الملک آية ۱۵
هُوَ الَّذِىْ جَعَلَ لَـكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِىْ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖۗ وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ
طاہر القادری:
وُہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم و مسخر کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو، اور اُس کے (دئیے ہوئے) رِزق میں سے کھاؤ، اور اُسی کی طرف (مرنے کے بعد) اُٹھ کر جانا ہے،
English Sahih:
It is He who made the earth tame for you – so walk among its slopes and eat of His provision – and to Him is the resurrection.
1 Abul A'ala Maududi
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین رام (تابع) کر دی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف اٹھنا ہے
3 Ahmed Ali
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کر دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو پھر اور الله کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس پھر کر جانا ہے
4 Ahsanul Bayan
وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست و مطیع کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) (١) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑے ہونا ہے۔
١٥۔١لطیف کے معنی ہے باریک بین یعنی جس کا علم اتنا ہے کہ دلوں میں پرورش پانے والی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ذلول کے معنی مطیع۔ یعنی زمین کو تمہارے لیے نرم اور آسان کر دیا اس کو اسی طرح سخت نہیں بنایا کہ تمہارا اس پر آباد ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہو۔ یعنی زمین کی پیداوار سے کھاؤ پیو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور خدا کا (دیا ہو) رزق کھاؤ اور تم کو اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے
6 Muhammad Junagarhi
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے رام کر دیا تاکہ تم اس کے کاندھوں (راستوں) پر چلو اور اس (اللہ) کے (دئیے ہو ئے) رزق سے کھاؤ پھر اسی کی طرف(قبروں سے) اٹھ کر جانا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اسی نے تمہارے لئے زمین کو نرم بنادیا ہے کہ اس کے اطراف میں چلو اور رزق خدا تلاش کرو پھر اسی کی طرف قبروں سے اٹھ کر جانا ہے
9 Tafsir Jalalayn
وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور خدا کا (دیا ہوا) رزق کھاؤ اور (تم کو) اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے۔
ترجمہ : وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر نرم، اس پر چلنے کے قابل کر رکھا ہے تاکہ تم اس کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو اور خدا کی روزی میں سے جس کو اس نے تمہارے لئے پیدا کیا، کھائو، اور قبروں میں سے جزاء کے لئے اسی کی طرف اٹھ کھڑا ہونا ہے، کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ؟ (اامنتم) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور دوسرے کی تسہیل کے ساتھ، اور مسہلہ اور غیر مسہلہ کے درمیان الف داخل کر کے اور ترک ادخال کر کے، اور اس کو الف سے بدل کر، کہ آسمان والا یعنی آسمان میں جس کی سلطنت اور قدرت ہے تم کو زمین میں دھنسا دے (ان یخسف) من سے بدل ہے اور اچانک زمین لرزنے لگے، یعنی تم کو لے کر تھرتھرانے لگے اور تمہارے اوپر پلٹ جائے، کیا تم آسمان والے سے بےخوف ہوگئے ؟ اس بات سے کہ وہ ایسی آندھی بھیج دے کہ جو تمہارے اوپر سنگ ریزے برسائے، عنقریب معائنہ عذاب کے وقت، تم کو معلوم ہوجائے گا کہ عذاب سے میرا ڈرانا کیسا رہا ! ! اس سے پہلے جو امتیں گزر چکی ہیں انہوں نے بھی (دین حق کو) جھٹلایا (سو دیکھ لو ! ) موت کے وقت میرا عذاب ان کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسا رہا ! ! یعنی وہ عذاب مقتضٰی کے مطابق رہا، کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر ہوا میں پر پھیلائے اور پروں کو سمیٹے ہوئے پر پھیلانے کے بعد پرندوں پر نظر نہیں کی حالت بسط وقبض میں رحمن ہی (ان کو) اپنی قدرت سے تھامے رہتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے (آیت کا) مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ پرندوں کے ہوا میں ٹھہرے رہنے سے ہماری قدرت پر استدلال نہیں کرتے، کہ ہم ان کے ساتھ ماقبل میں مذکور وغیرہ عذاب کا معاملہ کرسکتے ہیں خدا کے سوا تمہارا وہ کونسا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرسکے ؟ یعنی تم سے اس کے عذاب کو دفع کرسکے (امن) مبتداء ہے (ھذا) اس کی خبر ہے (الذی) ھذا سے بدل ہے (جند) بمعنی اعوان ہے (لکم) الذی کا صلہ ہے اور ینصر کم جند کی صفت ہے، یعنی اس کے سوا تمہارے عذاب کو دفع کرسکے، مطلب یہ ہے کہ تمہارا کوئی مددگار نہیں، یہ کافر محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، شیطان نے یہ کہہ کر ان کو دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ ان پر عذاب ہونے والا نہیں ہے، وہ کون ہے ؟ جو تم کو روزی پہنچا سکے گا اگر رحمن اپنی روزی یعنی بارش کو تم سے روک لے اور جواب شرط محذوف ہے، جس پر اس کا ماقبل دلالت کر رہا ہے، (اور وہ) فمن یرزقکم ہے، یعنی اس کے علاوہ تمہارا کوئی رازق نہیں، بلکہ یہ لوگ سرکشی اور نفرت میں حق سے دوری پر اڑے ہوئے ہیں (اچھا بتائو ! ) وہ شخص جو اوندھا، منہ کے بل چلے منزل مقصود پر پہلے پہنچنے والا ہوگا یا وہ شخص جو سیدھا کھڑے ہو کر ہموار سڑک پر چلے ثانی من کی خبر محذوف ہے جس پر پہلے من کی خبر یعنی اھدی دلالت کر رہی ہے اور (مذکورہ) مثال مومن اور کافر کیے، یعنی ان میں سے کونسا ہدایت پر ہے ؟ آپ ان سے کہئے وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور جس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور بدل بنائے، تم میں بہت کم لوگ ہیں جو شکر گزار ہیں (ما) زائدہ ہے اور جملہ مستانفہ ہے، ان نعمتوں پر ان کی بہت کم شکر کی خبر دے رہا ہے آپ (یہ بھی) کہئے کہ وہی ہے جس نے تم کو روئے زمین پر پھیلایا (پیدا کیا) اور حساب کے لئے، اسی کے پاس جمع کئے جائو گے، اور یہ لوگ مومنین سے کہتے ہیں یہ حشر کا وعدہ کب (پورا ہوگا ؟ ) اگر تم اس وعدہ میں سچے ہو (تو بتلائو ! ) آپ کہئے کہ اس کی آمد کے وقت کا علم تو اللہ ہی کو ہے اور میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں یعنی واضح طور پر ڈرانے والا ہوں، جب یہ لوگ حشر کے بعد عذاب کو قریب تر دیکھیں گے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے یعنی سیاہ ہوجائیں گے اور کہا جائے گا یعنی دوزخ کے نگران ان سے کہیں گے یہی ہے وہ عذاب کہ جس سے ڈرانے کے سبب تم دعویٰ کرتے تھے کہ تم کو مرنے کے بعد نہیں اٹھایا جائے گا، یہ آنے والی حالت کا بیان ہے جس کو متحقق الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی سے تعبیر کردیا گیا ہے، آپ ان سے کہئے کہ اچھا تم بتائو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو جو مومن ہیں اپنے عذاب سے ہلاک کر دے جیسا کہ تم چاہتے ہو یا ہمارے اوپر رحم فرمائے کہ ہم کو عذاب نہ دے، تو کافروں کو عذاب الیم سے کوئی بچائے گا ؟ یعنی ان کو عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں، آپ فرما دیجئے کہ وہی رحمان ہے ہم تو اسی پر ایمان لا چکے ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے، عذاب دیکھنے کے وقت تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا، فستعلمون تاء اور یاء کے ساتھ کہ کھلی گمراہی میں کون ہے ؟ ہم یا تم یا وہ ؟ آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ بتائو اگر تمہارا پانی گہرائی میں اتر جائے یعنی زمین میں نیچے چلا جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے چشمہ کا پانی لائے ؟ جس کو تم ہاتھوں اور ڈولوں سے حاصل کرسکوجیسا کہ تمہارا (موجودہ) پانی، یعنی اللہ کے سوا اس کو کوئی نہیں لاسکتا پھر تم تمہارے زندہ ہو اٹھنے کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ اور مستحب ہے کہ تلاوت کرنے والا (معین) کے بعد کہے اللہ رب العالمین جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، بعض جبارین کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی گئی تو اس نے کہا پھاوڑے اور کدال لے آئیں گے، چناچہ اس کی آنکھ کا پانی خشک ہوگیا اور اندھا ہوگیا، ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اللہ اور اس کی آیتوں پر بےباکی کرنے سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مناکبھا جمع منتہی الجموع ہے، واحد منکب بمعنی جانب، طرف، اسی نسبت سے آدمی کے مونڈھوں کو منکب کہا جاتا ہے۔
