المدثر آية ۱
يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ
طاہر القادری:
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)،
English Sahih:
O you who covers himself [with a garment],
1 Abul A'ala Maududi
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے
2 Ahmed Raza Khan
اے بالا پوش اوڑھنے والے!
3 Ahmed Ali
اے کپڑے میں لپٹنے والے
4 Ahsanul Bayan
اے کپڑا اوڑھنے والے (١)
١۔١ سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ (اِ قْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری) اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
6 Muhammad Junagarhi
اے کپڑا اوڑھنے والے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے چادر اوڑھنے والے (رسول(ص))۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے میرے کپڑا اوڑھنے والے
9 Tafsir Jalalayn
اے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، اے کپڑا اوڑھنے والے ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مدثر) کی اصل متدثر تھی، تاء کو دال میں ادغام کردیا گیا، یعنی نزول وحی کے وقت اپنے اوپر کپڑا لپیٹنے والے ! کھڑا ہوجا اور اہل مکہ کو آگ سے ڈرا اگر ایمان نہ لائیں، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر، مشرکین کے شرک کرنے سے بڑائی بیان کر، اور اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک رکھا کر یا ان کو اونچا رکھ، متکبرین عرب کے کپڑوں کو (زمین) پر گھسیٹنے کے برخلاف، اس لئے کہ بسا اوقات کپڑوں کو نجاست لگ جاتی ہے، اور بتوں کو چھوڑ دے، رجز کی تفسیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتوں سے فرمائی ہے، یعنی ترک بتاں پر قائم رہ، اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر رفع کے ساتھ حال ہے زیادہ طلب کرنے کے لئے کوئی چیز نہ دے (یہ حکم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجمل آداب اور اشرف اخلاق کے مامور ہیں، اور اپنے رب کے لئے اوامرونواہی پر صبر کر پس جب صور میں پھونک ماری جائے گی (اور) وہ سینگ ہے، یہ نفخہ ٔ ثانیہ ہوگا، تو وہ پھونکنے کا دن بڑا سخت دن ہوگا یومئذ اپنے ما قبل (ذلک) مبتداء سے بدل ہے اور غیر متمکن کی طرف اس کی اضافت کی وجہ سے مبنی ہے، مبتداء کی خبر یوم عسیر ہے اور اذا میں عامل وہ ہے جس پر جملہ (جزائیہ) دلالت کر رہا ہے، اور (مدلول) اشتد الامر ہے جو کافروں پر آسان نہ ہوگا اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ وہ مومن کے لئے آسان ہے یعنی وہ دن اپنی عسرت کے باوجود مومنین کے لئے عسیر نہ ہوگا، مجھے اور اسے جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے چھوڑ دے (ومن خلقت) کا عطف ذرنی کے مفعول پر ہے یا مفعول معہٗ ہے، (وحیدا) من سے یا من کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف سے حال ہے (ای خلقتہٗ ) وحیدا معنی میں منفرداً کے ہے یعنی بلا اہل اور بلامال کے پیدا کیا، اور وہ ولید بن مغیرہ مخزومی ہے، اور اسے میں نے بہت سا مال دے رکھا ہے جو کہ کھیتی اور جانور اور مال تجارت پر مشتمل ہے اور حاضر باش دس یا اس سے زیادہ فرزند بھی دیئے جو محفلوں میں حاضر رہتے ہیں اور ان کی شہادت سنی جاتی ہے اور میں نے اس عیش میں اور عمر میں اور اولاد میں بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں، ہرگز نہیں ! میں اس سے زیادہ نہیں دوں گا وہ ہماری آیتوں قرآن کا دشمن ہے میں اسے عنقریب عذاب کی ایک بڑی مشقت میں ڈالوں گا یا آگ کے پہاڑ پر چڑھا ئوں گا جس پر وہ ہمیشہ ہمیش چڑھتا اترتا رہے گا، اس کو غور و فکر کرنے کے بعد تجویز سوجھی اس کے لئے ہلاکت ہو ملعون اور معذب ہو، کیسی تجویز سوجھی ؟ ! ! یعنی کس طرح کی تجویز سوجھی، وہ پھر غارت ہو کیسی تجویز سوجھی ؟ ! ! پھر اس نے اپنی قوم کی طرف دیکھا یا سوچا کہ کس طریقہ سے اس میں عیب نکالے ؟ پھر اس نے منہ بنایا اور بات کہنے کے لئے منہ سکیڑا، (پھر) اور زیادہ منہ بنایا اور بگاڑا، پھر وہ ایمان سے پیچھے ہٹ گیا، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع سے تکبر کیا پھر اس نے بات کہی تو اس نے کہا یہ تو پہلے سے چلا آتا جادو ہے اور یہ تو محض انسانی کلام ہے جیسا کہ انہوں نے کہا کہ اس کو کوئی بشر سکھاتا ہے میں اس کو عنقریب جہنم میں داخل کروں گا اور تجھے کیا خبر کہ جہنم کیا چیز ہے ؟ ابہام جہنم کی تعظیم شان کے لئے ہے، گوشت اور رگ پٹھوں سے نہ کچھ باقی رہنے دیتی ہے اور نہ چھوڑتی ہے مگر یہ کہ اس کو سوختہ کردیتی ہے پھر وہ سابقہ حالت پر ہوجاتا ہے اور وہ کھال کو جھلسا دیتی ہے یعنی ظاہر جلد کو جلا کر رکھ دیتی ہے اور اس پر انیس نگران فرشتے مقرر ہیں بعض کفار نے جو کہ طاقتور اور سخت گرفت والا تھا کہا سترہ کے لئے میں (اکیلا) کافی ہوں گا، اور دو سے تم میری مدد کرنا، اور ہم نے دوزخ کے نگران صرف فرشتے رکھے ہیں یعنی یہ ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے جیسا کہ ان کا خیال ہے اور ہم نے فرشتوں کی مذکورہ تعداد کافروں کی آزمائش کے لئے رکھی ہے، بایں طور کہ انہوں نے کہا کہ فرشتے انیس ہی کیوں ہیں ؟ تاکہ اہل کتاب پر جو کہ یہود ہیں فرشتوں کی تعداد کے انیس ہونے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ظاہر ہوجائے اس لئے یہ تعداد اس تعداد کے مطابق ہے کہ جو ان کی کتاب میں ہے اور تاکہ اہل کتاب میں سے مومنین کا ایمان اس تعداد سے کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی اس تعداد کے مطابق ہونے کی وجہ سے جو ان کی کتاب میں ہے اور زیادہ ہوجائے، اور مومنین اور اہل کتاب وغیرہ شک نہ کریں، اور مدینہ کے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض شک ہے اور مکہ کے کافر کہیں کہ اس تعداد کے بیان کرنے میں اللہ کا کیا مقصد ہے ؟ (اس بیان تعداد کو) اس کی غرابت کی وجہ سے اس کا نام مثل رکھا ہے اور مثلاً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس طرح یعنی اس عدد کے منکر اور اس کی تصدیق کرنے والے کے مثل، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تیرے رب کے فرشتوں کے لشکر کی تعداد کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ان کی قوت میں اور تعداد میں اور یہ دوزخ تو بنی آدم کے لئے سراسر نصیحت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یایھا المدثر، المدثر، لابس الدثار، ھو ما فوق الشعار، شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو بدن سے متصل ہو جیسا کہ بنیان وغیرہ اور دثار وہ کپڑا جو شعار کے اوپر پہنا جائے مثلاً چادر، چوغہ، شیروانی، کوٹ وغیرہ۔
قولہ : قم، قم کے معنی خواب گاہ وغیرہ سے اٹھنے کے بھی ہیں اور کسی کام کو شروع کرنے کے بھی ہیں یقال قمت بکذا میں نے فلاں کام شروع کردیا۔
قولہ : والرجز، راء کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ زاء، سین سے بدلی ہوئی ہے، اصل میں رجس ہے بمعنی ناپاکی، گندگی، بت، گناہ وغیرہ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” فاجتنبوا الرجس من الاوثان۔
قولہ : بدل مما قبلہ یعنی یومئذ، ذلک اسم اشارہ سے بدل ہے۔
قولہ : المبتداء یہ مما قبلہٗ میں ما کا بیان ہے یعنی یومئذ، ذلک سے بدل ہے جو کہ مبتداء ہے۔
قولہ : بنی لا ضافتہ الی غیر متمکن یعنی یوم مبنی ہے غیر متمکن یعنی اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے، یومئذ کی تنوین جملہ محذوف کے عوض میں ہے ای یوم اذنقر فی الناقور۔
قولہ : والعامل فی اذا مادلت علیہ الجملۃ، یعنی اذا نقر فی الناقور میں اذا کا عامل وہ فعل محذوف ہے جس پر جملہ جزائیہ یعنی فذالک یوم عسیر دلالت کر رہا ہے اور وہ عامل اشتد الامر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اشتدالامر اذا نقر فی الناقور۔
قولہ : عطف علی المفعول یعنی ذرنی کی یاء پر، یا پھر مفعول معہٗ ہے یعنی ومن خلقت میں وائو بمعنی مع ہے۔
قولہ : او من ضمیرہ المحذوف یعنی وحیدا یا تو من سے حال ہے یا خلقت کی ضمیر محذوف سے حال ہے اس لئے کہ اصل میں خلقتہٗ ہے۔
قولہ : لا تبقی ولا تذر دونوں جملوں کا مفہوم ایک ہی ہے یہ عطف تاکید کے لئے ہے۔
قولہ : من غیرھم اس کے اضافہ کا مقصد، اعتراض تکرار کو دفع کرتا ہے۔
اعتراض : ویزداد الذین امنوا میں اہل کتاب میں سے مومنین مراد ہے اور ولا یرتاب الذین اوتو الکتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو ایمان نہیں لائے اور والمومنون سے پھر وہ اہل کتاب مراد ہیں جن کا بیان شروع میں ہوا لہٰذا یہ تکرار ہے، من غیرھم کہہ کر اس اعتراض کو دفع کردیا، دفع کا خلاصہ یہ ہے کہ اول سے مومنین اہل کتاب مراد ہیں اور ثانی المومنون سے غیر اہل کتاب مراد ہیں۔
قولہ : بالمدینۃ، ای کائنا بالمدینۃ یہ حال ہے، مدینہ کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ نفاق مدینہ میں ہی تھا، مکہ میں نفاق نہیں تھا۔
قولہ : وھدی، ھا کا فتحہ اور دال کا سکون نیز ھا کا ضمہ اور دال کا فتح دونوں جائز ہیں۔ (صاوی)
تفسیر و تشریح
شان نزول :
