یونس آية ۱
الٓرٰۗ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ
طاہر القادری:
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں،
English Sahih:
Alif, Lam, Ra. These are the verses of the wise Book.
1 Abul A'ala Maududi
ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں،
3 Ahmed Ali
یہ حکمت والی کتا ب کی آیتیں ہیں
4 Ahsanul Bayan
الر یہ پُر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں (١)
١۔١ اَلْحَکِیْمِ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب، یعنی اللہ تعالٰی نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
آلرا ۔ یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
الرٰ۔ یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، را۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤر -پُر از حکمت کتاب کی آیتیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
الرا، یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیتیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ١ تا ١٠
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے الرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ محکم کتاب (یعنی) قرآن کی آیتیں ہیں (آیت الکتاب) میں اضافت بمعنی من ہے کیا ان لوگوں کو یعنی اہل مکہ کو اس بات سے تعجب ہوا، استفہام انکاری ہے اور مجرور اس کے قول عَجَبًا نصب کے ساتھ کان کی خبر ہے اور رفع کے ساتھ کان کا اسم ہے اور خبر أن اَوْحَیْنَا الخ ہے اور اَوَحَیْنَا اسم ہے پہلی (یعنی نصب کی) صورت میں أن اَوْحینا، اِیحَاؤنا مصدر کے معنی میں ہے، کہ ہم نے ان میں کے ایک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی بھیج دی کہ لوگوں یعنی کافروں کو عذاب سے ڈرائیے أن مفسرہ ہے اور جو ایمان لے آئے ہیں ان کو خوشخبری سنائیے، کہ ان کے لئے ان کے رب کے پاس سچی عزت ہے یعنی ان کے کئے ہوئے اعمال کا اچھا بدلہ ہے، کافر کہنے لگے یہ قرآن جو انذار وتبشیر پر مشتمل ہے بلاشبہ کھلا جادو ہے اور ایک قراءت میں لساحرٌ ہے (اس صورت میں) ذلک کا مشارٌ الیہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے، حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو دنیا کے دنوں کے اعتبار سے چھ دنوں میں یعنی ان کی مقدار میں پیدا فرمایا اس لئے کہ اس وقت سورج اور چاند نہیں تھے، اور اگر خدا چاہتا تو ایک لمحہ میں ان کو پیدا فرما دیتا مگر اس سے عدول کرنے میں اپنی مخلوق کو عدم عجلت کی تعلیم دینی مقصود تھی پھر تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا جیسا کہ اس کی شایان شان ہے، وہ مخلوق کے ہر امر کی تدبیر کرتا ہے کوئی کسی کی سفارش نہیں کرسکتا مگر اس کی اجازت سے، (من شفیع میں) مِن زائدہ ہے، یہ (کفار) کے اس عقیدہ کا رد ہے کہ بت ان کی سفارش کریں گے، یہی خالق مدبر اللہ تمہارا رب ہے صرف اسی کی بندگی کرو کیا تم (ان دلائل کے سننے کے بعد بھی) نہیں سمجھتے، (تذکرون) میں دراصل تاء کا ذال میں ادغام ہے، تم سب کو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانا ہے اس نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، (وعداً اور حقًا) دونوں مصدر ہیں جو اپنے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہیں بیشک (أنّہ) کسرہ کے ساتھ ذریعہ دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کو پینے کیلئے انتہائی گرم پانی ملے گا یعنی حرارت میں انتہا ہوا ہوگا، اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے یعنی ان کے کفر کے سبب ان کو سزا دی جائے گی وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشن بنایا روشنی والا یعنی چمکدار بنایا اور چاند کو نور عطا کیا اور چاند کیلئے اس کی رفتار کے اعتبار سے ہر ماہ میں اٹھائیس راتوں میں اٹھائیس منزلیں بنائیں اور دوراتیں پوشیدہ رہتا ہے اگر مہینہ تیس دنوں کا ہو اور ایک رات پوشیدہ رہتا ہے اگر مہینہ ٢٩ دنوں کا ہو، تاکہ تم اس کے ذریعہ برسوں اور تاریخوں کا حساب معلوم کرو اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بامقصد بنایا ہے نہ کہ (عبث) بےمقصد اللہ اس سے وراء الوراء ہے وہ نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے غور و فکر کرنے والی قوم کیلئے یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں (یعنی) آنے اور جانے میں بڑھنے اور گھٹنے میں اور ہر اس چیز میں جو اس نے آسمانوں میں پیدا فرمایا مثلاً ففرشتے، سورج چاند ستارے وغیرہ اور زمین میں پیدا فرمائیں مثلاً حیوان، پہاڑ، دریا اور نہریں اور درخت وغیرہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں خدا کا ڈر رکھنے والوں کیلئے کہ وہ ایمان لے آئیں، مخصوص طور پر متقیوں کا ذکر فرمایا اس لئے کہ یہی لوگ ان نشانیوں سے نفع اٹھاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو بعث کے ذریعہ ہماری ملاقات کی توقع نہیں ہے اور وہ آخرت کا انکار کرنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں اور اسی پر اطمینان کرلیا ہے (یعنی) اس سے دل لگا بیٹھے ہیں، اور وہ لوگ جو ہماری وحدانیت پر دلالت کرنے والی ہماری آیتوں سے غافل ہیں (یعنی) ان میں غور و فکر کے تارک ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ان کے شرکیہ اعمال اور معاصی کی وجہ سے جہنم ہے یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کا رب ان کے ایمان کی بدولت ان کی رہنمائی کرے گا بایں صورت کہ ان کیلئے نور مہیا کریگا جس کے ذریعہ وہ قیامت کے روز اپنے مقصد تک رسائی حاصل کریں گے، بھری جنتوں باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان کی طلب (کا طریقہ) جنت میں جس چیز کی ان کو خواہش ہوگی سبحانک اللّٰھم کہنا ہوگا یعنی اے اللہ، اور جب وہ اس کا طلب کریں گے تو وہ شئ ان کے سامنے موجود ہوگی، اور ان کا آپسی سلام جنت میں السلام علیکم ہوگا اور ان کی آخری بات الحمدللہ رب العلمین ہوگی، أن، مفسرہ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : حالٌ من قولہ عَجَبًا، لِلنَّاسِ دراصل محذوف سے متعلق ہو کر عجباً کی صفت ہے اور صفت جب موصوف پر مقدم ہوتی ہے تو وہ حال کہلاتے ہے اس لئے کہ صفت کا موصوف پر مقدم ہونا درست نہیں ہے، اور نہ للناس، عجباً کے متعلق ہے اسلئے کہ مصدر عامل ضعیف ہوتا ہے اپنے ماقبل میں عمل نہیں کرتا، عَجَبًا کان کی خبر مقدم ہے اور أن اَوْحَیْنَا، کان کا اسم مؤخر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، أکانَ اِیْحاؤُنا عَجَبًا للناس، اور عجبٌ رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں عجبٌ کان کا اسم ہوگا، اور أن اَوْحَیْنآ جو نصب کی صورت میں اسم تھا وہ رفع کی صورت میں خبر ہوگا، اور ابن مسعود نے عجبٌ کو مرفوع کان کو تامہ مانتے ہوئے پڑھا ہے اور أن اَوْحَیْنَا کو عجبٌ سے بدل قرار دیا ہے۔
قولہ : قَدَمَ صدقٍ ، یہ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے جیسا کہ مسجد الجامع میں، قَدَم بمعنی مرتبہ، عزت، گذشتہ نیک کام کا اچھا اجر، مفسر علام نے قدم کی تفسیر سلف، سے کرکے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے، علامہ سیوطی نے اجراً حَسَنًا بما قدموا من الاعمال کہہ کر یہی معنی مراد لئے ہیں۔
فائدہ : سبقت چونکہ قدم کے ذریعہ ہوتی ہے سابقہ کو قدم کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ نعمت کو یدٌ کہہ دیا جاتا ہے قدم کی صدق کی طرف اضافت زیادتی فضل کیلئے ہے، یا اس لئے کہ مقام صدق قول صادق سے حاصل ہوتا ہے۔
قولہ : مذکور، ذلک کی تفسیر مذکور سے کرکے سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے۔ سوال : یہ ہے کہ ماقبل میں شمس و قمر کا ذکر ہے لہٰذا اسم اشارہ تثنیہ لانا چاہیے حالانکہ ذلک مفرد لائے ہیں۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ مذکور کے معنی میں لے کر ذلک مفرد لائے ہیں
قولہ : اِنَّ الّذِیْنَ آمنوا الخ یھدیھم، اِنَّ کی خبر اول ہے اور تجری من تحتھا الانھار خبر ثانی ہے اور فی جنّٰتٍ نعیم خبر ثالث ہے۔
قولہ : سبحٰنک اللھُمَّ یعنی جنتی جب کسی پسندیدہ شئ کی خواہش کریں تو طلب کا طریقہ یہ ہوگا کہ اللّٰھُمَّ کہیں گے تو فوراً ہی مطلوبہ شئ موجود ہوجائے گی، اَللّٰھُمّٰ چونکہ کلمہ نداء ہے لہٰذا دعاء بمعنی طلب ہوگی۔
قولہ : اِذَا ما طلبوہ بین اَیْدیھم، اِذا مفاجاتیہ ہے یعنی اہل جنت جب کسی شئ کی خواہش کریں گے تو وہ سبحٰنک اللّٰھُمّٰ کہیں گے فوراً ہی وہ شئ حاضر ہوجائے گی۔ قولہ : ذات ضیاءٍ اس اضافہ کا مقصد الشمس ضیاءً کے حمل کو درست قرار دینا ہے اسلئے کہ ضیاء مصدر ہے اس کا حمل ذات پر درست نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
