انہوں نے اﷲ کے لئے انہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اﷲ کے لئے ہے اور یہ ہمارے (خود ساختہ) شریکوں کے لئے ہے، پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لئے ہے سو وہ تو اﷲ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اﷲ کے لئے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے، (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں،
English Sahih:
And they [i.e., the polytheists] assign to Allah from that which He created of crops and livestock a share and say, "This is for Allah," by their claim, "and this is for our 'partners' [associated with Him]." But what is for their "partners" does not reach Allah, while what is for Allah – this reaches their "partners." Evil is that which they rule.
1 Abul A'ala Maududi
اِن لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعم خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ!
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کیے ان میں اسے ایک حصہ دار ٹھہرایا تو بولے یہ اللہ کا ہے ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شریکوں کا تو وہ جو ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا کو نہیں پہنچتا، اور جو خدا کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے، کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں
3 Ahmed Ali
اور الله کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اس کے لیے مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ الله کا حصہ ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا ہے سو جو حصہ ان کے شریکوں کا ہے وہ الله کی طرف نہیں جا سکتا اور جو الله کا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
١٣٦۔١ اس آیت میں مشرکوں کے عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا اور وہ زمینی پیداوار اور مال مویشی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کر لیتے اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقرا اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقرر حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکال کر اس میں شامل کر لیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہو تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ ١٣٦۔٢ یعنی اللہ کے حصہ کی کمی کی صورت میں بتوں کی مقررہ حصے میں سے صدقات و خیرات نہ کرتے۔ ١٣٦۔٣ ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو وہ اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کر لیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (یہ لوگ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) تو خدا کا اور یہ ہمارے شریکوں (یعنی بتوں) کا تو جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو خدا کی طرف نہیں جا سکتا اور جو حصہ خدا کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے یہ کیسا برا انصاف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے، پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وه تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وه ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے کیا برا فیصلہ وه کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
ان لوگوں نے اللہ کے لیے اسی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے اور اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں (دیوتاؤں) کا ہے۔ جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا اور جو حصہ اللہ کا ہے وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے یہ لوگ کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروں میں اس کا حصہّ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ یہ ان کے خیال کے مطابق خد اکے لئے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لئے ہے -اس کے بعد جو شرکائ کا حصّہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا ہے .اور جو خدا کا حصہّ ہے وہ ان کے شریکوں تک پہنچ سکتا ہے.کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کررہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور (یہ لوگ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصّہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصّہ) تو خدا کا اور یہ ہمارے شریکوں (یعنی بتوں) کا۔ تو جو حصّہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو خدا کی طرف نہیں جاسکتا۔ اور جو حصّہ خدا کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جاسکتا ہے یہ کیسا برا انصاف ہے وَجَعَلوا للہ مما۔۔۔۔ نصیباً ۔ اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا کہ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کیلئے اور کچھ حصہ خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کرلیتے تھے، اللہ کے حصہ کو مہمانوں محتاجوں اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے تھے اور بتوں کے حصہ کو بتوں کے مجاوروں اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے، پھر اگر بتوں کے حصہ میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصہ میں سے نکال کر بتوں کے حصہ میں شامل کرلیتے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصہ میں سے نہ نکالتے اور کہہ دیتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی بیوقوفی، کم عقلی اور انتہا کو پہنچی ہوئی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ چنانچہ ان کی متعدد خرافات کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ ان کی گمراہی پر متنبہ کر کے اہل ایمان کو ان سے بچائے اور ان بیوقوفوں کا اس حق کی مخالفت کرنا، جسے انبیا و رسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں، حق میں نقص کا باعث نہیں۔ کیونکہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا﴾ ” اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مویشی اور کھیتی پیدا کی ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کر کے بندوں کے لئے رزق فراہم کیا ہے۔ انہوں نے دو محظور امور بلکہ تین کو یکجا کردیا جن سے بچنے کے لئے ان کو کہا گیا تھا۔ (ا) اللہ تعالیٰ پر ان کا احسان دھرنا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر کیا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر نوازش ہے۔ (ب) اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کی پیداوار میں شریک کرنا حالانکہ وہ ان میں سے کسی چیز کو وجود میں نہیں لائے۔ (ج) اور ظلم وجور پر مبنی ان کا فیصلہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حصے کی کوئی پروا نہیں کرتے، اگرچہ یہ حصہ اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیں اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے حصے کو درخوا اعتناء سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصے کے ساتھ نہیں ملاتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مشرکین کو کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار اور مویشی حاصل ہوتے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کے لئے وجود میں لایا، تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے۔ (١) ایک حصے کے بارے میں بزعم خود کہتے ” یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔“ حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (٢) دوسرا حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے معبودوں اور بتوں کی نذر کرتے تھے، اگر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے نکل کر اس حصے میں خلط ملط ہوجاتی جو غیر اللہ کے لئے مقرر کیا تھا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصہ کی طرف نہیں لوٹاتے تھے اور کہتے تھے ” اللہ اس سے بے نیاز ہے“ اور اگر کوئی چیز، جو انہوں نے اپنے معبودوں اور بتوں کے لئے مقرر کی تھی اس حصے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا تھا، تو اسے بتوں کے لیے مقرر حصے کی طرف لوٹا دیتے اور کہتے ” یہ بت تو محتاج ہیں اس لئے ان کے حصے کو ان کی طرف لوٹانا ضروری ہے۔“۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر ظلم پر مبنی، بدترین فیصلہ کوئی اور ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انہوں نے جو حصہ مخلوق کے لئے مقرر کیا ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے حق سے زیادہ خیر خواہی اور حفاظت کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس معنی کا احتمال بھی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو کوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔ الحدیث“ [صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب تحریم الرباء، حدیث :2985 ] آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین نے اپنے معبودوں اور بتوں کے تقرب کے حصول کے لئے جو حصے مقرر کر رکھے ہیں وہ خالص غیر اللہ کے لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں اور ان کے زعم باطل کے مطابق انہوں نے جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کیا ہے وہ ان کے شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں پہنچتا، بلکہ یہ بھی ان کے معبودوں اور بتوں کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ وہ مخلوق میں سے اس شخص کا عمل کبھی قبول نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے خسران اور ان کی کم عقلی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بے شک خسارے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے بغیر علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا“ یعنی وہ اپنے دین، اولاد اور عقل کے بارے میں خسارے میں رہے۔ پختہ رائے اور عقل کے بعد ہلاکت انگیز حماقت اور ضلالت ان کا وصف ٹھہری ﴿وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّـهُ ﴾” اور حرام ٹھہرایا اس رزق کو جو اللہ نے ان کو دیا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ان کے لئے رحمت بنایا اور اسے ان کے لئے رزق قرار دیا تھا۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو ٹھکرا دیا، پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اس نعمت کو حرام سے موصوف کیا۔ حالانکہ یہ نعمت ان کے لئے سب سے زیادہ حلال تھی اور یہ سب کچھ ﴿ افْتِرَاءً عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” جھوٹ باندھ کر اللہ پر“ یعنی یہ سب کچھ جھوٹ ہے اور ہر عناد پسند کافر جھوٹ گھڑتا ہے ﴿قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ بے شبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں۔“ یعنی وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے اور وہ اپنے تمام امور میں سے کسی چیز میں بھی راہ راست پر نہیں ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah ney jo khetiyan aur chopaye peda kiye hain , inn logon ney unn mein say Allah ka bus aik hissa muqarrar kiya hai . chunacheh ba-zoam khud yun kehtay hain kay yeh hissa to Allah ka hai , aur yeh humaray unn maboodon ka hai jinn ko hum khudai mein Allah ka shareek mantay hain . phir jo hissa inn kay shareekon ka hota hai , woh to ( kabhi ) Allah kay paas nahi phonchta , aur jo hissa Allah ka hota hai , woh inn kay gharray huye maboodon ko phonch jata hai . aesi buri buri baaten hain jo enhon ney tey ker rakhi hain !
12 Tafsir Ibn Kathir
ہدعت کا آغاز مشرکین کی ایک نو ایجاد (بدعت) جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر یہ اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام کا ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک بنائے ہوئے ہیں، اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا تو وہ تو بتوں کا ہوگیا لیکن اگر بتوں کے لئے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ کے نام والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے تھے۔ کوئی ذبیحہ اپنے معبودوں کے نام کا کریں تو بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ کیسی بری تقسیم کرتے ہیں۔ اولاً تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی کی ملکیت پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون ؟ جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد ؟ پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں سے تو بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بد ترین اصول ہیں۔ ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی کہ اللہ کے لئے لڑکیاں اور اپنے لئے لڑکے تو تمہارے ہوں اور جن لڑکیوں سے تم بیزار وہ اللہ کی ہوں۔ کیسی بری تقسیم ہے۔