قولہ : بتحقیق الھمزتین الخ اس میں کل پانچ قراءتیں ہیں، پہلا ہمزہ محقق ہی ہوتا ہے، دوسرا کبھی محقق اور کبھی مسہل، دونوں صورتوں میں دونوں کے درمیان الف داخل کر کے اور ترک ادخال کر کے، یہ چار صورتیں ہوگئیں، اور ایک صورت دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر کل پانچ صورتیں ہوگئیں۔
قولہ : ان یخسف یہ من سے بدل الاشتمال ہے۔
قولہ : حاصب باد سخت کہ سنگ ریزہ بردارد (صراح) حاصبا، بادسنگبار، سخت آندھی، حصباء کنکریوں کو کہتے ہیں۔
قولہ : انذاری اس میں اشارہ ہے کہ نذیر بمعنی انداز ہے اور یاء محذوف ہے۔
قولہ : اولم یروا وائو عاطفہ ہے اور ہمزہ محذوف پر داخل ہے تقدیر عبارت یہ ہے اغفلو ولم یروا۔
قولہ : صفت و یقبضن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔
سوال : یقبضن کا عطف صافات پر ہے، کیا وجہ ہے کہ معطوف علیہ اسم ہے اور معطوف فعل ؟
جواب : پرندوں میں اصل یہ ہے کہ ان کے پر کھلے ہوئے اور پھیلے ہوئے ہوں اس لئے کہ طائر کو طائر یا پرندہ کو پرندہ اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں صفت طیر اور صفت پرواز اصل ہے اور قبض یعنی پروں کو سکیڑنا یہ طاری (خلاف اصل) ہے لہٰذا اصلی صفت کو اسم سے تعبیر کیا اس لئے کہ اسم استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے، اور قبض (یعنی سکیڑنے) کو فعل سے تعبیر کیا کیونکہ وہ طاری اور حادث ہے اور فعل حدوث پر دلالت کرتا ہے۔
قولہ : قابضات اس میں اشارہ ہے کہ یقبضن، قابضات کی تاویل میں ہے تاکہ عطف درست ہوجائے، دونوں جگہ اجنحتھن ظاہر کر کے اشارہ کردیا کہ دونوں کے دونوں مفعول محذوف ہیں، دوسرے من مبتداء کی خبر پہلے من مبتداء کی خبر پر قیاس کرتے ہوئے حذف کردی گئی ہے ای اھدی اور اھدی اسم تفضیل اسم فاعل کے معنی میں ہے، مفسر علام نے اپنے قول ایتھما علی ھدی سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : مامزیدۃ، قلیلاما میں ما تاکید قلت کے لئے زائدہ ہے اور قلیلا موصوف محذوف کی صفت ہے ای شکرا قلیلا۔
قولہ : ان کنتم صادقین یہ شرط ہے اس کی جزاء محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ان کنتم صادقین فبینوا وقتۃ۔
قولہ : بمجیئہ ای بوقت مجیئہ مضاف محذوف ہے۔
قولہ : زلفۃ یہ ازلاف کا اسم مصدر ہے، بمعنی قریب۔
قولہ : انکم لا تبعثون اس میں اشارہ ہے کہ تدعون کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : وھذہ حکایۃ حال تاتی یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : فرشتے روز قیامت کافروں سے کہیں گے کہ یہ وہی عذاب ہے جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا اور تم اس کی تردید و تکذیب کرتے تھے، یہ سوال و جواب سب زمانہ مستقبل (قیامت) میں ہوں گے اس کا تقاضا تھا کہ قیل کے بجائے یقولون سے تعبیر کرتے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ وقوع یقینی کی وجہ سے حکایت حال آتیہ کو ماضی سے تعبیر کردیا ہے، مذکورہ عبارت سے اسی سوال کا جواب دیا ہے۔
قولہ : ارایتم، ارایتم بمعنی اخبرونی ہے جو دو مفعولوں کو نصب دیتا ہے، ان اھلکنی اللہ الخ جملہ شرطیہ قائم مقام دو مفعولوں کے ہے۔
قولہ : لا مجیرلھم اس میں اشارہ ہے کہ فمن یجیر کم میں استفہام انکاری ہے۔
قولہ : ام انتم کا تعلق فستعلمون میں تاء کی قرأت کی صورت میں ہے اور ام ھم کا تعلق فسیعلمون یاء کی قرأت کی صورت میں ہے۔
قولہ : معین یہ اصل میں معیون بروزن مفعول ہے جیسا کہ مبیع اصل میں مبیوع تھا یاء کا ضمہ ماقبل عین کو دیدیا اور وائو میں التقاء ساکنین ہوا وائو حذف ہوگیا عین کو ی کی مناسبت سے کسرہ دیدیا گیا۔
قولہ : وعمی یہ ذھب ماء عینہ کا عطف تفسیری ہے۔
تفسیر و تشریح
ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا (الآیۃ) ذلول کے معنی مطیع و منقاد کے ہیں، اس جانور کو ذلول کہا جاتا ہے جو سواری دینے میں سرتابی اور شوخی نہ کرے، زمین کو مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا قوام اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا کہ نہ تو پانی کی طرح سیال و رقیق اور نہ روئی اور کیچڑ کی طرح دبنے والا، کیونکہ اگر زمین ایسی ہوتی تو اس پر چلنا اور ٹھہرنا مشکل ہوجاتا، اسی طرح زمین کو لوہے اور پتھر کی طرح سخت بھی نہیں بنایا اگر ایسا ہوتا تو اس میں نہ کھیتی کی کاشت کی جاتی اور نہ درخت لگائے جاتے اور نہ اس میں کنویں اور نہریں کھودی جاسکتیں۔
زمین کا اپنی بےحدو حساب مختلف النوع آبادی کے لئے جائے قرار ہونا بھی کوئی معمولی یا سرسری بات نہیں ہے، اس کرہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، ان کی تفصیلات پر انسان غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادر مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی تھیں۔
یہ کرہ ارض فضائے بسیط میں معلق ہے کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے باوجود یکہ زمین مغرب سے مشرق کی جانب ٥١٠٣٥ /٦ میل برابر تقریباً ١٥٥ کلو میٹر فی گھنٹہ محوری حرکت کرتی ہے (فلکیات جدیدہ) اس میں کوئی اضطراب و اہتزاز نہیں ہے اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز (جھٹکا) ہوتا جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آنے سے بآسانی لگا سکتے ہیں تو کرہ ارض پر کوئی آبادی ممکن نا ہوتی یہ کرہ ارضی باقاعدگی سے سورج کے سامنے آتا اور جاتا ہے جس سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں، اگر اس کا ایک ہی رخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا رخ ہمیشہ پوشیدہ رہتا تو یہاں کسی ذی حیات کا وجود ممکن نہ ہوتا، کیونکہ پوشیدہ رخ کی سردی اور بےنوری، نباتات اور حیوانات کو پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رخ کی گرمی کی شدت روئے زمین کو بےآب وگیاہ اور غیر آباد بنا دیتی، اس کرہ ارضی پر پانچ سو میل تقریباً ٧٥٠ کیلو میٹر بلندی تک ہوا کا ایک کثیف غلاف چڑھا ہوا ہے جو شہابوں کی خوفناک بمباری سے اسے بچائے ہوئے ہے ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب جو ہوا میں فی سیکنڈ ٣٠ میل برابر کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں کرہ ارض پر وہ تباہی مچاتے کہ کسی بھی ذی حیات اور نباتات کی بقا ممکن نہ ہوتی۔
وکلوا من رزقہ والیہ النشور پہلے زمین میں چلنے پھرنے کی ہدایت فرمائی تھی، اس میں اشارہ ہوسکتا ہے کہ تجارت کے لئے سفر اور مال کی درآمد برآمد اللہ کے رزق کا دروازہ ہے الیہ النشور میں بتلا دیا کہ کھانے پینے رہنے سہنے کے فوائد زمین سے حاصل کرنے کی اجازت ہے مگر موت اور آخرت سے بےفکر ہو کر نہیں، انجام کار اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، زمین پر رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں لگے رہو۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی وہی ہے جس نے زمین کو مسخر کردیا اور اسے تمہارا مطیع کردیا تاکہ تم اس میں سے ہر وہ چیز حاصل کرسکو جس سے تمہاری حاجات متعلق ہیں،مثلا: باغات لگانا، عمارتیں تعمیر کرنا، کھیتیاں اگانا اور ایسی شاہراہیں بنانا جو تمہیں دور دراز ملکوں اور شہروں تک پہنچاتی ہیں ﴿ فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا﴾ ”پس تم اس کی راہوں میں چلو پھرو “یعنی طلب رزق ومکاسب کے لیے ﴿ وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴾ ”اور اللہ کے رزق سے کھاؤ اور اسی کی طرف جی اٹھنے کے بعد جانا ہے۔“ یعنی اس گھر سے منتقل ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے امتحان گاہ اور ایسا وسیلہ بنایا ہے جس کے ذریعے سے آخرت کے گھر تک پہنچا جاتا ہے، تمہارے مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا تاکہ وہ تمہیں تمہارے اچھے اور برے اعمال کی جزا وسزا دے۔
11 Mufti Taqi Usmani
wohi hai jiss ney tumharay liye zameen ko raam kerdiya hai , lehaza tum uss kay moondhon per chalo phiro , aur uss ka rizq khao , aur ussi kay paas dobara zinda ho ker jana hai .