النباء آية ۱
عَمَّ يَتَسَاۤءَلُوْنَۚ
طاہر القادری:
یہ لوگ آپس میں کس (چیز) سے متعلق سوال کرتے ہیں،
English Sahih:
About what are they asking one another?
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟
2 Ahmed Raza Khan
یہ آپس میں کاہے کی پوچھ گچھ کررہے ہیں
3 Ahmed Ali
کس چیز کی بابت وہ آپس میں سوال کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہ لوگ کس کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں (١)
١۔١ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نے توحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار و مشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے، جبکہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن، واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں؟
6 Muhammad Junagarhi
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال و جواب کر رہے ہیں؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کررہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ؟
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، یہ قریشی آپس میں کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟ کیا اس بڑی خبر کے بارے میں جس کے متعلق یہ لوگ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے ہیں ؟ (عن النبا العظیم) (شئی مسئولہ کا) عطف بیان ہے، اور استفہام اسی شئی کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے ہے اور وہ قرآن ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے جو کہ بعث وغیرہ پر مشتمل ہے، (بایں طور) کہ مومنین اس کو ثابت کرتے ہیں اور کافر اس کا انکار کرتے ہیں، خبردار ! ان کو عنقریب وہ چیز معلوم ہوجائے گی جو ان کے اوپر اس کے انکار کی وجہ سے نازل ہوگی (کلا) حرف توبیخ ہے، پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا، یہ تاکید ہے، اس میں ثم اس بات کو بتانے کے لئے لایا گیا ہے کہ دوسری وعید پہلی سے شدید تر ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے قدرت علی البعث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (الم نجعل الخ) کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہم نے زمین کو گہوارہ کے مانند بچھونا بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کے مانند گاڑ دیا، زمین کو پہاڑوں کے ذریعہ ساکن (غیر مضطرب) کردیا جس طرح خیموں کو میخوں کے ذریعہ قائم کردیا جاتا ہے، اور استفہام تقریر کے لئے ہے، اور ہم نے تم کو مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور تمہاری نیند کو ہم نے تمہارے جسموں کے لئے (باعث) راحت بنایا اور ہم نے رات کو اس کی ظلمت کی وجہ سے ساتر بنایا اور دن کو معاش یعنی معاش کا وقت بنایا، اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے شدادا، شدیدۃ کی جمع ہے یعنی ایسے قوی اور مضبوط کہ ان میں مرور زمان بھی اثر نہ کرسکے، اور ایک نہایت ہی روشن دہکتا ہوا چراغ یعنی سورج بنایا اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے یعنی ان بادلوں سے جو برسنے کے قریب ہوگئے ہوں مثل اس عورت کے کہ جو قریب البلوغ ہو اور جس کے حیض کا زمانہ قریب آگیا ہو، بہتا ہوا پانی برسایا، تاکہ ہم اس (پانی) کے ذریعہ غلہ مثل گندم اور گھاس مثل بھوسہ کے پیدا کریں اور گھنے گتھے ہوئے باغات اگائیں (الفاف) لفیف کی جمع ہے جیسا کہ اشراف، شریف کی جمع ہے، بلاشبہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے (یعنی) ثواب و عقاب کا وقت ہے، جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی صور بمعنی قرن، (یوم ینفخ) یوم الفصل سے بدل ہے یا اس کا عطف بیان ہے، اور صور پھونکنے والے (حضرت) اسرافیل (علیہ السلام) ہیں تو تم اپنی قبروں