Skip to main content

وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍۙ

And by (the) Book
وَكِتَٰبٍ
اور کتاب کی
written
مَّسْطُورٍ
لکھی ہوئی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور ایک ایسی کھلی کتاب کی

English Sahih:

And [by] a Book inscribed

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور ایک ایسی کھلی کتاب کی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اس نوشتہ کی

احمد علی Ahmed Ali

اور اس کتاب کی جو لکھی گئی ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور لکھی ہوئی کتاب کی (١)

٢۔١ مَسْطُوْرِ کے معنی ہیں مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کا مصداق مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور لکھی ہوئی کتاب کی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ایک کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسم،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان چیزوں کی قسم کھا کر جو اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں فرماتا ہے کہ اس کا عذاب ہو کر ہی رہے گا جب وہ آئے گا کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اسے ہٹا سکے۔ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر درخت ہوں جیسے وہ پہاڑ جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا اور جہاں سے حضرت عیسیٰ کو بھیجا تھا اور جو خشک پہاڑ ہو اسے جبل کہا جاتا ہے طور نہیں کہا جاتا آیت (کتاب مسطور) سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا اللہ کی اتاری ہوئی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو انسانوں پر پڑھی جاتی ہیں اسی لئے ساتھ ہی فرما دیا کھلے ہوئے اوراق میں آیت (بیت المعمور) کی بابت معراج والی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ساتویں آسمان سے آگے بڑھنے کے بعد مجھے بیت المعمور دکھلایا گیا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت اللہ کے لئے جاتے ہیں، دوسرے دن اتنے ہی اور لیکن جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آتی۔ جس طرح زمین پر کعبتہ اللہ کا طواف ہوتا ہے اسی طرح آسمانیوں کے طواف کی اور عبادت کی جگہ وہ ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے اس وقت حضرت ابراہیم کو دیکھا کہ بیت العمور سے کمر لگائے بیٹھے ہیں اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ چونکہ خلیل اللہ بانی بیت اللہ تھے جن کے ہاتھوں زمین میں کعبۃ اللہ بنا تھا تو انہیں وہاں بھی اس کے کعبے سے لگے ہوئے آپ نے دیکھا۔ تو گویا اس عمل کی جزا اسی جیسی پروردگار نے اپنے خلیل کو دی، یہ بیت المعمور ٹھیک خانہ کعبہ کے اوپر ہے اور ہے ساتویں آسمان پر، یوں تو ہر آسمان میں ایک ایسا گھر ہے جہاں اس آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں پہلے آسمان جو اسی جگہ ہے اس کا نام بیت العزت ہے واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسمان میں ایک گھر ہے جسے معمور کہتے ہیں جو کعبہ کی سمت میں ہے، چوتھے آسمان میں ایک نہر ہے جس کا نام نہر حیوان ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر روز اس میں غوطہ لگاتے ہیں اور نکل کر بدن جھاڑتے ہیں جس سے ستر ہزار قطرے جھڑتے ہیں ایک ایک قطرے سے اللہ تعالیٰ ایک ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جنہیں حکم ہوتا ہے کہ وہ بیت المعمور میں جائیں اور نماز ادا کریں، پھر وہ وہاں سے نکل آتے ہیں اب انہیں دوبارہ جانے کی نوبت نہیں آتی، ان کا ایک سردار ہوتا ہے جسے حکم دیا جاتا ہے کہ انہیں لے کر کسی جگہ کھڑا ہوجائے پھر وہ اللہ کی تسبیح کے بیان میں لگ جاتے ہیں، قیامت تک ان کا یہی شغل رہتا ہے، یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی روح بن صباح اس میں منفرد ہیں، حافظوں کی ایک جماعت نے ان پر ایک حدیث کا انکار کیا ہے جیسے جو زجانی عقیلی حاکم وغیرہ امام حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری اسے بالکل بےاصل بتاتے ہیں، حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کہ بیت المعمور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ آسمان میں ہے اسے صراح کہا جاتا ہے کعبہ کے ٹھیک اوپر ہے جس طرح زمین کا کعبہ حرمت کی جگہ ہے اسی طرح وہ آسمانوں میں حرمت کی جگہ ہے، ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں لیکن جو آج گئے ہیں ان کی باری قیامت تک دوبارہ نہیں آتی کیونکہ فرشتوں کی تعداد ہی اس قدر ہے، ایک روایت میں ہے یہ پوچھنے والے ابن کو اء تھے، ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ عرش کے محاز میں ہے ایک مرفوع روایت میں ہے کہ صحابہ کو ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیت المعمور کو جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں، فرمایا وہ آسمانی کعبہ ہے اور زمینی کعبہ کے بالکل اوپر ہے ایسا کہ اگر وہ گرے تو اسی پر گرے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں جن کی باری قیامت تک پھر نہیں آتی، حضرت ضحاک فرماتے ہیں یہ فرشتے ابلیس کے قبیلے کے جنات میں سے ہیں، واللہ اعلم، اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ 32؀) 21 ۔ الأنبیاء ;32) ربیع بن انس فرماتے ہیں مراد اس سے عرش ہے اس لئے کہ وہ تمام مخلوق کی چھت ہے، اس قول کی توجیہ اسطرح ہوسکتی ہے کہ مراد عام ہو، آیت (بحر مسجور سے مراد وہ پانی ہے جو عرش تلے ہے جو بارش کی طرح برسے گا جس سے قیامت کے دن مردے اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے جمہور کہتے ہیں یہی دریا مراد ہیں انہیں جو (مسجور) کہا گیا ہے یہ اس لئے قیامت کے دن ان میں آگ لگا دی جائے گی جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ۝۽) 81 ۔ التکوير ;6) جبکہ دریا بھڑکا دیئے جائیں اور ان میں آگ لگ جائے گی جو پھیل کر تمام اہل محشر کو گھیر لے گی حضرت علاء بن بدر کہتے ہیں کے بھڑکتے ہوئے دریا اس لیے کہا گیا کہ نہ اس کا پانی پینے کے کام میں آئے اور نہ کھیتی کو دیا جائے یہی حال قیامت کے دن دریاؤں کا ہوگا، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ دریا بہتا ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دریا پرشدہ ادھر ادھر جاری ابن عباس فرماتے ہیں مسجور سے مراد فارغ یعنی خالی ہے کوئی لونڈی پانی لینے کو جائے پھر لوٹ کر کہے کہ حوض مسجور ہے اس سے مراد یہی ہے کہ خالی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہیں کہ اسے زمین سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ ڈبو نہ سکے۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر رات تین مرتبہ دریا اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ اگر حکم ہو تو تمام لوگوں کو ڈبو دوں لیکن اللہ تعالیٰ اسے روک دیتا ہے دوسری روایت میں ہے کہ ایک بزرگ مجاہد جو سمندر کی سرحد کے لشکروں میں تھے وہ جہاد کی تیاری میں وہیں رہتے تھے فرماتے ہیں ایک رات میں چوکیداری کے لئے نکلا اس رات کوئی اور پہرے پر نہ تھا میں گشت کرتا ہوا میدان میں پہنچا اور وہاں سے سمندر پر نظریں ڈالیں تو ایسا معلوم ہوا کہ گویا سمندر پہاڑ کی چوٹیوں سے ٹکرا رہا ہے بار بار یہی نظارہ میں نے دیکھا۔ میں نے ابو صالح سے یہ واقعہ بیان کیا انہوں نے بہ روایت حضرت عمر بن خطاب اوپر والی حدیث مجھے سنائی لیکن اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام نہیں لیا گیا ان قسموں کے بعد اب جس چیز پر قسمیں کھائی گئی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ کافروں کو جو عذاب الہیہ ہونے والا ہے وہ یقینی طور پر آنے والا ہی ہے جب وہ آئے گا کسی کے بس میں اس کا روکنا نہ ہوگا ابن ابی الدنیا میں ہے کہ ایک رات حضرت عمر فاروق شہر کی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کی قرآن خوانی کی آواز کان میں پڑی وہ سورة والطور پڑھ رہے تھے، آپ نے سواری روک لی اور کھڑے ہو کر قرآن سننے لگے جب وہ اس آیت پر پہنچے تو زبان سے نکل گیا کہ رب کعبہ کی قسم سچی ہے پھر اپنے گدھے سے اتر پڑے اور دیوار سے تکیہ لگا کر بیٹھ گئے چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب ہوش و حواس ٹھکانے آئے وہ اپنے گھر پہنچے لیکن اللہ کے کلام کی اس ڈراؤنی آیت کے اثر سے دل کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ مہینہ بھر تک بیمار پڑے رہے اور ایسے کہ لوگ بیمار پرسی کو آتے تھے گو کسی کو معلوم نہ تھا کہ بیماری کیا ہے ؟ (رض) ، ایک روایت میں ہے آپ کی تلاوت میں ایک مرتبہ یہ آیت آئی اسی وقت ہچکی بندھ گئی اور اس قدر قلب پر اثر پڑا کہ بیمار ہوگئے چناچہ بیس دن تک عیادت کی جاتی رہی۔ اس دن آسمان تھر تھرائے گا پھٹ جائے گا چکر کھانے لگے گا پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے ہٹ جائیں گے ادھر کے ادھر ہوجائیں گے کانپ کانپ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پھر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے آخر روئی کے گالوں کی طرح ادھر ادھر اتر جائیں گے اور بےنام و نشان ہوجائیں گے اس دن ان لوگوں پر جو اس دن کو نہ مانتے تھے ویل وحسرت خرابی ہلاکت ہوگی اللہ کا عذاب فرشتوں کی مار جہنم کی آگ ان کے لئے ہوگی جو دنیا میں مشغول تھے اور دین کو ایک کھیل تماشہ مقرر کر رکھا تھا اس دن انہیں دھکے دے کر نار جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور داروغہ جہنم ان سے کہے گا کہ یہ وہ جہنم ہے جسے تم نہیں مانتے تھے پھر مزید ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر کہیں گے اب بولو کیا یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اس میں ڈوب جاؤ یہ تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی اب اس کے عذاب کی تمہیں سہارا ہو یا نہ ہو ہائے وائے کرو خواہ خاموش رہو اسی میں پڑے جھلستے رہو گے کوئی ترکیب فائدہ نہ دے گی کسی طرح چھوٹ نہ سکو گے یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ صرف تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