القمر آية ۲۳
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ
طاہر القادری:
(قومِ) ثمود نے بھی ڈرسنانے والے پیغمبروں کو جھٹلایا،
English Sahih:
Thamud denied the warning.
1 Abul A'ala Maududi
ثمود نے تنبیہات کو جھٹلایا
2 Ahmed Raza Khan
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا
3 Ahmed Ali
قوم ثمود نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا تھا
4 Ahsanul Bayan
قوم ثمود نے ڈرانے والوں کو جھٹلایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ثمود نے بھی ہدایت کرنے والوں کو جھٹلایا
6 Muhammad Junagarhi
قوم ﺛمود نے ڈرانے والوں کو جھٹلایا
7 Muhammad Hussain Najafi
قومِ ثمود نے ڈرانے والوں (پیغمبروں(ع)) کو جھٹلایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ثمود نے بھی پیغمبروں علیھ السّلام کو جھٹلایا
9 Tafsir Jalalayn
ثمود نے بھی ہدایت کرنے والوں کو جھٹلایا
ترجمہ : ثمود نے ڈرانے والی چیزوں (یعنی تنبیہات) کی تکذیب کی نذر، نذیر کی جمع ہے یعنی ان امور کی کہ جن کے ذریعہ ان کو ان کے نبی صالح نے ڈرایا، اگر وہ ان پر ایمان نہ لائے اور ان کی پیروی نہ کی تو انہوں نے کہا کیا ہم ایسے شخص کی اتباع کریں جو ہم میں کا ایک فرد ہے بشراً ، ما اضمر کے قاعدہ سے منصوب ہے، منا اور واحدا دونوں بشر کی صفت ہیں اور نتبعہ، بشراً کے فعل ناصب کا مفسر ہے اور استفہام بمعنی نفی ہے معنی یہ ہیں کہ ہم اس کی کیوں اتباع کریں ؟ اور ہم بڑی جماتع ہیں اور وہ ہم میں کا ایک ہے اور فرشتہ بھی نہیں ہے یعنی ہم اس کی اتباع نہیں کریں گے، اگر ہم نے اس کی اتابع کی تو ہم گمراہی میں یعنی راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہوں گے اور (حال) جنون میں ہوں گے، کیا ہم میں سے اس پر وحی نازل کی گئی ؟ یعنی اس کی طرف وحی نہیں بھیجی گئی (القی) دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور دوسرے کی تسہیل کے ساتھ اور دونوں صورتوں میں دونوں کے درمیان ہمزہ داخل کر کے اور ادخال کو ترک کر کے (نہیں) بلکہ وہ اپنے اس دعوے میں کہ جو کچھ اس نے یان کیا وہ اس پر بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے جھوٹا متکبر شیخی خورہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کو عنقریب کل یعنی آخرت میں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا اور شیخی خوردہ کون ہے ؟ حالانکہ جھوٹے وہ خود ہیں اس لئے کہ ان کو اپنے نبی صالح کی تکذیب پر عذاب دیا جائے گا، ہم ان کی آزمائش کے لئے ایک اونٹنی ان کے مطالبہ کے مطابق پتھر سے نکالنے والے ہیں تاکہ ہم ان کو آزمائیں، اے صالح تو ان کا انتظا کر کہ وہ کیا کرنے والے ہیں ؟ اور ان کے ساتھ کیا (معاملہ) کیا جانے والا ہے ؟ اور تو ان ایذا رسانیوں پر صبر کر (اصطبر) کی طاء تاء افتعال سے بدلی ہئی ہے اور ان کو بتادو کہ پانی ان کے اور اونٹنی کے درمیان تقسیم شدہ ہے ایک دن ان کی باری ہے اور ایک دن اونٹنی کی ہر ایک اپنی اپنی باری پر حاضر ہوگا قوم اپنی باری کے دن حاضر ہوگی اور اونٹنی اپنی باری پر، وہ لوگ اس طریقہ پر ایک زمانہ تک قائم رہے پھر وہ اس سے اکتا گئے تو انہوں نے اونٹنی اپنی باری پر، وہ لوگ اس طریقہ پر ایک زمانہ تک قائم رہے، پھر وہ اس سے اکتا گئے تو انہوں نے اونٹنی کے قتل کا ارادہ کرلیا تو انہوں نے اپنے ساتھی قدار کو اس اونٹنی کے قتل کے لئے آواز دی تو اس نے تلوار لی اور اس تلوار سے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں یعنی ان کی موافقت (اور مشورہ سے) اس اونٹنی کو قتل کردیا تو کیسا رہا میرا عذاب اور ڈرانا ؟ یعنی میرا ان کو عذاب نازل کرنے سے پہلے عذاب سے ڈرانا (کیسا رہا) یعنی وہ برمحل واقع ہوا اور اس عذاب کو (اللہ تعالیٰ ٰ نے) اپنے قول انا ارسلنا علیھم صیحۃ الخ سے بیان فرمایا ہے تو ہم نے ان پر ایک چیخ بھیج دی تو وہ ایسے ہوگئے جیسے باڑھے بننے والے کی (باڑھ) کی روندی ہوئی گھاس، محتظر وہ شخص جو اپنی بکریوں (کی حفاظت) کے لئے سوکھی گھاس اور کانٹوں (وغیرہ) سے باڑھ بناتا ہے اس میں بکریوں کی بھیڑیوں اور درندوں سے حفاظت کرتا ہے اور اس گھاس سے (جب کچھ) گر جاتا ہے تو بکریاں اس کو روند دیتی ہیں یہی ھشیم ہے، بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے اس ان کردیا ہے، کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا، قوم لوط نے (بھی) ان چیزوں کو جھٹلایا جن سے ان کو لوط (علیہ السلام) کی زبانی ڈرایا گیا، بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی یعنی ایسی ہوا جو ان پر کنکریاں برساتیھی اور وہ چھوٹی کنکریوں سے ایک تھی نہ کہ مٹھی بھر کر تو وہ ہلاک ہوگئے سوائے آل لوط کے اور آل لوط مع لوط کے ان کی دو بیٹیاں تھیں، ہم نے ان کو ایک صبح کے وقت نجات دی یعنی غیر متعین دن کی صبح میں اور اگر یوم معین (کی صبح) مراد ہو تو غیر منصرف ہوگا، اس لئے کہ یہ معرفہ ہے اور السحر سے معدول ہے، اس لئے کہ اس کا حق یہ ہے کہ معرفہ میں الف لام کے ساتھ استعمال ہو (رہی) یہ بات کہ آل لوط پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی گئی یا نہیں اس میں دو قول ہیں، پہلی صورت (یعنی بھیجنے کی صورت) میں تعبیر استثناء متصل ہوگی اور دوسری صورت (یعنی نہ بھیجنے کی صورت میں تعبیر استثناء منقطع ہوگی، تساھلاً (چشم پوشی کرتے ہوئے) اگر مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہو ہمارے خصوصی انعام (احسان) کے طور پر (نعمۃ) مصدر ہے، انعاماً کے معنی میں ہم ایسی ہی یعنی اس چیز کے مثل ہر اس شخص کو جزاء دیتے ہیں جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے حال یہ ہے کہ وہ مومن ہو یا جو شخص اللہ پر اور اس کے رسوال پر ایمان لایا ہو اور اس کی اطاعت کی ہو اور ان کو لوط (علیہ السلام) نے ہماری پکڑ سے عذاب کے ذریعہ ڈرایا تو وہ جھگڑنے لگے اور ان کے ڈرانے کی تکذیب کی اور حضرت لوط سے ان کے مہمانوں کا مطالبہ کیا یعنی ان سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ ان کے اور ان لوگوں کے درمیان آڑے نہ آئے جو اس کے پاس مہمانوں کی شکل میں آئے ہیں تاکہ ان کے ساتھ وہ عمل خبیث کریں اور وہ مہمان فرشتے تھے تو ہم نے ان کی آنکھیں ملیا میٹ کردیں یعنی ان کو اندھا کردیا اور آنکھوں کو بدون گڑھوں کے باقی چہرے کے مانند (ہموار) کردیا، اس طریقہ سے کہ جبرئیل نے ان کی آنکھوں پر اپنا پر مار دیا اور ہم نے ان سے کہا میرا عذاب اور ڈراوا چکھو یعنی میرے عاب اور ڈرانے کا ثمرہ اور نتیجہ (چکھو) اور بلاشبہ ان کو ایک دن صبح تڑکے دائمی عذاب نے پکڑ لیا یعنی آخرت کے عذاب سے جا ملنے والے عذاب نے (ان کو پکڑ لیا) پس میرے عذاب اور میرے ڈرانے کا مزہ چکھو اور بلاشبہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے ؟