سے محشر کی جانب مختلف جماعتوں کی شکل میں چلے آئو گے، اور آسمان کھول دیا جائے گا (فتحت) تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے یعنی (آسمان کو) نزول ملائکہ کے لئے پھاڑ دیا جائے گا، تو وہ دروازے یہ دروازے ہوجائے گا یعنی دروازوں والا ہوجائے گا، اور پہاڑ چلائے جائیں گے یعنی ان کو ان کی جگہ سے اکھاڑ دیا جائے گا، تو وہ چمکتے ہوئے ریت ہوجائیں گے (یعنی) اڑنے میں اور ہلکے پن میں مثل غبار (ہو جائیں گے) بلاشبہ جہنم کافروں کے گھات میں ہے کہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتے یا (کافروں کے لئے) تیار کی گئی ہے کہ وہ ان کا ٹھکانہ ہے جس میں وہ داخل ہو گے، اور وہ اس میں قرنہا قرن رہیں گے (لابثین) حال مقدرہ ہے یعنی ان کے لئے اس میں داخل ہونا مقدر ہوچکا ہے نہ ان کو وہاں نیند میسر ہوگی اور نہ لذت کے ساتھ پینے کے قابل کوئی چیز اور اگر کچھ ملے گا تو بس نہایت گرم پانی اور بہتی پیپ (غساقا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ یعنی وہ چیز جو دوزخیوں کے زخموں سے نکلے گی، بس وہ اسی کو چکھیں گے، اور اسی کے ذریعہ ان کو ان کے اعمال کے مطابق بھرپور بدلہ دیا جائے گا، یہ لوگ ان کے بعث سے منکر ہونے کی وجہ سے حساب کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور انہوں نے ہماری آیتوں قرآن کو بالکل جھٹلا دیا تھا، حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہر عمل کو گن کر ضبط کرلیا تھا یعنی لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا تاکہ ہم اس کا بدل دیں اور ان ہی (اعمال) میں سے ان کا قرآن کو جھٹلانا بھی ہے، اب چکھو مزہ یعنی ان پر عذاب واقع کرتے وقت ان سے کہا جائے گا کہ تم اپنے (اعمال) کا بدلہ چکھو، اب ہم تمہارے لئے عذاب پر عذاب ہی کا اضافہ کرتے جائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : عم، عم دو حرفوں عن، اور ما سے مرکب ہے، اصل میں عما تھا، ما استفہامیہ ہے اس پر حرف جرداخل ہے قاعدہ معروفہ کی وجہ سے ما سے الف حذف ہوگیا، قاعدہ معروفہ یہ ہے کہ جب ما استفہامیہ پر حرف جرداخل ہو تو الف کو حذف کردیا جاتا ہے، البتہ ضرورت شعری وغیرہ کے لئے باقی بھی رکھا جاسکتا ہے، ما استفہامیہ یہاں تفخیم و عظمت کیلئے ہے، اس لئے کہ یہاں استفہام کے حقیقی معنی ممکن نہیں کیوں کہ استفہام کے لئے مستفہم کا ناواقف ہونا ضروری ہے اور یہ خدا کے لئے محال ہے۔
قولہ : النبا، نباء عظیم الشان اور بڑی خبر کو کہتے ہیں، یہاں عظیم الشان خبر سے مراد قیامت ہے، کلا یہ حرف زجر و توبیخ ہے اس میں وعید و تہدید کے معنی ہیں۔
قولہ : ما یحل بھم یہ یعلمون کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : وجی بثم للایذان الخ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔
اعتراض : اعتراض یہ ہے کہ جو مفہوم معطوف علیہ کا ہے وہی بعینہ معطوف کا ہے اور یہ عطف الشیء علی نفسہ ہے جو کہ جائز نہیں ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ ثم کے ذریعہ عطف کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ دوسری تاکید پہلی کی بہ نسبت شدید ہے، پس دونوں میں تغائر موجود ہے لہٰذا عطف الشیء علی نفسہ کا اعتراض دفع ہوگیا۔
قولہ : الم نجعل الارض مھادا، الارض مفعول بہ اول ہے اور مھادا مفعول بہ ثانی جب کہ جعل بمعنی صیر ہو اور اگر بمعنی خلق ہو تو مھادا، الارض سے حال ہوگا۔
قولہ : سباتا، سبات، سبت سے مشتق ہے اس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند چونکہ ہموم و غمم کو قطع کردیتی ہے جس کی وجہ سے جسم کو راحت اور دماغ کو سکون نصیب ہوتا ہے، اسی وجہ سے بعض حضرات نے سبات کے معنی راحت کے لئے ہیں، انہیں میں سے مفسر علام بھی ہیں، یوم السبت کو سبت اس لئے کہتے ہیں کہ یوم السبت میں بقول یہد کے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے فارغ ہونے کے بعد آرام فرمایا تھا۔
