النجم آية ۱۹
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰىۙ
طاہر القادری:
کیا تم نے لات اور عزٰی (دیویوں) پر غور کیا ہے،
English Sahih:
So have you considered al-Lat and al-Uzza?
1 Abul A'ala Maududi
اب ذرا بتاؤ، تم نے کبھی اِس لات، اور اِس عزیٰ
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا تم نے دیکھ ا لات اور عزیٰ
3 Ahmed Ali
پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھاہے
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے کبھی لات و عزیٰ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم لوگوں نے لات اور عذٰی کو دیکھا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزٰی کو دیکھا
افرایتم الات والعزی اس سے مشرکین کی تو بیخ مقصود ہے بایں طور کہ اول اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کا بیان ہے کہ وہ جبرئیل جیسے عظیم فرشتے کا خالق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے اس کے رسول ہیں جنہیں اس نے آسمانوں پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا اور ان پر وحی بھی نازل فرماتا ہے، کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں ؟ اس ضمن میں عرب کے تین بتوں کا بطور مثال ذکر کیا، ایک ان میں سے لات ہے، یہ لت یلت سے اسم فاعل ہے، اس کے معنی ہیں گھولنے والا، گوندھنے والا، یہ ایک نیک شخص تھا جو حج کے موسم میں حاجیوں کو ستوگھول کر پلایا کرتا تھا، جب اس کا انتقال ہوگیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی پوجا شروع کردی بعد میں اس کے مجسمے تراش کر پوجا پاٹ شروع کردی، یہ طائف میں بنی ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا، عزیٰ بعض نے کہا کہ یہ ایک درخت تھا جس کی پوجا کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک جنیہ (بھوتنی) تھی جو بعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک سنگ ابیض تھا جسے لوگ پوجتے تھے، یہ قریش اور بنی کنانہ کا خاص دیوتا تھا، مجاہد نے کہا کہ یہ ایک درخت تھا بنی غطفان اس کی پرستش کرتے تھے، جب مکہ فتح ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عزی کو خوار کریں چناچہ حضرت خالد (رض) نے وہ درخت کاٹ ڈالا ایک جنیہ بال بکھیرے سر پر ہاتھ رکھ کر خرابی خرابی چلاتی ہوئی نکلی حضرت خالد (رض) نے اس کو تلوار سے قتل کردیا، جب خالد (رض) آپ کی خدمت میں آئے تو واقعہ عرض کیا، آپ نے فرمایا ابھی عزیٰ کا قلع قمع نہیں ہوا، پھر حضرت خالد نے درخت جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا اس سے ایک عورت برہنہ نکلی، خالد (رض) نے اسے بھی قتل کردیا، حضور نے فرمایا یہی عزی تھی اب کبھی نہ پوجی جائے گی، مذاۃ یہ منی یمنی سے ماخوذ ہے جس کے معنی بہانے کے ہیں، چونکہ مشرکین عرب اس کے پاس بکثرت جانور ذبح کر کے خون بہا کر اس کا تقرب حاصل کرتے تھے اسی لئے اس کا نام مناۃ ہوگیا یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بنو خزاعہ کا خاص بت تھا، زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس کا طواف بھی کرتے تھے۔ (خلاصۃ التفاسیر، وابن کثیر)
بحث :۔ وما ینطق عن الھوی ٰ کا تقاضا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام کلمات اور جمیع مرویات وحی ہوں ابن کثیر کی مرویات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انی لا اقول الا بالحق اور حضرت عمر و (رض) نے فرمایا کہ میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنتا لکھ لیتا، قریش نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر ہیں حالت غضب میں بھی بات کرتے ہیں، پھر جملہ کلمات قابل ضبط و تحریر کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ میں نے آنحضرت سے عرض کیا، آپ نے فرمایا ” لکھ لیا کرو اس لئے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ حق ہی ہوتا ہے۔ “
شبہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاورھم فی الامر میں مشورہ کا حکم دیا گیا ہے جس کا مقتضی جواز اصلاح و ترمیم ہے اسی طرح ابارہ خرما (یعنی نر کھجور کے شگوفہ کو مادہ کھجور میں ڈالنا، جس کو تابیر کرنا کہتے ہیں) کا تقاضا بھی یہ ہے کہ آپ کا ہر قول وحی نہیں ہوتا تھا، یعنی صحابہ کرام اپنے کھجور کے درختوں میں عمل تابیر کیا کرتے تھے آپ نے ایک روز اس عمل کے بارے میں دریافت فرمایا، صحابہ نے عرض کیا اس طریقہ سے پھل خوب آتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو تو بہتر ہے، چناچہ صحابہ نے عمل تابیر ترک کردیا مگر اس سال پھل کم آئے صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس صورت حال کا تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما انا بشر اذا امرتکم بشیء من امر دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشیء من رای فانما انا بشر (رواہ مسلم، مشکوۃ ص 28) ایک دوسری روایت میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا ” جو مجھے چرب زبانی سے مغالطہ دیکر فیصلہ کرا لے گا قیامت میں اس کا وبال اس کے سر ہوگا، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاء اجتہادی کا صدور ہوتا تھا، مذکورہ تمام امور کا مقتضی یہ ہے کہ آپ کے جمیع ارشادات وحی نہ ہوں، اس لئے کہ وحی الٰہی ہر قسم سے پاک ہوتی ہے۔
