الاعلیٰ آية ۱
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ
طاہر القادری:
اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے،
English Sahih:
Exalt the name of your Lord, the Most High,
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو
2 Ahmed Raza Khan
اپنے رب کے نام کی پاکی بولو جب سے بلند ہے
3 Ahmed Ali
اپنے رب کے نام کی تسبیح کیا کر جو سب سے اعلیٰ ہے
4 Ahsanul Bayan
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر (١)
١۔١ یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبَّیَ ا لاَّعْلَیٰ (مسند احمد ٢٣٢۔١)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو
6 Muhammad Junagarhi
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے نبی(ص)) اپنے بلند و برتر پروردگار کے نام کی تسبیح کیجئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اپنے بلند ترین رب کے نام کی تسبیح کرو
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کر یعنی اپنے رب کی ان چیزوں سے پاکی بیان کر جو اس کی شایان شان نہیں ہیں اور لفظ اسم زائد ہے (الاعلیٰ ) رب کی صفت ہے جس نے پیدا کیا اور اپنی مخلوق کو درست کیا (یعنی) متناسب الاعضاء بنایا نہ کہ غیر متناسب جس نے جیسی چاہی تقدیر بنائی پھر اس نے اس خیر و شر کی راہ بتائی جو اس نے مقدر فرمائی جس نے نباتات گھاس اگائی پھر اس کو ہریالی کے بعد سوکھا سیاہ کوڑا کرکٹ کردیا ہم قرآن آپ کو پھڑھوا دیں گے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو پڑھیں گے اس کو نہ بھولیں گے سوائے اس کے کہ جس کو اللہ بھلانا چاہے گا اس حکم اور اس کی تلاوت کو منسوخ کر کے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت کے ساتھ ساتھ بھولنے کے خوف سے زور زور سے قرأت کرتے تھے گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمایا گیا کہ جلدی نہ کیجیے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھولیں گے نہیں، اس لئے زور سے پڑھ تعب نہ اٹھایئے، اور اللہ تعالیٰ ظاہر قول و فعل کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ قول و فعل کو بھی (جانتا ہے) اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسان شریعت کی سہولت دیتے ہیں اور وہ اسلام ہے، سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت نافع ہو اس شخص کو جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت فرمائیں جو کہ سیذکر من یخشی میں مذکور ہے جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے نصیحت حاصل کرے گا جیسا کہ آیت فکر بالقرآن من یخاف وعید میں ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو نصیحت فرمائیں جو وعید سے ڈرتا ہے اور نصیحت کو وہ شخص درکنار کرے گا یعنی اس کی طرف توجہ نہ کیر گا جو انتہائی بدبخت ہوگا جو بڑی آگ میں داخل ہوگا اور اشقی بمعنی شقی، یعنی کافر ہے اور وہ (بڑی آگ) آخرت کی آگ ہے اور چھوٹی آگ و نیا کی آگ ہے، پھر وہ اس میں نہ مرے گا کہ راحت پا جائے اور نہ خوشگواری کی زندگی جئے گا، وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے ایمان کے ذریعہ پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا تکبیر کہتے ہوئے پھر پنج و قتہ نماز پڑھی اور یہ امور آخرت میں سے ہیں اور مکہ کے کافر روگردانی کرتے ہیں تم لوگ دنیوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو (تئوثرون) یا اور تاء کے ساتھ ہے حالانکہ آخرت جو کہ جنت پر مشتمل ہے بہتر اور باقی رہنے والی ہے بلاشبہ یہی بات یعنی پاکیزگی حاصل کرنے والے کی فلاح اور آخرت کا بہتر اور دائمی ہونا پہلے صحیفوں میں ہے اور ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) اور موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کے صحیفوں میں بھی جو قرآن سے پہلے نازل ہوئے ہیں اور وہ ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے دس صحیفے اور موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کی تورات ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : صفۃ لربک یعنی الاعلی، رب کی صفت ہے اس کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ الاعلیٰ ، اسم کی صفت نہیں ہے اسلئے کہ الذی، ربک کی صفت ہے ورنہ تو یہ خرابی لازم آئے گی کہ موصوف ربک اور صفت الذی خلق کے درمیان غیر صفت یعنی الاعلی کا فصل ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
قولہ : غشاء، غشاء اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سطح آب پر بہہ کر چلا آتا ہے، یہاں مطلقاً سوکھا سیاہ کوڑا کرکٹ مراد ہے یعنی مقید کو معنی میں مطلق کے استعمال کیا ہے۔
قولہ : من تذکرہ المذکور، فی سیذکر من موصولہ ہے اور نفعت کا مفعول ہے اور تذکر کی ضمیر مرفوع مخاطب یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے اور ضمیر منصوب (ہ) موصول کی طرف راجع ہے اور المذکور موصول کی صفت ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کریں اگر نصیحت اس شخص کو فائدہ دے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کریں اور جس کا ذکر سیذکر من یخشی میں ہے، من تذکرہ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ان نفعت الذکریٰ میں جو نفع کے بارے میں تردد ہے وہ ذکری کے مفعول کی نسبت سے ہے نہ کہ فاعل کی نسبت سے اس لئے کہ فاعل کی نسبت سے ذکر کا فائدہ متحقق ہے۔ (کمالا یخفی)
