الرحمٰن آية ۲۶
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍۖ
طاہر القادری:
ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے،
English Sahih:
Everyone upon it [i.e., the earth] will perish,
1 Abul A'ala Maududi
ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے
2 Ahmed Raza Khan
زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے
3 Ahmed Ali
جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
6 Muhammad Junagarhi
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جو بھی روئے زمین پر ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو بھی روئے زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو مخلوق زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
ترجمہ :۔ جو کچھ اس پر یعنی زمین پر ہے سب فنا ہونے والا ہے ذوی العقول کو غلبہ دیتے ہوئے من سے تعبیر کیا ہے (صرف) تیرے باعظمت مومنین پر اپنے انعاموں کا احسان کرنے والے رب کی ذات باقی رہ جائے گی سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اور سب آسمان اور زمین والے اسی سے مانگتے ہیں یعنی زبان قال سے یا زبان حال سے (طلب کرتے ہیں) جس چیز کی ان کو حاجت ہوتی ہے خواہ عبادت پر قدرت ہو، یا رزق یا مغرفت وغیرہ وغیرہ پر وہ ہر وقت ایک شان میں رہتا ہے (یعنی ہمہ وقت) ایسے شغل میں رہتا ہے جس کو وہ عالم میں اس کے مطابق جو اس نے نزل میں مقدر کردیا ہے مثلاً زندگی دینا اور موت دینا اور عزت دینا اور ذلیل کرنا اور مالدار کرنا اور مفلس کرنا اور داعی کی دعاء کو قبول کرنا اور سائل کو عطا کرنا وغیرہ وغیرہ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منر ہوجائو گے ؟ اے انسانوں اور جنو ! ہم عنقریب تمہارے لئے فارغ ہوں گے یعنی تمہارے حساب کی طرف متوجہ ہوں گے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اے جن اور انسانوں کی جماعتوں اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو امر تعجیز کے لئے ہے تم طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے اور تم کو اس کی طاقت نہیں وس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے وہ تمہارے اوپر آگ کے شعلے چھوڑے گا (شواظ) آگ کا وہ شعلہ جس میں ھواں نہ ہو، یا مع دھوئیں کے، اور خالص دھواں چھوڑے گا یعنی ایسا دھواں کہ جس میں شعلہ نہ ہو ہو پھر تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ وہ تم کو محشر کی طرف کھینچ کرلے جائے گا سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ پس جب آسمان پھٹ جائے گا یعنی ملائکہ کے نزول کے لئے دروازے کھل جائیں گے اور چمڑے کے مانند سرخ ہوجائے گا جیسا کہ سرخ چمڑا (یعنی) سابقہ حالت کے برخلاف اور اذا کا جواب فما اعظم الھول (محذوف ہے) یعنی کس قدر ہولناک منظر ہوگا ؟ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ اس دن کسی انسان اور جن کے گناہوں کی پرسش نہ ہوگی اور دوسرے وقت میں پرسش ہوگی جیسا کہ فرمایا) فوربک لنسئلنھم اجمعین یعنی قسم ہے تیرے رب کی ہم ضرور ان سے باز پرس کریں گے اور جان یہاں اور آئندہ جنی کے معنی میں ہے اور انس بھی مذکورہ مقاموں میں انسی کے معنی میں ہے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ مجرم اپنے حلیوں سے پہچانے جائیں گے یعنی چہروں کی سیاہی اور آنکھوں کی نیلگونی سے، ان کی پشانیوں کے بال اور قدم پکڑے جائیں گے، تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟ یعنی ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پیچھے سے یا اگٓے سے قدموں سے ملا دی جائے گی اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہی ہے وہ جہنم جس کی مجرم تکذیب کرتے تھے، جہنم اور شدید گرم پانی کے درمیان چکر لگائیں گے (یعنی) دوڑیں گے، آگ کی گرمی سے جب فریاد کریں گے تو گرم پانی پلائے جائیں گے، (ان) قاض کے مانند منقوص ہے سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجائو گے ؟
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای الارض من الحیوان مفسر علام نے علیھا کی تفسیر ای الارض سے کر کے اشارہ کردیا کہ جنت و نار، حور و غلمان فنا نہیں ہوں گے، بلکہ زمین کی اشیاء فنا ہوں گی، نیز کل یوم ھو فی شان سے یہود پر رد ہوگیا، یہود کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پوری کائنات کو پیدا فرمایا جمعہ کے دن آخرت وقت میں حضرت آدم کی تخلیق فرمائی اور شنبہ کے دن کوئی کام نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ یہود ہفتہ کو چھٹی کرتے ہیں۔
قولہ : سنقصد، سنفرغ لکم کی تفسیر سنقصد سے کر کے اشارہ کردیا کہ فراغت سے مراد توجہ اور قصد کرنا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسی مصروفیت نہیں ہوتی کہ دیگر امور میں مشغولیت سے مانع ہو، اس قسم کی مشغولیت مخلوق کا خاصہ ہے۔
قولہ : ثقلان جن و انس کو ثقلان اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حیاۃ و مماۃ زمین پر ثقل ہوتے ہیں۔
قولہ : فانفذوا امر تعجیز کے لئے ہے یعنی اگر تم ہماری حدود سلطنت سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فاتوا بسورۃ من مثلہ
قولہ : کالدھان کانت کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے اور وردۃ کی صفت بھی نیز کانت کے اسم سے حال بھی، دھان دھن کی جمع بھی ہوسکتی ہے، جیسے رمح و رماح اس صورت میں د ھان تلچھت کے معنی میں ہوگا جیسا کہ دوسری آیت میں آسمان کو تلچھٹ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کما قال اللہ تعالیٰ یوم تکون السماء کالمھل اور مھل تیل کی تلچھٹ کو کہتے ہیں، دوسری صورت یہ ہے کہ دھان اسم مفرد ہو جیسا کہ زمخشری نے کہا ہے کہ دھان اسم لما یدھن بہ
قولہ : والجان ھھنا وفیما سیاتی بمعنی الجنی والانس فیھما بمعنی الانسی اس پوری عبارت کے اضافہ سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال :۔ یہ ہے کہ جان اور انس یہ دونوں اسم جنس ہیں اور سوال جنس سے نہیں بلکہ افردا جنس سے ہوتا ہے۔