دفع : ارشادات نبوی کی چار قسمیں ہیں (١) ازواج و اطفال کے ساتھ مزاج (٢) معاملات (٣) تجویز و تدبیر (٤) تبلیغ احکام من جانب اللہ، قسم رابع تو قطعاً وحی ہے، باقی اقسام ثلثہ بھی لغو و باطل و ہوائے نفس سے پاک اور بری ہیں، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بوڑھی عورت سے مزاحاً فرمایا ” جنت میں بوڑھی عورتیں نہ جائیں گی “ مطلب یہ تھا کہ جوان ہو کر داخل جنت ہوں گی، ان معاملات میں کبھی کبھی رائے دقیاس کا صائب نہ ہونا جیسا کہ حدیث خرما میں گذاریا تجویز و تدبیر میں خطائے اجتہادی کا ہونا جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہوا، یہ نہ غیر حق ہے اور نہ ہوائے نفس لہٰذا احادیث میں کوئی تعارض نہیں، رہی آیت وما ینطق عن الھویٰ یہ مخصوص ہے ان کلمات اور ارشادات سے جو امور دین سے ہوں۔
مسئلہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صغائر و کبائر سے معصوم ہیں جیسا کہ عدم ضلال و عدم غوایت مطلقہ سے ظاہر ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر)
علمہ شدید القویٰ
بحث :۔ شدید القویٰ سے اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت جبرئیل امین مراد ہیں۔
شبہ : اس سے شبہ لازم آتا ہے کہ جبرئیل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معلم اور استاذہوں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متعلم اور شاگرد ہوں۔
دفع : حضرت جبرئیل امین مبلغ تھے نہ کہ استاذ و معلم اور فرق ان دونوں میں یہ ہے (١) معلم میں علم مقصود بالذات ہوتا ہے اور مبلغ میں مقصود بالغیر (٢) معلم علم سے فائدہ اٹھانے کی مستقل صلاحیت رکھتا ہے اور مبلغ واسطہ اور ناقل ہوتا ہے (٣) معلم میں علم قائم ہو کر متعلم کی طرف منعکس ہوتا ہے اور اس علم کا ظل اور مثل متعلم میں آجاتا ہے جیسے چراغ کا نور دوسرے چراغ میں اور مبلغ میں مقصود انتقال عین ہوتا ہے اور مبلغ واسطہ جیسے حرارت آتشی شیشے سے پس مبلغ میں اثر رہ سکتا ہے جیسے متعلم میں اثر جاسکتا ہے اور معلم میں عین باقی رہتا ہے جس طرح کہ مبلغ الیہ میں عین قائم ہوتا ہے (٤) معلم معطی علم ہے اور مبلغ مئودی امانت، پس انہی وجوہ سے معلم کو متعلم پر شرف و فضل حاصل ہے مبلغ کو نہیں، اسی لئے جبرئیل ” رسول امین “ قرار پائے ہیں، گوا امین خود قابض اور واسطہ قبض صاحب امانت ہو مگر خادم و مامور ہے نہ کہ معطی ومالک، ملائکہ ذرائع ہوتے ہیں اور انبیاء مقاصد (خلاصۃ التفاسیر ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالی نے اس ہدایت اور دین حق جس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے نیز عبادت الٰہی اور توحید الٰہی کا ذکر کرنے کے بعد اس مسلک کے بطلان کا ذکر فرمایا جس پر مشرکین گامزن تھے یعنی ایسی ہستیوں کی عبادت جو اوصاف کمال سے محروم ہیں جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان۔ یہ معانی سے خالی محض نام ہیں جن کو مشرکین اور ان کے جاہل اور گمراہ آباؤ اجداد نے گھڑ لیا ہے انہوں نے ان کے لیے اسمائے باطلہ ایجاد کیے جن کی وہ مستحق نہ تھیں پس انہوں نے خود اپنے آپ کو اور دیگر گمراہ لوگوں کو فریب میں مبتلا کیا۔ جن معبودوں کا یہ حال ہو وہ عبادت کا ذرہ بھر استحقاق نہیں رکھتے یہ خود ساختہ ہمسر جن کو انہوں نے ان ناموں سے موسوم کیا ہے اور اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ یہ نام ان اوصاف سے مشتق ہیں جن سے یہ متصف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کے ناموں اور الحاد اور شرک کی جسارت کرتے ہوئے لات اور لٰہ سے مشتق کرکے موسوم کیا جوعبادت کا مستحق ہے، عزیز سے عزّٰی اور منان سے منات کو مشتق کیا۔ یہ تمام نام معانی سے خالی ہیں، چنانچہ ہر وہ شخص جو ادنیٰ سے عقل سے بہرہ مند ہے وہ ان نام نہاد معبودوں کے اندر ان اوصاف کے بطلان کا علم رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya tum ney laat aur uzza ( ki haqeeqat ) per bhi ghor kiya hai-?
12 Tafsir Ibn Kathir
بتکدے کیا تھے ؟
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مؤنث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کردی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے۔ ابو سفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آ جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے آپ نے فرمایا دعا (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکہ اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا۔ قبیلہ خزاعہ، اوس، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کہتے جاتے تھے
یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک
اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنادی، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبداللہ کے ہاتھوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کردیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہوگا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آجانے اللہ کی باتیں واضح ہوجانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہوگا۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ 11ۚ ) 57 ۔ الحدید :11) کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کرسکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے۔