الطور آية ۱
وَالطُّوْرِۙ
طاہر القادری:
(کوہِ) طُور کی قَسم،
English Sahih:
By the mount
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے طور کی
2 Ahmed Raza Khan
طور کی قسم
3 Ahmed Ali
قسم ہے طور کی
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے طور کی (١)
١۔١ طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اس شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(کوہ) طور کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے طور کی
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے طور کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
طور کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
( کوہ) طور کی قسم
ترجمہ،۔ شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے طور کی یعنی اس پہاڑ کی جس پر اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف بخشا اور قسم ہے لکھی ہوئی کتاب کی جو کھلے ہوئے کاغذ میں ہے یعنی تورات کی یاد قرآن کی اور قسم ہے بیت المعمور کی وہ تیسرے یا چھٹے یا ساتویں آسمان پر کعتبہ اللہ کے بالمقابل ہے روزانہ طواف اور نماز کے لئے ستر ہزار فرشتے اس کی زیارت کرتے ہیں آئندہ ان کا کبھی نمبر نہ آئے گا اور قسم ہے اونچی چھت یعنی آسمان کی اور قسم ہے بھرے ہوئے دریا کی بلاشبہ تیرے رب کا عذاب اس کے مستحق پر نازل ہونے والا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے جس دن آسمان تھر تھرانے لگے گا یعنی حرکت اور گردش کرنے لگے گا اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) چلنے لگیں گے اور اڑتے ہوئے غبار ہوجائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا، پس ہلاکت یعنی سخت عذاب ہے اس دن رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے لئے جو کہ باطل میں بھٹک رہے ہیں یعنی اپنے کفر میں مشغول ہیں جس دن وہ دھکے دے دے کر نار جہنم کی طرف لیجائے جائیں گے، سختی کے ساتھ دھکے دیئے جائیں، یوم تمور سے بدل ہے اور ان کو لاجواب کرنے کے لئے کہا جائے گا یہ وہی دوزخ ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے تو کیا یہ عذاب جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے جادو ہے جیسا کہ تم وحی کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ جادو ہے یا تم کو سوجتا نہیں ہے دوزخ میں داخل ہوجائو اس پر صبر کرو یا نہ کرو تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں اس لئے کہ تہارا صبر کرنا تم کو کوئی فائدہ نہ دے گا تم کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے تم اعمال کرتے تھے یعنی تمہارے اعمال ہی کا بدلہ ملے گا متقی لوگ بلاشبہ باغوں میں اور سامان عیش میں ہوں گے مزے لے رہے ہوں گے لطف اٹھا رہے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کو ان کے رب نے عطا کی ہوں گی اور ان کا پروردگار ان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے گا (ووقاھم) کا عطف آتا ھم پر ہے یعنی ان کو دینے سے اور حفاظت کرنے سے اور ان سے کہا جائے گا خوب کھائو پیو مزے کے ساتھ (ھنیئاً ) حال ہے معنی میں متھنین کے ہے اپنے اعمال کے سبب سے وہ برابر بچھے ہوئے تخوں پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے (متکئین) اللہ تعالیٰ کے قول فی جنت میں ضمیر مستتر سے حال ہے اور ان کا بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے جوڑا لگا دیں گے اور جو لوگ ایمان لائے یہ مبتداء ہے اور ایمان میں ان کی نابالغ اور بالغ اولاد نے ان کی پیروی کی واتبعتھم کا عطف آمنوا پر ہے بالغین کو خود ان کے ایمان کی وجہ سے اور صغار کو ان کے آباء کے ایمان کی وجہ سے جنت میں ان کے پاس پہنچا دیں گے، جس کی وجہ سے اولاد ان کے آباء کے درجہ میں ہوگی، آباء کے اکرام کے طور پر ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جمع کر کے اگرچہ اولاد نے اپنے آباء جیسا عمل نہ کیا ہو، اور اجر کی جو مقدار ان کی اولاد کے حق میں زیادہ کی گئی ہے اس مقدار کو ہم ان کے آباء کے اجر سے کم نہ کریں گے التھم میں لام کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے من شئی میں من زائدہ ہے، ہر شخص اپنے اعمال کے عوض گروی ہے خواہ عمل خیر ہو یا شر رھین بمعنی مر ہوں ہے، اعمال بد کی وجہ سے مواخذہ کیا جائے گا اور اعمال خیر کی جزاء دی جائے گی، اور ہم ان کے لئے روز افزوں میوے اور گوشت کی جس قسم کا ان کو مرغوب ہوگا اگرچہ صراحتہ مطالبہ نہ کیا ہو خوب ریل پیل رکھیں گے اور جنت میں (خوش طبعی کے طور پر) جام شراب کی آپس میں چھینا جھپٹی کیا کریں گے اور ان کی شراب نوشی کی وجہ سے نہ بیہود ہگوئی ہوگی نہ بد کرداری جو شراب نوشی کی وجہ سے ان کو لاحق ہو، بخلاف دنیاوی شراب کے اور ان کے پاس خدمت کے لئے ایسے لڑکے آمد و رفت رکھیں گے جو خاص انہی کے لئے ہوں گے اور وہ حسن و نظافت میں ایسے ہوں گے گویا کہ صدف میں بحفاظت رکھے ہوئے موتی ہیں، اس لئے کہ وہ موتی جو صدف میں ہوتا ہے وہ اس موتی سے بہتر ہوتا ہے جو صدف میں نہیں ہوتا اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کریں گے (یعنی) آپس میں ایک دوسرے