التغابن آية ۱۴
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
O you who have believed, indeed, among your spouses and your children are enemies to you, so beware of them. But if you pardon and overlook and forgive – then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو تمہاری کچھ بی بیا ں اور بچے تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر معاف کرو اور درگزرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو بے شک تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں سو ان سے بچتے رہو اور اگرتم معاف کرو اور درگزر کرو ارو بخش دو تو الله بھی بخشنے واا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں (١) پس ان سے ہوشیار رہنا (٢) اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے (٣)۔
١٤۔٢ یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو، بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ ان کے پیچھ لگ کر اپنی عاقبت خراب کر لو۔
١٤۔٣ اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کر لی تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالٰی نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تمہاری عورتیں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور تمہاری بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں بس تم ان سے ڈرتے رہو (ہوشیار رہو) اور اگر معاف کرو، درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو - تمہا---ری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں لہذا ان سے ہوشیار رہو اور اگر انہیں معاف کردو اور ان سے درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ بھی بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے بچتے رہو اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے
شان نزول
یایھا الذین امنوا ان من ازواجکم و اولادکم عدوالکم فاحذروھم ترمذی، حاکم اور ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے یہ آیت مکہ کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لے آئے تھے اور انہوں نے مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بیوی بچے آڑے آئے اور روکنے کی کوشش کی، مگر وہ پھر بھی ہجرت کر کے مدینہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے وہاں جا کر لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے دین میں کافی تفقہ حال کرلیا ہے اس سے ان کو کار خیر میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے رنج ہوا تو انہوں نے اپنے بچوں کو جو کہ اس کار خیر میں حارج ہوئے تھے سزا دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ (روح المعانی)
اور عطاء بن ابی رباح (رض) سے مروی ہے کہ عوف بن مالک اشجعی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ کرنے کا ارادہ کیا، ان کے بیوی بچوں نے مل کر ان کو غزوہ میں جانے سے روک لیا اور جدائی کو اپنے لئے شاق اور ناقابل برداشت بتایا، بعد میں جب عوف بن مالک کو تنبہ اور ندامت ہوئی تو اپنے بچوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا، اس سلسلہ میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (روح المعانی)
و ان تعفوا و تصفحوا و تغفروا فان اللہ غفور رحیم سابقہ آیت میں جن کے بیوی بچوں کو دشمن قرار دیا ہے، ان کو جب اپنی غلطی پر تنبہ ہوا تھا تو ارادہ کیا تھا کہ آئندہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سختی اور تشدد کا معاملہ کریں گے اس پر آیت کے اس حصہ میں یہ ارشاد نازل ہوا کہ اگرچہ ان کے بیوی بچوں نے تمہارے لئے دشمن کا سا کام کیا ہے کہ تمہارے فرض سے مانع ہوئے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تشدد اور بےرحمی کا معاملہ نہ کرو بلکہ عفو و درگزر اور معافی کا برتائو کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عادت بھی مغفرت اور رحمت کی ہے۔ (معارف)
انما اموالکم و اولادکم فتنۃ یعنی تمہارے اموال اور اولاد جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں تمہاری آزمائش ہیں، پس اس آزمائش میں تم اس وقت سرخ رو ہوسکتے ہو جب کہ تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد انسان کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں، یہ دونوں چیزیں جہاں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں وہیں انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں۔
بحمدتم اللہ
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ ان میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ۔دشمن وہ ہوتا ہے جو تمہارے خلاف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارا وظیفہ (ذمے داری) ایسے شخص سے بچنا ہے جس کی یہ صفت ہو۔ بیویوں اور اولاد کی محبت نفس کی جبلت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ا یسی محبت کے بارے میں نصیحت کی ہے جو ان کے لیے بیوی اور اولاد کے ایسے مطالبات کے سامنے جھکنے کاموجب بنتی ہے جس میں کوئی شرعی ممانعت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احکام کی تعمیل اور اس ثواب عظیم کے لیے اس کی رضا کو مقدم رکھنے کی ترغیب دی ہے جو بلند مطالب اور عالی قدر محبت پرمشتمل ہے اور اس امر کی ترغیب دی ہے کہ وہ آخرت کو ختم ہوجانے والی فانی دنیا پر ترجیح دیں۔ چونکہ ایسے امور میں بیویوں اور اولاد کی اطاعت سے روکا گیا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے جن میں بندے کے لیے ضرر ہے، اس سے بیوی اور اولاد کے بارے میں درشتی اور سختی متوہم ہوتی ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے بچنے اور ان کے ساتھ عفو ودرگزر کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے ۔اس میں بہت سے مصالح ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں، چنانچہ فرمایا :﴿وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ”اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔“کیونکہ عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے، لہٰذا جو کوئی معاف کردے ،اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا ہے ،جو کوئی درگزر کرے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر کرتا ہے، جو کوئی ایسے امر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جو اس پسند ہے اس کے بندوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں اور اوہ ان کے لیے فائدہ مند ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی محبت اور اس کے بندوں کی محبت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کے معاملے کی حفاظت کی جاتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! tumhari biwiyon aur tumhari aulad mein say kuch tumharay dushman hain , iss liye unn say hoshiyar raho . aur agar tum moaaf kerdo , aur darguzar kero , aur bakhsh do to Allah boht bakhshney wala , boht meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ کی یاد اور دولت
ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے، جس سے پہلے تنبیہ ہوچکی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کردیں اگر ایسا ہوگیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بعض اہل مکہ اسلام قبول کرچکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہوگیا تب یہ لوگ حاضر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کرلیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ ان تعفوا الخ، یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گذار کون ہیں ؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو جیسے اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) الخ، یعنی بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر، شائستہ گھوڑے، مویشی، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین لانبے لانبے کرتے پہنے آگئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ، رنگ کے تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کرسکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا۔ مسند میں ہے حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے، پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں، بزاز میں ہے اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل ونامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے، طبرانی میں ہے تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کردیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کردیا تو قطعاً جنتی ہوگیا۔ پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو، بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ، بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورة آل عمران کی آیت (ترجمہ) کی ناسخ یہ آیت ہے، یعنی پہلے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چناچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام اپنی طاقت کے مطابق چناچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہوجاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کردی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے، پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے، ومن یوق کی تفسیر سورة حشر کی اس آیت میں گذر چکی ہے۔ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے ؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نادہندہ، پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا، جیسے سورة بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا، ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اللہ بڑا قدر دان ہے، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کرلیتا ہے، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور باحکمت ہے، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گذر چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورة تغابن کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد للہ۔