سورت کا نام : اس سورت کا نام ” یونس “ موضوع کے طور پر نہیں ہے بلکہ اثناء کلام میں چونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام آگیا ہے اسلئے اسم الکل باسم الجزء کے طریقہ پر اس کا نام سورة یونس رکھا گیا ہے۔
مقام نزول : روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورت مکی ہے البتہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں دو یا تین آیتیں مدنی ہیں۔
فضائل : حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت حسبی اللہ الخ صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہموم اور تفکرات کیلئے کافی ہوجائیگا۔
أکان للناسِ عجبًا الخ استفہام انکار تعجبی کیلئے ہے جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے، یعنی اسبات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں ہی میں سے ایک شخص کو وحی رسالت کیلئے چن لیا، کیونکہ اس کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے صحیح معنی میں وہ ان کی رہنمائی کرسکتا ہے اور اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا مثلاً فرشتے یا جن ہوتا تو دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا مقصد فوت ہوجاتا، اسلئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کے بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے یہ کہ انسانوں کے لئے ان کا دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر کسی جن یا فرشتے کو انسانی قالب میں بھیجا جاتا تو وہی اعتراض لازم آتا کہ یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے اسلئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ قدم صدق، اس کا مطلب ہے بلند مرتبہ، اجر حسن، اور وہ اعمال صالحہ کہ جن کو ایک مومن آگے بھیج چکا ہے۔
قال الکافرون اِنَّ ھذا لسٰحِرٌ مبین کافروں کو جب انکار کیلئے کوئی اور بات نہ ملتی تو جادو گر یا جادو کی پھبتی کس دیتے مگر یہ نہ سوچتے کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں۔
اَنَّ ربکم اللہ الّذی خَلَقَ السمٰوات والارض فی ستۃ ایام، اس آیت میں توحید کو اس ناقابل انکار حقیقت کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور پھر پورے عالم کی تدبیر کرنے میں جب اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو پھر عبادت و بندگی میں کوئی دوسرا کیسے شریک ہوسکتا ہے ؟ اس آیت میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا مگر عرف میں دن طلوع شمس سے ٖغروب شمس تک تک کہ مدت کو کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ آسمان و زمین اور سیاروں کے پیدا کرنے سے پہلے آفتاب ہی کا وجود نہیں تھا تو طلوع و غروب کا حساب کیسے ہوا ؟ اس لئے یہاں طلوع و غروب سے وقت کی وہ مقدار مراد ہے جو طلوع و غروب کے اعتبار سے اس دنیا میں ہونے والی تھی۔ چھ دن کی قلیل مدت میں اتنے بڑے جہان کو جو آسمانوں اور زمین اور سیارات اور تمام کائنات عالم پر مشتمل ہے بنا کر تیار کردینا اسی ذات قدوس کا مقام ہے جو قادر مطلق ہے اور یہ چھ دن کی مدت بھی ایک خاص مصلحت و حکمت کی بنا پر ہے ورنہ اس خالق مطلق کیلئے تخلیق کا صرف ارادہ بھی کرلینا کافی ہے جس کو قرآن میں کن فیکون سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
ثم استویٰ علی العرش، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا، اتنہ بات تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ عرش رحمن کوئی ایسی مخلوق ہے جو تمام آسمانوں اور زمین اور تمام کائنات پر محیط ہے، سارا جہان اس کے اندر سمایا ہوا ہے، اس سے زائد اس کی حقیقت کا معلوم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، جو انسان اپنی سائنسی انتہائی ترقی کے زمانہ میں بھی صرف نیچے کے سیاروں تک پہنچنے کی تیاری میں ہے اور بہت سے سیارے ایسے بھی ہیں جنکی شعاع اپنی تخلیق کے وقت سے ابتک زمین تک نہیں پہنچی جبکہ روشنی کی رفتار فی منٹ ١٨٦٠٠٠ میل کی ہے جب ستاروں اور سیاروں تک انسان کی رسائی کا یہ حال ہے تو آسمان جو ان سب ستاروں اور سیاروں سے اوپر ہے اس کا یہ مسکین انسان کیا حال معلوم کرسکتا ہے اور پھر جو ساتوں آسمانوں سے بھی اوپر ہو اور سب پر حاوی اور محیط ہو وہ عرش رحمن ہے اس کی حقیقت تک رسائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ؎
