القلم آية ۳۵
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَۗ
طاہر القادری:
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح (محروم) کر دیں گے،
English Sahih:
Then will We treat the Muslims like the criminals?
1 Abul A'ala Maududi
کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کا سا کردیں
3 Ahmed Ali
پس کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے
4 Ahsanul Bayan
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے (١)
٣٥۔١ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کر دیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالٰی عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرف (نعمتوں سے) محروم کردیں گے؟
6 Muhammad Junagarhi
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مانند کر دیں گے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ہم اطاعت گزار وں کو مجرموں جیسا بنا دیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرح (نعمتوں سے محروم) کردیں گے ؟
ترجمہ : (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین نے کہا، اگر ہم کو دوبارہ زندہ کیا گیا تو تم سے بہتر ہم کو عطا کیا جائے گا، پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں، کیا ہم مسلمین اور مجرمین کو برابر کردیں گے ؟ یعنی گنہگاروں کو مسلمانوں کے برابر کردیں گے ؟ تمہیں کیا ہوگیا ؟ تم یہ فاسد فیصلے کیسے کر رہے ہو ؟ بلکہ کیا تمہارے پاس نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو کہ اس میں تمہارے لئے وہ چیزیں (لکھی) ہوں جن کو تم پسند کرتے ہو یا تمہارے لئے ہم پر کچھ پختہ قسمیں ہیں ؟ (الی یوم القیامہ) معنی کے اعتبار سے علینا سے متعلق ہے اور اس کلام میں قسم کے معنی ہیں، یعنی اقسمنا لکم اور جواب قسم (ان لکم لما تحکمون) ہے کہ تمہارے لئے وہ سب کچھ ہے جسے تم اپنی طرف سے اپنے لئے مقرر کرلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے دریافت فرمائیں کہ اس حکم کا کہ جس کا تم اپنے لئے فیصلہ کر رہے ہو وہ یہ کہ تم کو آخرت میں مسلمانوں سے بہتر عطا کیا جائے گا، کوئی ذمہ دار ہے ؟ کیا ان کے پاس شرکاء ہیں ؟ جو اس بات میں ان کے موافق اور اس سلسلے میں ان کے لئے کفیل ہیں، اگر ایسا ہے تو اپنے کفالت کرنے والے شرکاء کو لے آئیں، اگر وہ سچے ہیں، اس دن کو یاد کرو جس دن ساق کی تجلی ظاہر ہوجائے گی، یہ عبارت ہے قیامت کے دن حساب اور جزاء کی شدت سے، جب شدت کا رن پڑجائے تو بولا جاتا ہے، کشفت الساق عن الحرب، حرب نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، اور ان کو ان کے ایمان کی آزمائش کے لئے سجدہ کے لئے بلایا جائے گا، تو وہ سجدہ نہ کرسکیں گے ان کی کمریں ایک تختہ ہوجائیں گی حال یہ ہے کہ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی خاشعۃ، یدعون کی ضمیر سے حال ہے، حال یہ کہ ذلیل ہوں گی، نظروں کو اوپر نہ اٹھائیں گے ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، یہ سجدہ کے لئے دنیا میں بلائے جاتے تھے حال یہ کہ وہ صحیح سالم تھے تو یہ سجدہ نہ کرسکیں گے، اس لئے کہ انہوں نے (دنیا) میں نماز نہیں پڑھی تھی مجھ کو اور اس شخص کو جو جھٹلا رہا ہے اسی حال میں رہنے دے، ہم ان کو بتدریج اس طرح کھینچیں گے کہ ان کو معلوم بھی نہ ہوگا یعنی ہم ان کو آہستہ آہستہ گرفت میں لیں گے، اور میں ان کو ڈھیل دوں گا، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط شدید ہے کوئی اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے تبلیغ رسالت پر کچھ اجرت طلب کرتے ہیں کہ یہ اس کے بوجھ سے کہ جو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتے ہیں دبے جا رہے ہیں ؟ جس کی وجہ سے یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ؟ یا ان کے پاس علم غیب ہے یعنی لوح محفوظ ہے کہ جس میں غیب (کی باتیں) ہیں کہ جو کہتے ہیں اس سے لکھ لیتے ہیں پس تو ان کے بارے میں جو وہ چاہتا ہے اپنے رب کے حکم کا صبر سے انتظار کر اور تنگ دلی اور عجلت میں مچھلی والے کے مانند نہ ہوجا، اور وہ یونس (علیہ السلام) ہیں، اس نے اپنے رب سے غم کی حالت میں دعاء کی (یعنی) مغموم ہو کر مچھلی کے پیٹ میں دعاء کی، اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پا لیتی تو مچھلی کے پیٹ سے بری حالت میں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا، لیکن اس پر رحم فرمایا گیا، اور اس کی بری حالت میں نہیں ڈالا گیا، پھر اس کے رب نے اس کو نبوت سے نوازا تو اس کو صالحین انبیاء میں شامل کردیا اور قریب ہے کہ کافر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیز نگاہوں سے پھسلا دیں، یاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، یعنی وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمین پر پچھاڑ دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی جگہ سے گرا دیں گے جب وہ قرآن سنتے ہیں اور حسد کی وجہ سے کہہ دیتے ہیں یہ تو اس قرآن کی وجہ سے جس کو یہ لایا ہے دیوانہ ہوگیا ہے، درحقیقت یہ قرآن جہان والوں کے لئے یعنی جن و انس کے لئے نصیحت ہے اس کی وجہ سے جنون پیدا نہیں ہوسکتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای تابعین مناسب تھا کہ مفسر علام تابعین کے بجائے مساوین لھم فی الطعام فرماتے۔