قولہ : وقتا للمعایش اس میں اشارہ کردیا کہ معاش مصدر میمی بمعنی ظرف زمان ہے۔
قولہ : الجاریۃ یہاں مطلق انثی مراد ہے۔
قولہ : ان یوم الفصل یہ کلام مستانف ہے جو کہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ وہ وقت کونسا ہے جو ادلہ متقدمہ سے ثابت کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب ان یوم الفصل سے دیا گیا ہے کہ وہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن ہے اس دن کے آنے میں چونکہ کفار کو تردد تھا اس لئے کلام کو ان کے ذریعہ مؤکد لایا گیا ہے۔
قولہ : جو زوا بذلک اس عبارت کے اضافہ سے اشارہ کر دا کہ جزاء وفاقا فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے، ای جو زوا جزاء وفاقا۔
قولہ : موافقا لعملھم اس سے اشارہ کردیا کہ وفاقا مصدر بمعنی اسم فاعل ہے اور جزاء کی صفت ہے، ای جزاء موافقا لعملھم۔
قولہ : وکل شیء یہ اشتغال کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر عبارت یہ ہے احصینا کل شیء احصینہ اور بعض حضرات نے کل کو ابتداء کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے اور اس کا مابعد اس کی خبر ہے، اور یہ جملہ سبب اور مسبب کے درمیان معترضہ ہے۔
قولہ : کتابا، کتابا مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے اس لئے کہ احصینا بمعنی کتبنا ہے ای کتبناہ کتابا۔
قولہ : فذوقوا فلن نزید کم الا عذابا یہ جملہ ان کے کفر و تکذیب کا مسبب ہے۔
تفسیر و تشریح
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توحید، قیامت وغیرہ کو بیان فرمایا، تو کفار آپس میں پوچھ تاچھ کرتے کہ کیا واقعی قیامت برپا ہوسکتی ہے ؟ اور یہ قرآن جس کو یہ شخص اللہ کا کلام کہتا ہے کیا واقعی اللہ کا کلام ہے ؟
حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو کفار مکہ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے متعلق رائے زنی اور چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے خود ہی سوال کر کے ان امور کی حیثیت و اہمیت کو واضح فرمایا اور پھر خود ہی جواب دے کر فیصلہ فرما دیا اور کلا کے ذریعہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے فرمایا کہ یہ چیزیں بحث و مباحثہ اور تنقید و تبصرہ سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں، جب اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو گے تو سب کچھ خود ہی معلوم ہوجائے گا اور یہ عنقریب ہونے والا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے بارے میں بیان فرمایا جس کے بارے میں وہ پوچھ رہے ہیں،چنانچہ فرمایا : ﴿عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْـتَلِفُوْنَ﴾ یعنی عظیم خبر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس میں تکذیب اور مستبعد ہونے کی وجہ سے ان کا نزاع طول پکڑ گیا اور ان کی مخالفت پھیل گئی، حالانکہ وہ ایسی خبر ہے جو شک کو قبول کرتی ہے نہ اس میں کوئی شبہ داخل ہوسکتا ہے، مگر مکذبین کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس تمام نشانیاں ہی کیوں نہ آجائیں ، یہ اپنے رب سے ملاقات پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ، اس لیے فرمایا : ﴿کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ﴾ یعنی عنقریب جب ان پر عذاب نازل ہوگا جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے تو انہیں معلوم ہوجائے گا ،اس وقت انہیں جہنم کی آگ میں دھکے دے کر ڈالا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : ﴿ هَـٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴾( لطور :52؍14) ” یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
yeh ( kafir ) log kiss cheez kay baaray mein sawalaat ker rahey hain-?