جواب :۔ اسی سوال کا جواب دینے کے لئے مفسر علام نے فرمایا جان، جنی کے اور انس، انسی کے معنی میں ہے اور یہ دونوں جنس کے افراد میں سے ہیں، یہ دونوں ان الفاظ میں سے ہیں کہ جن کی جنس اور فرد میں امتیاز یاء کے اضافہ سے ہوتا ہے، جیسے زنج اور زنجی میں ہے۔
قولہ : زرقۃ العیون نیلگوں آنکھیں، اس کو گربہ چشم بھی کہتے ہیں، اس کو کرنجی آنکھیں بھی کہتے ہیں۔
قولہ : آن یہ انی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے کھولتا ہوا پانی
تفسیر و تشریح
کل من علیھا فان علیھا کی ضمیر کا مرجع، ارض ہے جس کا ذکر والارض و ضعھا للانام ماقبل میں گذر چکا ہے، اس کے علاوہ الارض ان عام اشیاء میں سے ہے جن کی طرف ضمیر راجع کرنے کے لئے پہلے، مرجع کا ذکر لازم نہیں، مطلب یہ ہے کہ جو جنات اور انسان زمین پر ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، اس میں جن و انس کے ذکر کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس سورت میں مخاطب یہی دونوں ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آسمان اور آسمان والی مخلوقات فانی نہیں ہیں، کیونکہ دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے عام لفظوں میں پوری مخلوقات کا فانی ہونا بھی واضح فرما دیا ہے کل شیء ھالک الا وجھہ مذکورہ دوسری آیت سے لیکر آیت 30 تک اللہ تعالیٰ نے دو حقیقتوں کو بیان فرمایا ہے۔
ایک یہ کہ نہ تو تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سروسامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو، لازوال اور لافانی تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں، اب اگر تم میں سے کوئی شخص گھمنڈوغرور میں مبتلا ہو کر ” ہم چومن دیگرے نیست ‘ کا نعرہ بلند کرتا ہے تو یہ محض اس کی بےوقفی اور کم ظرفی ہے، اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بیوقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے، چند بندے جو اس کے گرج مع ہوجائیں، ان کا بزعم خویش خدا بن بیٹھے تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے، کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک رائی کے دانے کے برابر نہیں ہے، اس کے ایک کونے میں دس بیس سال یا سو پچاس سال جو خدائی اور کبریائی چلے اور قصہ پارینہ اور داساتن ماضی بن جائے وہ آخر کیا خدائی ؟ اور کیا کبریائی ہے ؟ جس پر پھولے نہ سمائے۔
دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بنائے ہوئے ہو خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء یا چاند اور سورج یا دیوی دیوتا یا اور کسی قسم کی مخلوق، ان میں سے کوئی متہاری حاجت کو پورا نہیں کرسکتا، وہ بےچارے تو خود اپنی ضروریات اور حاجات کے لئے اللہ کے محتاج ہیں، ان کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں وہ خود اپنی حاجت روائی نہیں کرسکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا خاک کریں گے، اس ناپیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے، اس کی کارفرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ﴾ جو عظمت اور کبریائی کی مالک ہے جو مجد اور بزرگی کی مالک ہے جس کی بنا پر اس کی تعظیم اور عزت کی جاتی ہے اور اس کے جلال کے سامنے سرتسلیم خم کیا جاتا ہے الاکرام سے مراد بے پایاں فضل اور جود ہے جس کے ذریعے سے اللہ اپنے اولیا خواص کو مختلف انواع کے اکرام کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے جس کی بنا پر اس کے اولیا خواص اس کی تکریم کرتے اس کے جلال کا اقرار کرتے ہیں اس کی تعظیم کرتے ہیں اس سے محبت کرتے ہی اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss zameen mein jo koi hai , fana honey wala hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا
فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہوگا کل جاندار مخلوق کو موت آجائے گی اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک ہے جو موت و فوت سے پاک ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولا تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے (یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک) یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ اے آسمان و زمین کے ابتدا پیدا کرنے والے۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جب تو آیت (کل من علیھا فان) پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت ( وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27ۚ ) 55 ۔ الرحمن :27) پڑھ لے۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے آیت (كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 88 ) 28 ۔ القصص :88) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ 28) 18 ۔ الكهف :28) ، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے پلاتے ہیں وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ساتھ ہی فرمایا اب تم اے جن و انس رب کی کونسی نعمت کا انکار کرتے ہو ؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے سب کے سب سائل ہیں وہ غنی ہے سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے تنگ حالوں کو کشادگی دے مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے غم و ہم دور کرے بےقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے گناہوں کو بخشے زندگی وہ دے موت وہ دے تمام زمین والے کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا ان کی پکار کا مدعا ان کے شکوے شکایت کا مرجع وہی ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ابن جریر میں ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ نے سوال کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ شان کیا ہے ؟ فرمایا گناہوں کا بخشنا دکھ کو دور کرنا لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً حضرت ابو الدرداء کے قول سے مروی ہے بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں اس کا علم نوری ہے اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا اور مارتا اور عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