قولہ : فیستریح یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ لایموت فیھا ولایحیی سے معلوم ہوتا ہے کہ موت اور حیات کے درمیان کوئی واسطہ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
قولہ : جواب کا حاصل یہ ہے کہ ایسی موت نہ آئے گی کہ یہ مرنے کے بعد راحت پا جائے اور نہ ایسی حیات ہوگی کہ اس میں خوشگواری ہو۔
تفسیر و تشریح
سبح اسم ربک الاعلی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت اور سورة غاشیہ کو عیدین اور جمعہ کی نماز میں پڑھا کرتے تھے، اسی طرح وتر کی پہلی رکعت میں سورة اعلیٰ اور دوسری میں سورة کافرون اور تیسری میں سورة اخلقا پڑھتے تھے، حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے مروی ہے کہ سبح اسم ربک الاعلی جب نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اپنے سجود میں داخل کرو اور جب فسبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے اپنے رکوع میں داخل کرو۔
سبح اسم ربک الاعلیٰ تسبیح کے معنی پاک رکھنے اور پاکی بیان کرنے کے ہیں سبح اسم ربک الاعلیٰ کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو پاک رکھئے، مطلب یہ کہ رب کے نام کی تعظیم تکریم کیجیے اور جب الللہ کا نام آئے تو ادب اور خضوع اور خشوع کا لحاظ رکھئے، اور ہر ایسی چیز سے اس کے نام کو پاک رکھئے جو اس کی شایان شان نہ ہو، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان ناموں سے پکاریئے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیان فرمائے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے ہیں ان کے سوا کسی اور نام سے اس کو پکارنا جائز نہیں۔
اسی میں یہ بھی دخل ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں وہ کسی مخلوق کے لئے استعمال کرنا اس کی تنزیہ و تقدیس کے خلاف ہے اس لئے جائز نہیں (قرطبی) جیسے رحمن، رزاق، غفار، قدوس وغیرہ، آج کل اس معاملہ میں غفلت بڑھتی جا رہی ہے۔
بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ اسم سے خود مسمی کی ذات مراد لی ہے اور لفظ اسم کو زائد کہا ہے مفسر علام کا بھی یہ خیال ہے، اور عربی زبان کے اعتبار سے اس کی گنجائش بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس معنی کے لئے استعمال ہوا ہے اور حدیث میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلمہ کو نماز کے سجدے میں پڑھنے کا حکم دیا اس کی تعمیل میں جو کلمہ اختیار کیا گیا وہ سبحان اسم ربک الاعلی نہیں بلکہ سبحان ربی الاعلی ہے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ لفظ اسم اس جگہ مقصود نہیں خود مسمی مقصود ہے۔
فجعلہ غثاء جب گھاس خشک ہوجائے تو اس کو غثاء کہتے ہیں احویٰ بمعنی سیاہ کرنا، یعنی تازہ اور سرسبز لہلہاتی گھاس کو ہم سکھا کر سیاہ کوڑا بھی کردیتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنی تسبیح وتنزیہہ کا حکم دیتا ہے جو اس کے ذکر، اس کی عبادت ، اس کے جلال کے سامنے سرافگندہ اور اس کی عظمت کے سامنے فروتن ہونے کو متضمن ہے ، نیز تسبیح ایسی ہو جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لائق ہے ، یعنی اس کے اسمائے حسنیٰ وعالیہ کا اس اسم سے ذکر جس کے معنی اچھے اور عظیم ہوں۔ اس کے افعال کا ذکر کیا جائے ، ان افعال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ، ان کو درست کیا ، یعنی نہایت مہارت کے ساتھ ان کو اچھی طرح تخلیق کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
apney perwerdigar kay naam ki tasbeeh kero jiss ki shaan sabb say oonchi hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت ( فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74ۧ) 56 ۔ الواقعة :74) اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کرلو جب آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ ) 87 ۔ الأعلی :1) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کرلو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ ) 87 ۔ الأعلی :1) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت (لا اقسم بیوم القیامۃ) پڑھتے اور آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40 ) 75 ۔ القیامة :40) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت (رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50) 20 ۔ طه :50) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کردیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کردیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کردیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کردیں گے نہ اس میں کجی ہوگی نہ سختی نہ جرم ہوگا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آسکیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہوجائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کرسکتا جو بدبخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مرجائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت ( وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77) 43 ۔ الزخرف :77) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت (لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36ۚ ) 35 ۔ فاطر :36) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں۔