قولہ : مالکم یہ مبتداء خبر سے ملکر جملہ ہے اس لئے اس پر وقف کیا جاتا ہے ای ای شی یحصل لکم من ھذہ الاحکام البعیدۃ عن الصواب۔
قولہ : کیف تحکمون یہ دوسرا جملہ ہے۔
قولہ : ان لکم لما تخیرون، ان لکم دراصل ان لکم فتحہ کے ساتھ تھا اس لئے کہ یہ تدرسون کا مفعول ہے لیکن خبر میں لما تخیرون میں لام سے تاکید لایا گیا تو ان کو کسرہ دے دیا گیا، جیسا کہ علمت انک لعاقل میں اور طلحہ بن مصرف اور ضحاک نے ان ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، لام کو زائد برائے تاکید قرار دیکر۔
قولہ : متعلق معنی بعلینا، ای متصل بہ، یعنی الی یوم القیامۃ، علینا کے متصل ہے یہاں متعلق سے مراد نحوی تعلق نہیں ہے کہ وہ تعلق فعل یا اس کے ساتھ خاص ہو جو فعل کے معنی میں ہو ام لکم ایمان علینا الخ قسم کے معنی میں ہے اور ان لکم لما تحکمون جواب قسم ہے۔
قولہ : ان کانوا صادقین اس کی جزاء ما قبل کی دلالت کی وجہ سے محذوف ہے۔
قولہ : من حیث لا یعلمون، لا یعلمون کا مفعول محذوف ہے ای لا یعلمون انہ استدراج۔
قولہ : واملی لھم یہ عطف تفسیری ہے اس کا عطف سنستدرجھم پر ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
صنادید قریش نے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنا کہ مسلمانوں کو آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ملیں گی، تو کہنے لگے کہ اگر بالفرض قیامت قائم ہوگئی تو ہم وہاں بھی مسلمانوں سے بہتر ہی ہوں گے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے بہتر اور آسودہ حال ہیں، یا کم از کم مساوی ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ” افنجعل المسلمین کالمجرمین ؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم مسلمانوں یعنی اپنے فرمانبرداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کردیں ؟ مطلب یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کر دے، افنجعل میں ہمزہ استفہام انکاری ہے اور فاعاطفہ ہے معطوف محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی انحیف فی الحکم فنجعل المسلمین کالمجرمین الخ یعنی یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں تمیز نہ کرے، آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے آئی کہ کائنات کا خالق کوئی اندھا راجا ہے ؟ جس کے یہاں چوپٹ نگری کا راج ہے کہ جہاں ” سب دھان ستائیس سیر “ اور ” ٹکا سیر بھاجی “ اور ” نکا سیر کھاجا “ کا قانون جاری ہے، جو یہ نہ دیکھے گا کہ کن لوگوں نے دنیا میں اس کے احکام کی اطاعت کی اور برے کاموں سے پرہیز کیا اور کون لوگ تھے جنہوں نے بےخوف ہو کر ہر طرح کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کا ارتکاب کیا ؟ اگر ایسا ہو تو اس سے بڑا ظلم اور ناانصافی کیا ہوسکتی ہے، قیامت کا آنا اور حساب و کتاب کا ہونا اور نیک و بد کی سزا یہ سب تو عقلا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس کا دنیا میں ہر شخص مشاہدہ کرتا ہے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں جو عموماً فساق، فجار، بدکار، ظالم، چور اور ڈاکو ہیں نفع میں رہتے ہیں، بسا اوقات ایک چور اور ڈاکو ایک رات میں اتنا مال جمع کرلیتا ہے کہ شریف آدمی عمر بھر میں بھی حاصل نہیں کرسکتا، اس کے علاوہ نہ خوف کو جانتا ہے اور نہ آخرت کو اور نہ کسی شرم و حیا کا پابند ہوتا ہے، اپنی خواہشات کو جس طرح چاہتا ہے پورا کرتا ہے، نیک اور شریف آدمی اول تو خدا سے ڈرتا ہے آخرت کی جواب دہی کا خوف دامن گیر رہتا ہے، اس کے علاوہ شرم و حیا کا بھی پاس ولحاظ کرتا ہے، خلاصہ یہ کہ دنیا کے کارخانہ میں بدکار و بدمعاش کامیاب اور شریف آدمی ناکام نظر آتا ہے، اب اگر آگے بھی کوئی ایسا وقت نہ آئے جس میں حق و ناحق کا صحیح فیصلہ ہو اور بدکار کو سزا و نیکو کار کو جزا ملے تو پھر تو کسی برائی کو برائی اور گناہ کو گناہ کہنا لغو لاحاصل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک انسان کو بلاوجہ اس کی خواہشات سے روکتا ہے اور دوسرا شتر بےمہار ہو کر اپنی خواہشات کے پیچھے بےروک ٹوک سرپٹ دوڑ رہا ہے، انجام کار نتیجے میں دونوں برابر ہوں یہ تو عقل و انصاف کے بالکل خلاف ہے، قرآن کریم کے اس لفظ ” افنجعل المسلمین کالمجرمین “ نے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ عقلاً یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت ضرور آئے کہ جس میں سب کا حساب ہو اور مجرموں کے لئے دنیا کی طرح کوئی چور دروازہ نہ ہو، جہاں انصاف ہی انصاف ہو، اگر یہ نہیں ہے تو دنیا میں کوئی برا کام برا نہیں اور کوئی جرم جرم نہیں اور پھر خدائی عدل و انصاف کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya hum farmanbardaaron ko mujrimon kay barabar kerden gay-?