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بالامور التی انذرھم بھا، منذر کی تفسیر الامور المنذر بھا سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں منذر سے مراد انبیاء نہیں ہیں بلکہ وہ امور مراد ہیں جن سے ڈرایا گیا ہے، دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نذر نذیر بمعنی رسل کی جمع ہو اور نذر سے مراد رسول ہوں، اور نذیر کے بجائے نذر جمع کا صیغہ لانے میں یہ نکتہ ہوسکتا ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔
قولہ : منصوب علی الاشتغال یعنی بشراً ما اضمر عاملہ کے قاعدہ سے منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ” انتبع بشراً منا واحداً نتبعہ فعل ناصب محذوف کا مفسر ہے۔
قولہ : جنون، سعر کی تفسیر جنون سے کر کے اشارہ کردیا کہ سعر مفرد ہے، جمع نہیں ہے، اس کے معنی خفت عقل کے ہیں، بولا جاتا ہے ناقۃ مسعورۃ مجنون کے مانند چلنے والی اونٹنی، اور سعر بمعنی نار کی جمع ہوسکتی ہے (القیض میں چار قراتیں ہیں اور چاروں سبعیہ ہیں۔
قولہ : قنۃ قتنۃ مرسلوا کا مفعول لہ ہے یعنی ہم ان کی آزمائش کے لئے پتھر کی ایک چٹان سے ایک اونٹنی نکالیں گے۔
قولہ : وبیسن الناقۃ مفسر علامہ کا مقصد اس اضافہ سے اس شبہ کو دور کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول الماء قسمۃ بینھم سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی باری صالح (علیہ السلام) کی قوم کے درمیان تھی حالانکہ پانی کی تقسیم قوم اور اونٹنی کے درمیان تھی، اسی شبہ کو دور کرنے کے لئے وبین الناقۃ کا اضافہ فرمایا۔
قولہ : موافقۃ لھم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس آیت اور سورة شعراء کی آیت میں تطبیق دینا ہے، سورة شعراء میں فعقروھا جمع کے صیغے کے ساتھ ہے اور یہاں فعقر واحد کے صیغہ کے ساتھ ہے، تطبیق کی صورت میں یہ ہے کہ قاتل بالمبا شرتو قدار ہی تھا، مگر قتل کے مشورہ میں سب شریک تھے، اسی وجہ سے یہاں بالمبا شرقاتل کی طرف قتل کی نسبت کردی اور سوروہ شعرئا میں بالواسطہ قاتلوں کو بھی قتل میں شریک کرتے ہوئے جمع کا صیغہ استعمال کیا۔
قولہ : ھشیم صیغہ صفت مشبہ بمعنی مھشوم اسم مفعول، ریزہ ریزہ شدہ روندا ہوا۔
قولہ : من الاسحار اس اضافے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سحر نکرہ ہے یعنی غیر معین دن کی صبح
قولہ : ولوارید من یوم معین لمنع من الصرف الخ اس اضافے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بسحر منصرف ہے اس لئے کہ اس کو نکرہ ماننے کی صورت میں اسباب منع صرف میں سے ایک سبب صرف عدل پایا جا رہا ہے کیونکہ سحر السحر سے معدول ہو کر آیا ہے اور اگر اس سے یوم معین کی صبح مراد لی جائے تو اس میں علمیت بھی موجود ہوگی، اس صورت میں اس میں دو سبب یعنی عدل اور علمیت ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہوگا۔
قولہ : تسمحاً ایک نسخہ میں تسامحا ہے، مطلب یہ ہے کہ الا آل لوط کو مستثنیٰ منقطع قرار دینا چشم پوشی کرتے ہوئے ہوسکتا ہے ورنہ اس کی کوئی صورت نہیں ہے اس لئے کہ آل لوط بھی قوم کے افراد ہیں جس کی وجہ سے مستثنیٰ منہ میں داخل ہیں لہٰذا یہ مستثنیٰ متصل ہوگا مگر ظاہر حال پر نظر کرتے ہوئے اس کو مستثنیٰ منقطع قرار دیا ہے۔
قولہ : نعمۃ مصدر یعنی نعمۃ نجینا کا مفعول مطلق بغیر لفظہ تاکید کے لئے ہے اس لئے کہ نجینا انعمنا کے معنی میں ہے اور نجینا کا مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے اور فعل محذوف کا مفعول مطلق بلفظہ بھی ہوسکتا ہے ای انعمنا نعمۃ