نہ ہر جائے مرکب تواں تاختن کہ جاہا سپر باید انداختین
جن متاخرین علماء نے ان چیزوں کے جو معنی بیان کئے ہیں وہ صرف تخمینی اور احتمالی درجہ رکھتے ہیں نہ کہ یقینی اور حتمی، اس لئے صاف اور بےغبار مسلک سلف صالحین اور صحابہ وتابعین ہی کا ہے جنہوں نے ان چیزوں کی حقیقت کو علم الہیٰ کے حوالہ کیا ہے۔
وقَدّرَہٗ مَن۔ ازِلَ لِتعلَموا عَدَد السنین، قَدَّرہٗ منازل ما سبق میں سورج اور چاند دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار فرمایا تھا مگر یہاں قدرہ کی ضمیر چاند کی طرف لوٹ رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ منزلیں صرف چاند ہی کی ہیں حالانکہ منزلیں دونوں کی ہیں۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ قرآنی احکامات پوری نوع انسانی کیلئے ہیں خواہ دیہاتی ہو یا شہری عالم ہو یا جاہل، چاند کے ذریعہ ماہ و سال کا حساب لگانا اور تاریخوں کو معلوم کرنا ہر شخص کیلئے آسان ہے چاند کو دیکھ کر ہر شخص چاند کی تاریخ کا اندازہ لگا سکتا ہے بخلاف شمسی تاریخوں کے کہ ان کا معلوم کرنا دیہاتی اور جاہل تو کیا پڑھے لکھے کیلئے بھی آسان نہیں ہے شمسی تاریخ معلوم کرنے کیلئے تقدیم، جنتری، کیلنڈر کا سہارا لینا ضروری ہوتا ہے بخلاف چاند کی تاریخوں کے کہ رات کو چاند دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے، شمسی تاریخوں کا حساب رصد گاہوں اور آلات پر موقوف ہے جو ہر شخص کو نہ میسر ہیں اور نہ آسان، یہی وجہ ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام مثلاً روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ قمری تاریخوں سے متعلق ہیں۔
مَنازل، منزل جائے نزول، پڑاؤ کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر دونوں کیلئے حدود مقرر فرمائی ہیں چاند چونکہ اپنا دورہ ہر مینہ میں پورا کرلیتا ہے اسلئے اس کی منزلیں ٢٩ یا ٣٠ ہیں، مگر چونکہ ہر مہینہ میں چاند ایک یا دو دن ضرور غائب رہتا ہے جس کو محاق کہتے ہیں اسلئے عموماً چاند کی منزلیں ٢٨ کہی جاتی ہیں، آفتاب کا دورہ ایک سال میں پورا ہوتا ہے اس کی منزلیں ٣٦٥ ہوتی ہیں۔
فائدہ جلیلہ : زمین سے چاند کی اوسط دوری ٢٨٠٠٠٠ میل ہے، اس کا حجم زمین کے حجم کا ٢٩؍١ حصہ ہے اور وزن زمین کے وزن کا ٨١؍١ حصہ ہے، چاند کی سطحی کشش زمین کی سطحی کشش کا تقریباً ٦؍١ حصہ ہے لہٰذا جس چیز کا وزن سطح زمین پر ٦ پونڈ ہے سطح قمر پر اس کا وزن ایک پونڈ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ آدمی چاند پر بغیر وزن لئے نہیں چل سکتا۔ چاند زمین کے اردگرد ٢٧ دن ٧ گھنٹے ٢٤ منٹ میں دورہ پورا کرتا ہے، مگر زمین کی سالانہ حرکت کے سبب سے ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک ساڑھے انتیس دن لگتے ہیں، چاند کا دن تقریباً ہمارے ١٤ دنوں کے برابر ہوتا ہے اسی طرح چاند کی ایک رات ہماری ١٤ راتوں کے برابر ہوتی ہے (فلکیات جدیدہ)
10 Tafsir as-Saadi
﴿الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ﴾ ” یہ آیتیں ہیں حکمت والی کتاب کی“ اور وہ کتاب یہ قرآن ہے جو تمام تر حکمت و احکام پر مشتمل ہے جس کی آیت کریمہ حقائق ایمانی اور شریعت کے او امر و نواہی پر دلالت کرتی ہیں جن کو برضا و رغبت قبول کرنا اور جن پر عمل کرنا تمام امت پر فرض ہے۔ بایں ہمہ اکثر لوگوں نے اس سے روگردانی کی۔ وہ اس کا علم نہیں رکھتے اس لئے انہیں سخت تعجب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Raa . yeh uss kitab ki aayaten hain jo hikmat say bhari hoi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
عقل زدہ کافر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے۔ کہتے تھے کہ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا ؟ حضرت ہود اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی۔ کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کردیا ؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کردیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے۔ بھلائیوں کا اجر ہے۔ ان کے نیک کام ہیں۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح۔ اور ان کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں۔ یہ سابق لوگ ہیں۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے، نذیر بھی ہے، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی۔