کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا
الم نھلک الاولین ثم نتبعھم الاخرین، کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ان کے کفر وعناد کی وجہ سے ہلاک نہیں کیا ؟ ثم نتبعھم مشہور قرأت کی رو سے عین پر جزم کے ساتھ ہے، اور نھلک پر عطف ہے معنی یہ ہیں کہ کیا ہم نے اولین کے بعد آخرین کو ان کے پیچھے ہلاک نہیں کردیا ؟ اس لئے آخرین سے مراد بھی سابقہ امتوں ہی کے آخرین مراد ہوں گے، جن کی ہلاکت نزول قرآن سے پہلے ہوچکی ہے، دوسری ایک قرأت میں عین کے ضمہ کے ساتھ ہے، اس قرأت کے مطابق یہ جملہ اور آخرین سے مراد امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفار ہیں، پچھلی امتوں کی ہلاکت کی خبر دینے کے بعد موجودہ کفار اہل مکہ کو آئندہ ان پر آنے والے عذاب کی خبر دینا مقصود ہے جیسا کہ غزوہ ٔ بدر وغیرہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان پر ہلاکت کا عذاب نازل ہوا۔ (معارف)
فرق یہ ہے کہ پچھلی امتوں پر آسمانی عمومی عذاب آتا تھا جس سے پوری بستیاں تباہ ہوجاتی تھیں، امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے یہ اکرام خاص ہے کہ ان کے کفار پر آسمانی عمومی عذاب نہیں آتا، بلکہ ان کا عذاب مسلمانوں کی تلوار سے آتا ہے جس میں ہلاکت عام نہیں ہوتی، صرف بڑے سرکش مجرم ہی مارے جاتے ہیں۔