12 Tafsir Ibn Kathir
پہاڑیوں کی تنصیب، زمین کی سختی اور نرمی دعوت فکر ہے
جو مشرک اور کفار قیامت کے آنے کے منکر تھے اور بطور انکار کے آپس میں سوالات کیا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کرتے تھے ان کے جواب میں اور قیامت کے قائم ہونے کی خبر میں اور اس کے دلائل میں پروردگار عالم فرماتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟ پھر خود فرماتا ہے کہ یہ قیامت کے قائم ہونے کی بابت سوالات کرتے ہیں جو بڑا بھاری دن ہے اور نہایت دل ہلا دینے والا امر ہے۔ حضرت قتادہ اور ابن زید نے اس نبا عظیم (بہت بڑی خبر) سے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا مراد لیا ہے۔ مگر حضرت مجاہد سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے، لیکن بظاہر ٹھیک بات یہی ہے کہ اس سے مراد مرنے کے بعد جینا ہے جیسے کہ حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید کا قول ہے، پھر اس آیت ( الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ ۭ ) 78 ۔ النبأ :3) جس میں یہ لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں میں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف محاذوں پر ہیں ان کا اختلاف یہ تھا کہ مومن تو مانتے تھے کہ قیامت ہوگی لیکن کفار اس کے منکر تھے، پھر ان منکروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے کہ تمہیں عنقریب اس کا علم حاصل ہوجائے گا اور تم ابھی ابھی معلوم کرلو گے، اس میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں بیان فرما رہا ہے جن سے قیامت کے قائم کرنے پر اس کی قدرت کا ہونا صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے کہ جب وہ اس تمام موجودات کو اول مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ ان کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہوگا ؟ تو فرماتا ہے دیکھو کیا ہم نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش نہیں بنایا کہ وہ بچھی ہوئی ہے، ٹھہری ہوئی ہے حرکت نہیں کرتی تمہاری فرماں بردار ہے اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اور پہاڑوں کی میخیں بنا کر زمین میں ہم نے گاڑ دیا ہے، تاکہ نہ وہ ہل سکے، نہ اپنے اوپر کی چیزوں کو ہلا سکے، زمین اور پہاڑوں کی پیدائش پر ایک نظر ڈال کر پھر تم اپنے آپ کو دیکھو کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا یعنی مرد و عورت کو آپس میں ایک دوسرے سے نفع اٹھاتے ہو اور توالد تناسل ہوتا ہے بال بچے پیدا ہو رہے ہیں جیسے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 21) 30 ۔ الروم :21) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اس نے اپنی مہربانی سے تم میں آپس میں محبت اور رحم ڈال دیا، پھر فرماتا ہے ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ختم ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کرلو، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہوجائے، اسی معنی کی اور آیت سورة فرقان میں بھی گزر چکی ہے، رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ ) 92 ۔ اللیل :1) قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھک لے، عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں، حضرت قتادہ نے فرمایا ہے کہ رات سکون کا باعث بن جاتی ہے اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کرسکو جا آ سکو۔ بیوپار، تجارت، لین دین کرسکو اور اپنی روزیاں حاصل کرسکو، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنادی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے مضبوط پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں، پھر فرمایا ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کردیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کردیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ہوائیں چلتی ہے، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے معصرات سے مراد بعض نے تو ہوا لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں۔ مرأۃ معصرۃ عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آگیا ہو، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو، حضرت حسن اور قتادہ نے فرمایا معصرات سے مراد آسمان ہے، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا 48ۚ ) 30 ۔ الروم :48) اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے۔ ثجاجاً کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو، ایک حدیث میں ہے افضل حج وہ ہے جس میں لبیک خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں اس حدیث میں بھی لفظ ثج ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم روئی کا پھایا رکھ لو، اس نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں، اس روایت میں بھی لفظ اثج ثجا ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ ابر سے پانی کثرت سے مسلسل برستا ہی رہتا ہے، واللہ اعلم، پھر ہم اس پانی سے جو پاک، صاف، بابرکت، نفع بخش ہے، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو ترو تازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں، رنگوں خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول ان سے پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں۔ الفاقاً کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) 13 ۔ الرعد :4) زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت، کھیتیاں، کھجور کے درخت، بعض شاخ دار، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر، سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقینا عقل مندوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