اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۗ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو
English Sahih:
Would you not fight against a people who broke their oaths and determined to expel the Messenger, and they had begun [the attack upon] you the first time? Do you fear them? But Allah has more right that you should fear Him, if you are [truly] believers.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے پہلی ہوتی ہے، کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو،
احمد علی Ahmed Ali
خبردار! تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے پہلے تم سے عہد شکنی کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو الله زيادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے (١) جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں (٢) اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے (٣) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
١٣۔١ اَ لَا حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالٰی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔
١٣۔٢ اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔
١٣۔٣ اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتدا کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
تم ان لوگوں سے کیوں جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنی قَسموں کو توڑ ڈالا پیغمبر(ص) کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی کی۔ تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم اس قوم سے جہاد نہ کرو گے جس نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور رسول کو وطن سے نکال دینے کا ارادہ بھی کرلیا ہے اور تمہارے مقابلہ میں مظالم کی پہل بھی کی ہے -کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا خوف پیدا کرو اگر تم صاحب ه ایمان ہو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قََسمیں توڑ ڈالیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے (عہد شکنی اور جنگ کی) ابتداء کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ
مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کرتے رھے بھڑ بھڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہوچکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کرلیا فالحمدللہ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ، میری سلطنت میری سزاء، میری قدرت، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کرسکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ (رض) غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