قولہ : اومن امن باللہ و رسولہ واطاعھا یہ پورا جملہ وھو مومن کا عطف تفسیری ہے۔
قولہ : تجادلوا و کذبوا یہ فتماروا کی تفسیر ہے اس کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے، شبہ یہ ہے کہ تماروا کا صلہ باء نہیں آتا حالانکہ یہاں صلہ باء واقع ہے۔
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تماروا تجادلوا اور کذبوا کے معنی کو متضمن ہے جس کی وجہ سے باء کے ذریعہ تعدیہ درست ہے۔
تفسیر و تشریح
کذبت ثمود بالنر سورة قمر کو قرب قیامت کے ذکر سے شروع کیا گیا تاکہ کفار و مشرکین جو دنیا کی ہوا و ہوس میں مبتلا اور آخرت سے غافل ہیں وہ ہوش میں آجائیں، پہلے روز قیامت کے عذاب کو بیان کیا گیا، اس کے بعد دنیا میں اس کے انجام بد کو بتلانے کے لئے پانچ مشہور عالم اقوام کے حالات اور انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت پر ان کے انجام بد اور دنیا میں بھی طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (معارف)
سب سے پہلے قوم نوح کا ذکر کیا گیا، کیونکہ یہی دنیا کی سب سے پہلی قوم ہے جو عذاب الٰہی میں پکڑی گئی، یہ قصہ سابقہ آیات میں گذر چکا ہے، مذکورۃ الصدر آیات میں چار اقوام کا ذکر ہے، عاد ثمو، قوم لوط، قوم فرعون، ان کے مفصل واقعات قرآن کے متعدد مقامات میں بیان ہوئے ہیں یہاں ان کا اجمالی ذکر ہے، مذکورہ چاروں اقوام میں سے سب سے پہلے قوم ثمود کا ذکر ہے جو حضرت حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت تھی، اس قوم کو عاد اخریٰ بھی کہت یہیں۔
قوم ثمود کو حضرت صالح (علیہ السلام) کی پیروی سے انکار تین وجہ سے تھا، ایک یہ کہ وہ بشر ہیں، دوسرے یہ کہ وہ اکیلے تنہا ہیں اور عام آدمی ہیں کوئی بڑے سردار نہیں اور نہ ان کے ساتھ کوئی جتھا ہے، تیر سے یہ کہ وہ ہماری قوم کے ایک فرد ہیں، ہم پر ان کی کوئی فضیلت و فوقیت حاصل نہیں، لہٰذا ایسی وصرت میں ہمارما ان کی پیروی کرنا اور ان کو اپنا بڑا مان لینا غلطی اور پاگل پن کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ﴾ ’’ثمود نے جھٹلایا۔‘‘ اس آیت میں ثمود سے مراد معروف قبیلہ ہے جو حِجر کے علاقے میں آباد تھا جب ان کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا جس کا کوئی شریک نہیں اور مخالفت کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا اور استکبار کا مظاہرہ کیا اور تکبر سے ڈینگیں مارتے ہوئے کہا: ﴿أَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهُ ﴾ ’’بھلا ایک ایسا آدمی جو ہم ہی میں سے ہے ہم اس کی پیروی کریں؟‘‘ یعنی ہم ایک بشر کی اتباع کیسے کرسکتے ہیں جو فرشتہ نہیں جو ہم میں سے ہے جو ہمارے علاوہ ان لوگوں میں سے بھی نہیں جو لوگوں کے نزدیک ہم سے افضل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اکیلا ہی تو ہے۔ ﴿ إِنَّا إِذًا ﴾ یعنی اگر ہم نے اس حالت میں اس کی اتباع کی ﴿اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ﴾ تو تب ہم گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔ یہ کلام ان کی گمراہی اور بدبختی کے سبب سے صادر ہوا کیونکہ انہوں نے محض تکبر کی بنا پر ایک ایسے رسول کی اتباع سے انکار کردیا جو ان کی جنس میں سے تھا مگر انہیں شجر وحجر اور بتوں کے پجاری بنتے ہوئے غیرت نہ آئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
samood ki qoam ney bhi tanbeeh kernay walon ko jhutlaney ka ravaiyya ikhtiyar kiya .