یایھا المدثر (الآیۃ) سورة مدثر قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے ہے جو نزول قرآن کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہیں، اسی لئے بعض حضرات نے اس سورت کو سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت بھی کہا ہے مگر روایات صحیحہ معروفہ کی رو سے سورة اقرأ کی مالم یعلم تک، ابتدائی آیات کا سب سے پہلے نزول ہوا ہے، فترت وحی کے تین سالہ زمانہ کے بعد سب سے پہلے نازل ہونے والی سورة المدثر کی فاھجر تک، کی آیات ہیں، فترت وحی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ کبیدہ خاطر رہتے تھے، بعض اوقات یہ کبیدگی اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جی چاہتا تھا کہ کسی پہاڑ کی چوٹی سے گر کر اپنی جان قربان کردیں مگر جبرئیل امین ظاہر ہوتے اور فرماتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکون ہوتا اور اضطرابی کیفیت دور ہوجاتی۔ (ابن جریر)
اسی زمانہ ٔ فترت کے آخر میں امام زہری کی روایت کے مطابق یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آواز سنی تو ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا جب آسمان کی طرف دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار حرا میں سورة اقرأ کی آیات لے کر آیا تھا وہی آسمان کے نیچے فضاء میں ایک معلق کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، اس کو اس حال میں دیکھ کر وہی رعب وہیبت کی کیفیت طاری ہوگئی جو غار حراء میں سورة اقرأ کی آیات نازل ہونے کے وقت ہوئی تھی، سخت سردی اور کپکپی کے احساس سے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر واپس تشریف لے آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زملونی، زملونی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑا اوڑھ، لپیٹ کرلیٹ گئے، اور بعض روایات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دثرونی، دثرونی مجھے کپڑا اوڑھائو، دونوں کلموں کے تقریباً ایک ہی معنی ہیں، اسی حالت میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور فرمایا :
” یایھا المدثر “ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگاتار وحی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا تو اس سورت کی ابتدائی سات آیتیں نازل ہوئیں، یایھا المدثر اور یایھا المزمل یہ طرز خطاب، عام خطاب یا ایھا النبی، یایھا الرسول کے خطاب سے مختلف ہے اس خطاب میں شفقت، محبوبیت اور قربت نمایاں ہے اس طرز خطاب سے اللہ کا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس خوف کو دور کرنا تھا جو جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھ کر طبعی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طاری ہوگیا تھا، فرمایا آپ اوڑھ لپیٹ کرلیٹ کہاں گئے، اٹھئے ! اب لیٹنے کا وقت ختم ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو ایک کار عظیم کا بوجھ ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہے۔
سورة مدثر اور سورة مزمل میں سے کونسی سورت پہلے نازل ہوئی اس میں روایات بہت مختلف ہیں، لیکن اتنی بات طے شدہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں نزول قرآن کے ابتدائی دور کی ہیں اور ان دونوں کے نزول کا زمانہ بھی بہت قریب قریب ہے اور دونوں کا نزول ایک ہی واقعہ میں ہوا ہے، (معارف) مگر فرق دونوں میں یہ ہے کہ سورة مزمل کے شروع میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اپنی ذاتی شخصیت کی اصلاح سے متعلق ہیں اور سورة مدثر کے شروع میں جو احکام دیئے گئے ہیں ان کا تعلق زیادہ تر دعوت و تبلیغ اور اصلاح خلق سے ہے۔
سورة مدثر میں سب سے پہلا حکم جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے، وہ قم فانذر ہے یعنی کھڑے ہوجائیے، اس کے معنی حقیقی قیام کے بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کپڑوں میں لپٹ کرلیٹ گئے ہیں اس کو چھوڑ کر کھڑے ہوجائیے اور یہ معنی بھی بعید نہیں کہ قیام سے مراد کام کے لئے مستعد ہو کر کمر کسنا ہو اور مطلب یہ ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمت کر کے خلق خدا کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھالئے، فانذر یہ انذار سے مشتق ہے جس کے معنی شفقت اور محبت سے ڈرانے کے ہیں جس میں شفقت کے ساتھ ساتھ مضرت سے بھی بچانا ہو جیسے باپ اپنے بچہ کو سانپ بچھو آگ وغیرہ سے ڈراتا ہے، انبیاء کی یہی شان ہوتی ہے، اسی لئے ان کا لقب نذیر اور بشیر ہوتا ہے۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کرلیٹنے والے ! اٹھو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گردوپیش خدا کے جو بندے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو خبردار کردو انہیں اس انجام سے ڈرائو جس سے وہ یقینا دو چار ہوں گے اگر اسی حالت میں مبتلا رہے، اور انہیں یہ بھی بتادو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پرس نہ ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ ﴿الْمُزَّمِّلُ ﴾ اور ﴿ الْمُدَّثِّرُ ﴾ کا ایک ہی معنی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادات قاصرہ اور متعدیہ میں پوری کوشش کریں۔ وہاں یہ بھی گزرچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبادات فاضلہ وقاصرہ اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان فرمادیں اور کھلم کھلا لوگوں کو تنبیہ کریں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey kapray mein lipatney walay !
