کیا ایمان والوں کے لئے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لئے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں اور اس حق کے لئے (بھی) جو نازل ہوا ہے اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے، اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں،
English Sahih:
Has the time not come for those who have believed that their hearts should become humbly submissive at the remembrance of Allah and what has come down of the truth? And let them not be like those who were given the Scripture before, and a long period passed over them, so their hearts hardened; and many of them are defiantly disobedient.
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں
3 Ahmed Ali
کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل الله کی نصیحت اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں (۱) اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی (۲) پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے (۳) اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (٤)
۱ ٦ ۔۱ خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مذید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ ١٦۔۲ جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔ ۱ ٦ ۔۳ چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کردی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی۔ ۱ ٦ ۔٤ یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرف نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں۔ پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا اب تک ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں اور ان کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا اہلِ ایمان کیلئے ابھی وہ وقت نہیںایا کہ ان کے دل خدا کی یاد اور (خدا کے) نازل کردہ حق کیلئے نرم ہوں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پس ان پر طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوئے اور (آج) ان میں سے اکثر فاسق (نافرمان) ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا صاحبانِ ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہوجائیں اور وہ ان اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں کتاب دی گئی تو ایک عرصہ گزرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت بدکار ہوگئی
9 Tafsir Jalalayn
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ (الآیۃ) الفاظ اگرچہ عام ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاب عام مومنین کو ہے، مگر تمام مسلمان مراد نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ مراد ہے کہ جو زبانی ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماننے والوں میں شامل ہوگیا تھا اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا، آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان پر نرغہ کر رکھا ہے عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے، گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بےسروسامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لئے مدینے کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے اور دشمن کے مقابل ہمیں بھی یہی مخلص مومن سربکف ہیں مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان والے ہو ؟ اسلام کے لئے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لئے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سرفروشی کا جذبہ پیدا ہو ؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آئے اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں، اللہ کے نام پر انہیں پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں، اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں خود چندے کی اپیل کرے اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے اور صاف صاف یہ سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہوگا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کا نپیں اور نہ اس کے آگے جھکیں، یعنی ایمان و ی ہے کہ دل نرم ہو نصیحت اور خدا کی یاد کا اثر جلد قبول کرے شروع میں اہل کتاب یہ باتیں اپنے پیغمبروں سے پاتے تھے، مدت کے بعد ان پر غفلت چھا گئی، دل سخت ہوگئے، وہ بات نہ رہی، اکثروں نے نہایت سرکشی اور نافرمانی شروع کردی، اب مسلمانوں کی باری آئی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی صحبت میں رہ کر نرم دلی، انقیاد کامل اور خشوع لذکر اللہ کی صفات سے متصف ہوں اور مقام بلند پر پہنچیں جہاں کوئی امت نہیں پہنچی۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں مومنین اور مومنات ،منافقین اور منافقات کا کیا حال ہوگا، یہ چیز دلوں کو اپنے رب کے خوف و خشوع اور اس کی عظمت کے سامنے عجز و انکسار کی دعوت دیتی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر ان کے دلوں میں خشوع اور انکسار نہ ہونے کی بنا پر عتاب فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ یعنی کیا ابھی مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نرم ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ڈر جائیں ۔اس سے مراد قرآن ہے۔ اور اس کے اوامر و نواہی اور جو حق نازل ہوا ہے جسے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں ،اس سے ڈر جائیں اور اس کے سامنے سر خم کردیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کتاب و حکمت کے لیے جو اس نے نازل فرمائی ہے، خشوع و خضوع کی ترغیب ہے، نیز اس امر کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اہل ایمان مواعظ الٰہیہ اور احکام شرعیہ سے نصیحت حاصل کریں اور ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ﴿وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ﴾ یعنی ان لوگوں کے مانند نہ ہوجائیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی جو خشوع قلب اور کامل اطاعت و تسلیم کی موجب تھی ،پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے نہ دائمی طور پر اس پر قائم رہے بلکہ زمانے گزر گئے اور ان کی غفلت جڑ پکڑ گئی، ان کا ایمان کمزور اور ایقان زائل ہوگیا۔ ﴿فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾’’پس ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔‘‘ پس دل ہر وقت اس امر کے محتاج ہیں کہ وہ اس کتاب سے نصیحت حاصل کرتے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور حکمت کی گفتگو کرتے رہیں، اس کتاب سے غفلت نہ برتی جائے کیونکہ یہ چیز دل کی سختی اور آنکھ کے جمود کا سبب بنتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log emaan ley aaye hain , kiya unn kay liye abb bhi waqt nahi aaya kay unn kay dil Allah kay ziker kay liye aur jo haq utra hai , uss kay liye paseej jayen-? aur woh unn logon ki tarah naa banen jinn ko pehlay kitab di gaee thi , phir unn per aik lambi mauddat guzar gaee , aur unn kay dil sakht hogaye , aur ( aaj ) unn mein say boht say nafarman hain-?