12 Tafsir Ibn Kathir
فریب نظر کے شکار لوگ
ثمودیوں نے رسول اللہ حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور تعجب کے طور پر محال سمجھ کر کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ہمیں میں سے ایک شخص کے تابعدار بن جائیں ؟ آخر اس کی اتنی بڑی فضیلت کی کیا وجہ ؟ پھر اس سے آگے بڑھے اور کہنے لگے ہم نہیں مان سکتے کہ ہم سب میں سے صرف اسی ایک پر اللہ کی باتیں نازل کی جائیں، پھر اس سے بھی قدم بڑھایا اور نبی اللہ کو کھلے لفظوں میں جھوٹا اور پرلے سرے کا جھوٹا کہا بطور ڈانٹ کے اللہ فرماتا ہے اب تو جو چاہو کہہ لو لیکن کل کھل جائے گا کہ دراصل جھوٹا اور جھوٹ میں حد سے بڑھ جانے والا کون تھا ؟ ان کی آزمائش کے لئے فتنہ بنا کر ہم ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں چناچہ ان لوگوں کی طلب کے موافق پتھر کی ایک سخت چٹان میں سے ایک چکلے چوڑے اعضاء والی گابھن اونٹنی نکلی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ تم اب دیکھتے رہو کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور ان کی سختیوں پر صبر کرو دنیا اور آخرت میں انجام کار غلبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا رہے گا اب ان سے کہہ دیجئے کہ پانی پر ایک دن تو ان کا اختیار ہوگا اور ایک دن اس اونٹنی کا۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ\015\05ۚ ) 26 ۔ الشعراء :155) ہر باری موجود کی گئی ہے یعنی جب اونٹنی نہ ہو تو پانی موجود ہے اور جب اونٹنی ہو تو اس کا دودھ حاضر ہے انہوں نے مل جل کر اپنے رفیق قدار بن سالف کو آواز دی اور یہ بڑا ہی بدبخت تھا، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا 12۽) 91 ۔ الشمس :12) ان کا بدترین آدمی اٹھا اس نے آکر اسے پکڑا اور زخمی کیا پھر تو ان کے کفر و تکذیب کا میں نے بھی پورا بدلہ لیا اور جس طرح کھیتی کے کٹے ہوئے سوکھے پتے اڑ اڑ کر کافور ہوجاتے ہیں انہیں بھی ہم نے بےنام و نشان کردیا، خشک چارہ جس طرح جنگل میں اڑتا پھرتا ہے اسی میں انہیں بھی برباد کردیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ اونٹوں کو خشک کانٹوں دار باڑے میں رکھ لیا کرتے تھے۔ جب اس باڑھ کو روندھ دیا جائے اس وقت اس کی جیسی حالت ہوجاتی ہے وہی حالت ان کی ہوگئی کہ ایک بھی نہ بچا نہ بچ سکا۔ جیسے مٹی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اسی طرح ان کے بھی پر پرزے اکھڑ گئے یہ سب اقوال مفسرین کے اس جملہ کی تفسیریں ہیں لیکن اول قوی ہے واللہ اعلم۔