12 Tafsir Ibn Kathir
ابتدائے وحی
حضرت جابر سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ ) 74 ۔ المدثر :1) نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی آیت (اقرا باسم) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یحییٰ بن ابو کثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں ؟ تو فرمایا آیت (یا ایھا المدثر) میں نے کہا لوگ تو آیت ( اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۚ ) 96 ۔ العلق :1) بتاتے ہیں فرمایا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں حضرت جابر نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا۔ میں خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت ( يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ ) 74 ۔ المدثر :1) کی آیتیں اتریں (بخاری) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چناچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورة مدثر کی ( وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۽) 74 ۔ المدثر :5) تک کی آیتیں اتریں، ابو سلمہ فرماتے ہیں (رجز) سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی، یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جبکہ غار میں سورة اقراء کی آیتیں (مالم یعلم) تک پڑھا گئے تھے، پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورة مدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں، طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو ؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چناچہ اس پر اجماع ہوگیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں فاصبر تک اتریں۔ پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہوجاؤ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہوجاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے، جہنم سے، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا۔ ان کو آگاہ کردو ان سے غفلت کو دور کردو، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت، بدعہدی، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں، عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال کی اصلاح کرلو، یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں، عربی محاورے میں جو معصیت آلود، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں، شاعر کہتا ہے۔
اذا المر الم یدنس من اللوم
عرضہ فکل ردا یرتدیہ جمیل
یعنی انسان جبکہ سیہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو۔ کپڑے پاک صاف رکھو، میلوں کو دھو ڈالا کرو، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی۔ سات ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو، محمد بن کعب قرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ، جیسے اور جگہ فرمان ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ۙ ) 33 ۔ الأحزاب :1) اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو۔ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو، ابن مسعود کی قرأت میں آیت (ان تستکثر) ہے، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو، یہ چار قول ہوئے، لیکن اول اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ۔ (ناقور) سے مراد صور ہے، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کیسے راحت سے رہوں ؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے، اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے ؟ فرمایا کہو دعا (حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہوگا جو کسی طرح آسان نہ ہوگا، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ آیت ( فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ ۙ ) 74 ۔ المدثر :9) یہ آج کا دن تو بیحد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے، حضرت زرارہ بن اوفی (رح) جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گرپڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہوچکی تھی، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