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان والوں سے سوال پروردگار عالم فرماتا ہے کیا مومنوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر اللہ وعظ نصیحت آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہوجائیں ؟ سنیں اور مانیں احکام بجا لائیں ممنوعات سے پرہیز کریں۔ اب عباس فرماتے ہیں قرآن نازل ہوتے ہی تیرہ سال کا عرصہ نہ گذرا تھا کہ مسلمانوں کے دلوں کو اس طرف نہ جھکنے کی دیر کی شکایت کی گئی، ابن مسعود فرماتے ہیں چار ہی سال گذرے تھے جو ہمیں یہ عتاب ہوا (مسلم) اصحاب رسول پر ملال ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں حضرت کچھ بات تو بیان فرمائے پس یہ آیت اترتی ہے۔ ( نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ) 12 ۔ یوسف :3) ایک مرتبہ کچھ دنوں بعد یہی عرض کرتے ہیں تو آیت اترتی ہے۔ ( اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23) 39 ۔ الزمر :23) پھر ایک عرصہ بعد یہی کہتے ہیں تو یہ آیت (الم یان) اترتی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سب سے پہلے خیر جو میری امت سے اٹھ جائے گی وہ خشوع ہوگا۔ پھر فرمایا تم یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کردیا۔ پس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر رائے و قیاس کے پیچھے پڑھ گئے اور از خود ایجاد کردہ اقوال کو ماننے لگ گئے اور اللہ کے دین میں دوسروں کی تقلید کرنے لگے، اپنے علماء اور درویشوں کی بےسند باتیں دین میں داخل کرلیں، ان بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کردیئے کتنی ہی اللہ کی باتیں کیوں نہ سناؤ ان کے دل نرم نہیں ہوتے کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر نہیں کرتا کوئی وعدہ وعید ان کے دل اللہ کی طرف موڑ نہیں سکتا، بلکہ ان میں کے اکثر و بیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے، دل کے کھوٹے اور اعمال کے بھی کچے، جیسے اور آیت میں ہے۔ ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً 13) 5 ۔ المآئدہ :13) ان کی بدعہدی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل کی اور ان کے دل سخت کردیئے یہ کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کردیتے ہیں اور ہماری نصیحت کو بھلا دیتے ہیں، یعنی ان کے دل فاسد ہوگئے اللہ کی باتیں بدلنے لگ گئے نیکیاں چھوڑ دیں برائیوں میں منہمک ہوگئے۔ اسی لئے رب العالمین اس امت کو متنبہ کر رہا ہے۔ ہے کہ جان رکھو مردہ زمین کو اللہ زندہ کردیتا ہے اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سخت دلوں کے بعد بھی اللہ انہیں نرم کرنے پر قادر ہے۔ گمراہیوں کی تہہ میں اتر جانے کے بعد بھی اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس طرح بارش خشک زمین کو تر کردیتی ہے اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں کو زندہ کردیتی ہے۔ دلوں میں جبکہ گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا ہو کتاب اللہ کی روشنی اسے دفعتاً منور کردیتی ہے، اللہ کی وحی کے قفل کی کنجی ہے۔ سچا ہادی وہی ہے، گمراہی کے بعد راہ پر لانے والا، جو چاہے کرنے والا، حکمت و عدل والا، لطیف و خیر والا، کبر و جلال والا، بلندی و علو والا وہی ہے۔