سے ان کاموں کے بارے میں معلوم کریں گے جو وہ (دنیا) میں کیا کرتے تھے اور اس کے بارے میں بھی جو ان کو عطا ہوا اور یہ سب کچھ تلذذ اور اعتراف نعمت کے طور پر ہوگا اور سبب وصول کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہیں گے ہم تو اس سے پہلے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بہت ڈرا کرتے تھے سو اللہ نے ہم پر مغفرت کر کے بڑا احسان کیا، اور ہم کو انار جہنم سے بچا لیا (نار جہنم کو سموم اس لئے کہت یہی) کہ وہ مسامات میں داخل ہوجاتی ہے اور بطور اشارہ وہ یہ بھی کہیں گے کہ ہم تو اس سے پہلے دنیا میں اسی کو پکارتے تھے یعنی توحید کے ساتھ اس کی بندگی کرتے تھے اور وہ واقعی بڑا محسن و مہربان ہے عظیم الرحمت ہے، (انہ) کسرہ کے ساتھ استیناف ہے اگرچہ معنی تعلیل ہے اور (انہ) فتحہ کے ساتھ لفظاً تعلیل ہے، البر کے معنی اس محسن کے ہیں جو اپنے وعدہ میں صادق ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والطور طور عربی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں، یہ بعض اہل لغت نے تصریح کی ہے کہ طور ہرے بھرے پہاڑ کو کہتے ہیں، جب اس پر الف لام داخل ہو تو طور سے جزیرہ نمائے سینا کا ایک مخصوص و معتین پہاڑ مراد ہوتا ہے، یہ وہی پہاڑ ہے جو مصر و مدین کے درمیان واقع ہے، موسیٰ کو اسی پہاڑ پر تجلی ہوئی تھی اور اسی پہاڑ پر آپ کو خلت کلیمی سے نوازا گیا تھا۔ (لغات القرآن)
قولہ : فی رف منشور رق کاغذ، ورق، جھلی، اس کی جمع رقوق بالفتح کثیراً وبالکسر قلیلاً
قولہ : المسجور اسم مفعول واحد مذکر، بھرا ہوا، اس کے معنی نہایت گرم کے بھی آتے ہیں (ن) سجوراً گرم کرنا، بھرنا۔
قولہ : یدعون دع سے جمع مذکر غائب مضارع مجہول، ان کو دھکے دیکر ہنکایا جائے گا۔
قولہ : یوم یدعون، تمور السماء موراً سے بدل ہے۔
قولہ : تمور (ن) موراً پھٹنا، لرزنا۔
قولہ : بما میں ما مصدریہ۔
سوال : مامصدر یہ کیوں قرار دیا گیا ؟
جواب : ماکو مصدریہ قرار دینے کی یہ وجہ ہے کہ اگر ما کو موصولہ مانا جائے تو معطوف میں صلہ یعنی وقاھم کا عائد سے خالی ہونا لازم آتا ہے، اس لئے کہ فعل نے اپنا مفعول، ھولے لیا اور صلہ بغیر عائد کے رہ گیا حالانکہ صلہ جب جملہ ہو تو عائد کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ماموصولہ ہو اور جملہ ووقاھم جملہ مستانفہ یا بہ تقدیر قد حالیہ ہو۔
قولہ : وان کان تعلیلاً معنی، انہ کو اگر کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ جملہ مستانفہ ہوگا لیکن معنی کے اعتبار سے ندعوہ کی علت ہوگی، مطلب یہ کہ ہم اس کی بندگی اس لئے کرتے تھے کہ وہ محسن اور رحیم ہے اور اگر انہ فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو ندعوہ کی لفظاً علت ہوگی۔
تفسیر و تشریع
سورة الطور :
نام پہلے ہی لفظ و الطور سے ماخوذ ہے، اس کے پہلے رکوع کا موضوع آخرت اور آخرت کی شہادت دینے والے حقائق کا بیان ہے اور چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے اتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت واقع ہو کر رہے گی کسی میں طاقت نہیں کہ اس کو روک سکے، اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جب قیامت واقع ہوگی تو اس کے جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوگا، اور قیامت کے وقوع کو مان کر تقویٰ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ طرح طرح کے انعامات سے نوازیں گے۔
اس کے بعد دوسرے رکوع میں مشرکین مکہ اور سرداران قریش کو ان کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مقابل ہمیں اختیار کئے ہوئے تھے، سرداران قریش عوام کو آپ کے خلاف بہکاتے اور آپ سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے، کبھی آپ کو کاہن کہتے اور کبھی شاعر بتاتے تو کبھی جادو گر کا خطاب دیتے اور کبھی مجنون اور دیوانہ بتاتے تاکہ لوگ آپ کی دعوت کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں۔
والطور طور عبرانی زبان میں اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو خوب ہرا بھرا ہو، یہاں طور سے مراد طور سینین ہے جو ارض مدین میں واقع ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہم کلامی بخشا گیا تھا، طور کی قسم کھانے میں اس کی خاص تعظیم و تشریف کی طرف اشارہ ہے، کتاب مسطور، مسطور کے معنی ہیں لکھی ہوئی چیز یہاں مراد یا تو انسان کا اعمال نامہ ہے یا لوح محفوظ، یا قرآن مجید یا کتب منزلہ ہیں، رق باریک چمڑا یا جھلی جس پر لکھا جاتا تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ جلیل القدر حکمتوں پر مشتمل عظیم امور کے ساتھ حیات بعد الموت اور متقین اور مکذبین کی جزا وسزا پر قسم کھاتا ہے پس اللہ نے کوہ طور کی قسم کھائی، طور وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہم کلام ہوا اور اس نے ان کی طرف وحی بھیجی اور ان پر احکام شریعت نازل فرمائے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت پر اللہ کا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں اور اس کی نعمتیں ہیں۔ بندے جن کو شمار کرسکتے ہیں نہ ان کی قیمت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai koh-e-toor ki ,