اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلّف نہیں کرتے، یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
English Sahih:
But those who believed and did righteous deeds – We charge no soul except [within] its capacity. Those are the companions of Paradise; they will abide therein eternally.
1 Abul A'ala Maududi
بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جو ایمان لائے اور طاقت بھر اچھے کام کیے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے، وہ جنت والے ہیں، انہیں اس میں ہمیشہ رہنا،
3 Ahmed Ali
اور جو ایمان لانے اور نیکیاں کیں ہم کسی پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت کےموافق وہی بہشتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ہم کسی شخص کو اس کی قدرت سے زیادہ کسی کا مکلف نہیں بناتے (١) وہی لوگ جنت والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
٤٢۔١ یہ جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ایمان اور عمل صالح، یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوں اور انسان ان پر عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں، بلکہ ہر انسان ان کو باآسانی اپنا سکتا ہے اور ان کے عمل کو بروئے کار لا سکتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ہم (عملوں کے لیے) کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ایسے ہی لوگ اہل بہشت ہیں (کہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کئے ہم کسی شخص کو اس کی قدرت سے زیاده کسی کا مکلف نہیں بناتے وہی لوگ جنت والے ہیں اور وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے یہی لوگ جنتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا اور نیک اعمال کئے ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے وہی لوگ جنّتی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ ایمان لائیں اور عمل نیک کرتے رہیں اور ہم عملوں کیلئے کسی آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ایسے ہی لوگ اہل بہشت ہیں کہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نافرمان ظالموں کو دیئے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا، تب اس نے اہل اطاعت بندوں کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی جو دل سے ایمان لائے ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾” اور عمل نیک کرتے رہے۔“ یعنی اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے۔ پس اس طرح وہ ایمان و عمل، اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو جمع کرتے ہیں اور بیک وقت فعل واجب اور ترک محرمات پر عمل کرتے ہیں۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ایک عام لفظ ہے جو واجب اور مستحب تمام نیکیوں کو شامل ہے، اور بسا اوقات بعض نیکیاں بندے کی مقدرت سے باہر ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ” ہم ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف کرتے ہیں“ اور اس کی مقدرت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ لہٰذا اس حال میں اس پر فرض ہے کہ وہ استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرے اگر بعض فرائض و واجبات کی تعمیل سے عاجز ہو اور ان کو بجا لانے پر قادر نہ ہو تو یہ فرائض اس پر سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ:2؍286)” اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا“ یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص پر صرف وہی چیز فرض کرتا ہے جسے سر انجام دینے کی وہ طاقت رکھتا ہے۔ فرمایا : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَ ﴾(الطلاق :65؍7) ” اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اسی کے مطابق جو اس کو عطا کیا ہے“ فرمایا : ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج :22؍78) ” اور (اللہ تعالیٰ نے) تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” پس جہاں تک طاقت ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔“ پس معلوم ہوا کہ عاجز ہونے کی صورت میں واجب کی ادائیگی لازم نہیں اور نہ اضطراری صورتحال میں محرمات سے اجتناب واجب رہتا ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾” ایسے ہی لوگ“ یعنی ایمان اور عمل صالح سے متصف لوگ ﴿ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” اہل بہشت ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی انہیں جنت سے نکالا نہیں جائے گا اور نہ وہ خود جنت کے بدلے کوئی اور چیز چاہیں گے، کیونکہ انہیں جنت میں انواع و اقسام کی لذتیں حاصل ہوں گی، تمام خواہشات پوری ہوں گی، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور اس سے بلند تر کسی مقام کی طلب نہ ہوگی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo log emaan laye hain aur unhon ney naik amal kiye hain ( yaad rahey kay ) hum kissi bhi shaks ko uss ki taqat say ziyada ki takleef nahi detay to aesay log jannat kay baasi hain . woh hamesha uss mein rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل انسانی بس میں ہے ! اوپر گنہگاروں کا ذکر ہوا یہاں اب نیک بختوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ جن کے دل میں ایمان ہے اور جو اپنے جسم سے قرآن و حدیث کے مطابق کام کرتے ہیں بخلاف بدکاروں کے کہ وہ دل میں کفر رکھتے ہیں اور عمل سے دور بھاگتے ہیں۔ پھر فرمان ہے کہ ایمان اور نیکیاں انسان کے بس میں ہیں اللہ کے احکام انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں۔ ایسے لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے۔ ان کے دلوں میں سے آپس کی کدورتیں حد بغض دور کردیئے جائیں گے۔ چناچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ مومن آگ سے چھٹکارا حاصل کر کے جنت و دوزخ کے درمیان ایک ہی پل پر روک دیئے جائیں گے وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہوجائے گا اور پاک ہو کر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے۔ واللہ وہ لوگ اپنے اپنے درجوں کو اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ سدی (رح) سے مروی ہے کہ اہل جنت دروازہ جنت پر ایک درخت دیکھیں گے جس کی جڑوں کے پاس سے دو نہریں بہ رہی ہوں گی یہ ان میں سے ایک کا پانی پئیں گے جس سے دلوں کی کدورتیں دھل جائیں گی یہ شراب طہور ہے پھر دوسری نہر میں غسل کریں گے جس سے چہروں پر تروتازگی آجائے گی پھر نہ تو بال بکھریں نہ سرمہ لگانے اور سنگھار کرنے کی ضرورت پڑے۔ حضرت علی بن ابو طالب (رض) سے بھی اسی جیسا قول مروی ہے جو آیت (وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ 73) 39 ۔ الزمر) کی تفسیر میں آئے گا ان شاء اللہ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انشاء اللہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ صاف کر دے گا۔ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر جنتی کو اپنا جہنم کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ وہ اور بھی شکر کرے اور وہ کہے گا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت عنایت فرمائی اور ہر جہنمی کو اس کا جنت کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ اس کی حسرت بڑھے اس وقت وہ کہے گا کاش کہ میں بھی راہ یافتہ ہوتا۔ پھر جنتیوں کو جنت کی جگہیں دے دی جائیں گی اور ایک منادی ندا کرے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم بہ سبب اپنی نیکیوں کے وارث بنا دیئے گئے یعنی تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں رحمت رب ملی اور رحمت رب سے تم داخل جنت ہوئے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا یاد رکھو ! تم میں سے کوئی بھی صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جاسکتا لوگوں نے پوچھا آپ بھی نہیں ؟ فرمایا ہاں میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل میں ڈھانپ لے۔