارے لئے مویشیوں کو حلال قرار دیا اور بعض موانع کی وجہ سے جو جانوران میں سے مستثنیٰ ہیں ان کو حرام قرار دیا مثلاً مردار وغیرہ اس کا مقصد تمہاری حفاظت اور احترام ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کو حرام قرار دیا اور اس کا مقصد احرام کا احترام اور تعظیم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! moahidon ko poora kero . tumharay liye woh chopaye halal kerdiye gaye hain jo maweshiyon mein dakhil ( ya unn kay mushabeh ) hun , siwaye unn kay jinn kay baaray mein tumhen parh ker sunaya jaye ga , ba-shartey-kay jab tum ehraam ki halat mein ho uss waqt shikar ko halal naa samjho . Allah jiss cheez ka irada kerta hai uss ka hukum deta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک بےدلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا ! آپ مجھے خاص نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا " جب تو قرآن میں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہوجا، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہوگا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ " حضرت زہری فرماتے ہیں " جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شامل ہیں۔ " حضرت فیثمہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے (یا ایھا الذین امنوا) کے (یا ایھا المساکین) ہے۔ ایک روایت ابن عباس کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) ہے، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر حضرت علی ہیں، اصحاب رسول میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابو طالب کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بےدلیل ہے۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں۔ حضرت امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو، کیسے قبول کی جاسکے گی ؟ یقینا وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا، اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ کو بجز حضرت علی کے ڈانٹا گیا، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت (ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ ) 58 ۔ المجادلہ :13) لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں، اختیاری امر تھا۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کردیا۔ پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا۔ سورة انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کو ڈانٹا گیا ہے۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے باقی تمام صحابہ کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر کے باقی سب کو ہے، جن میں حضرت علی بھی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے، واللہ اعلم۔ ابن جریر میں حضرت محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھوا کردی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا، اس کتاب کو میں نے ابوبکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے، اس میں آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ ) 5 ۔ المائدہ :1) سے آیت (يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ :4) تک بھی لکھا ہوا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمرو بن حزم کے پوتے حضرت ابوبکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھ کردی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لئے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے یمن بھیجا تھا، اس وقت یہ کتاب لکھ کردی تھی، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ۔ اس میں آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ عہد محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں " عقود سے مراد عہد ہیں۔ " ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ " عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا، اس کے حرام کو حرام جاننا، اس کے فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے، کسی بات کا خلاف نہ کرو، حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے۔ پڑھو آیت (وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ ) 13 ۔ الرعد :25) ۔ " حضرت ضحاک فرماتے ہیں " اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو، اس کے حرام کو، اس کے وعدوں کو، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آجاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ " حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں " یہ چھ عہد ہیں، اللہ کا عہد، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ " محمد بن کعب کہتے ہیں " پانچ ہیں، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ خریدو فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں۔ " امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے، لیکن امام شافعی اور امام احمد اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " خریدو فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہوجائیں " صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ " جب وہ شخصوں نے خریدو فروخت کرلی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے۔ یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خریدو فروخت پورے ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہوجانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے مویشی چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں یعنی اونٹ، گائے، بکری۔ ابو الحسن، قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں " عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے " حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں۔ آپ نے فرمایا " اگر چاہو کھالو، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے۔ " امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابو داؤد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے۔ " پھر فرماتا ہے مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا۔ ابن عباس فرماتے ہیں " اس سے مطلب مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے۔ " حضرت قتادہ فرماتے ہیں " مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو " پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 5 ۔ المائدہ :3) ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مرجائے، کسی ضرب سے مرجائے، اونچی جگہ سے گر کر مرجائے اور کسی ٹکر لگنے سے مرجائے، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہوجاتے ہیں اسی لئے اس کے بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں، اسی لئے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا، پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا۔ بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں، جیسے اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کرلیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے " ہم نے تمہارے لئے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو " کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے۔ ایماندار ! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو، یعنی مناسک حج، صفا، مروہ، قربانی کے جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو۔ جیسے ارشاد ہے آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :217) اے نبی لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے اور آیت میں ہے مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الودع میں فرمایا " زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آگیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان یہ۔ " اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان " مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کرلیا کرو۔ " لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :5) یعنی جب حرمت والے مہینے گذر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گذر جانا ہے، جب وہ چار مہینے گذر چکے جو اس وقت تھے، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے۔ " آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اجماع ہے کہ " اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لئے امن وامان نہ سمجھی جائے گی۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو۔ " اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ ھدی اور قلائد کی بےحرمتی بھی مت کرو۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لئے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو۔ تاکہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لئے اللہ کی راہ کے لئے وقف ہوچکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حج کے لئے نکلے تو آپ نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گذاری، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لئے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لئے تھے، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ " تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے۔ " حضرت علی بن ابو طالب فرماتے ہیں " ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں " (رواہ اہل السنن) مقاتل بن حیان فرماتے ہیں " جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے۔ " حضرت ابن عباس سے بروایت حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں " آیت قلائد اور یہ آیت (فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا) 5 ۔ المائدہ :42) " لیکن حضرت حسن سے جب سوال ہوتا ہے کہ " کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے ؟ " تو آپ فرماتے ہیں " نہیں " حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ " وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا۔ " پھر فرماتا ہے " جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں، ان سے لڑائی مت لڑو۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضامندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو۔ " بعض کا قول ہے کہ " اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے۔ " جیسے اس آیت میں ہے (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :198) یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ رضوان سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں " یہ آیت خطیم بن ہند، بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ " امام ابن جرید نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ " جو مشرک مسلمانوں کی امان لئے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے واللہ اعلم وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۚ وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :28) یعنی مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ آئیں گے اور فرمان ہے آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ :18) یعنی مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں فرمان ہے آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ :18) یعنی اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں منسوخ ہے، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کردیا کہ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ " ابن جریر کا قول ہے کہ " قلائد سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آرہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے " پھر فرماتا ہے " جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کرسکتے ہو " احرام میں شکار کی ممانعت تھی، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہوگئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہوگا۔ اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں۔ گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلئے ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد حرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہئے۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے " تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیا کرو، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے۔ " بعض سلف کا قول ہے کہ " گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے۔ عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے۔ " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا، اسی رنج و غم میں صحابہ واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں۔ اس پر یہ آیت اتری (شنان) کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے شنان بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں، ہاں عربی شعروں میں شنتان بھی آیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے، بر " کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور تقویٰ " کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ابن جریر فرماتے ہیں جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے، یہ اثم " ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کردی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں، ان سے آگے نکل جانا عدوان ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے " اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو " تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا کہ " یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں ؟ " فرمایا " اسے ظلم نہ کرنے دو ، ظلم سے روک لو، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے " یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے " جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے ملے جلے، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے " مسند بزار میں ہے " جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے " امام ابوبکر بزار اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ " یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے۔ " لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے۔ ان سب کا جتنا گناہ ہوگا، وہ سارا اس اکیلے کو ہوگا۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقینا دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ،