یونس آية ۲۱
وَاِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۤءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِىْۤ اٰيَاتِنَا ۗ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا ۗ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
طاہر القادری:
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت سے لذت آشنا کرتے ہیں تو فوراً (ہمارے احسان کو بھول کر) ہماری نشانیوں میں ان کا مکر و فریب (شروع) ہو جاتا ہے۔ فرما دیجئے: اللہ مکر کی سزا جلد دینے والا ہے۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے، جو بھی فریب تم کر رہے ہو (اسے) لکھتے رہتے ہیں،
English Sahih:
And when We give the people a taste of mercy after adversity has touched them, at once they conspire against Our verses. Say, "Allah is swifter in strategy." Indeed, Our messengers [i.e., angels] record that which you conspire.
1 Abul A'ala Maududi
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو “اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں "
2 Ahmed Raza Khan
اور جب کہ ہمارے آدمیوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں کسی تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی جبھی وہ ہماری آیتوں کے ساتھ داؤں چلتے ہیں تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوجاتی ہے بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر لکھ رہے ہیں
3 Ahmed Ali
اورجب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی تو وہ ہماری آیتو ں کے متعلق حیلے کرنے لگتے ہیں کہہ دو کہ الله بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے بے شک ہمارے فرشتے تمہارے سب حیلو ں کو لکھ رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں (١) تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں (٢) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے (٣) بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔
٢١۔١ مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام و مصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔
٢١۔٢ اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔
٢١۔٣ یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت مکر سے تعبیر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کامزه چکھا دیتے ہیں تو وه فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیاده تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف اور دکھ درد کے بعد (اپنی) رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ فوراً ہماری آیتوں میں چال بازی و حیلہ سازی کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دیجیئے کہ اللہ تدبیر و ترکیب میں (تم سے) زیادہ تیز ہے بے شک ہمارے فرستادہ (فرشتے) تمہاری سب چالبازیاں اور مکاریاں برابر لکھتے جا رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھادیا تو فورا ہماری آیتوں میں مّکاری کرنے لگے تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمہارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں۔
آیت نمبر ٢١ تا ٣٠
ترجمہ : اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کو یعنی کفار مکہ کو تکلیف اور قحط سالی کے بعد جو ان کو پیش آچکی ہوتی ہے رحمت یعنی بارش اور خوشحالی کا مزا چکھا دیتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں کے بارے میں استہزاء اور تکلیف کے ذریعہ چالبازیاں کرنے لگتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ چالنازی کا جواب دینے میں تم سے زیادہ تیز ہے (اور) بلاشبہ ہمارے فرشتے ان کی مکاریوں کو قلمبند کر رہے ہیں (تمکرون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، وہ اللہ ہی ہے کہ جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے اور ایک قراءت میں ینشرون ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ ان کو نرم (موافق) ہوا کے ذریعہ لے کر چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں تو (اچانک) ہوا کا ایک شدید بگولا آتا ہے جو ہر شئ کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے، اور ہر طرف سے موجیں آنے لگتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ (برے) آگھرے یعنی وہ اب ہلاک کئے گئے، اس وقت یہ لوگ دین کو اللہ کیلئے خالص کرکے (اخلاص کے ساتھ) اللہ سے دعاء کرنے لگتے ہیں اور قسمیہ کہتے ہیں (لئن میں) لام قسمیہ ہے اگر تو نے ہم کو ان ہولناکیوں سے نجات دیدی تو ہم تیرے شکر گزار موحد بندوں میں سے ہوجائیں گے مگر جب ہم نے ان کو بچا لیا تو پھر وہی لوگ زمین پر شرک کرکے ناحق سرکشی کرنے لگے، لوگو یہ سرکشی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے اس لئے کہ اس کا گناہ تمہارے اوپر ہے دنیا کے چند روزہ مزے ہیں، چند روز لوٹ لو موت کے بعد تم کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم (دنیا میں) کیا کچھ کیا کرتے تھے، پھر ہم تم کو اس کا بدلہ دیں گے اور ایک قراءت میں متاعٌ کے نصب کے ساتھ ہے، (ای تتمتعون متاع الحیٰوۃ الدنیا) دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے پانی برسا جس کی وجہ سے زمین کی پیداوار خوب گھنی ہوگئی، جس میں سے انسان کھاتے ہیں مثلاً گندم، جو وغیرہ، اور جانور کھاتے ہیں مثلاً گھاس وغیرہ، پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی پوری بہار پر تھی یعنی ہریالی کی وجہ سے پر رونق تھی، اور اس کی رونق کی وجہ سے خوب زیبائش ہوگئی (ازّیّنَتْ ) کی اصل تَزَیَّنَیِتْ تھی، تاء کو زاء سے بدل کر زاء کو زاء میں مدغم کردیا پھر اس کے شروع میں ہمزہ وصل کا اضافہ کردیا گیا، اور اس کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم اس (سے فائدہ حاصل کرنے) پر قادر ہیں یعنی اس کے پھلوں (پیداوار) سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں یکایک رات میں یا دن میں ہمارا حکم یعنی فیصلہ یا عذاب اس پر آپڑا تو ہم نے اس کھیتی کو صاف کردیا جیسا کہ درانتی سے کٹی ہوئی کھیتی، ایسی جیسا کہ کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں، اسی طرح کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اور اللہ ایمان کی دعوت دے کر سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور وہ جنت ہے اور وہ جس کی ہدایت چاہتا ہے اس کی صراط مستقیم (یعنی) دین اسلام کی جانب رہنمائی کرتا ہے جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ نیکی کی ان کیلئے خوبی (یعنی) جنت ہے، اور مزید برآں بھی، اور وہ (مزید) اللہ کا دیدار ہے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے، اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت مشقت، یہی لوگ جتنی ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور جن لوگوں نے بدی کی ہوگی اس (الذین) کا عطف اَلذِین اَحسَنُوا پر ہے (تقدیر عبارت) ولِلَّذِیْنَ کَسَبُوا ہے، ان کی بدی کی سزا ان کی بدی کے مثل ہوگی اور ان پر ذلت چھائی ہوگئی ان کو اللہ (کے عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا، مِن زائدہ ہے گویا کہ ان کے چہروں پر سیاہ رات کا ایک حصہ ڈال دیا گیا ہوگا (قطعاً ) طاء کے فتحہ کے ساتھ، قِطَعًا قِطعۃ کی جمع ہے، اور سکون طاء کے ساتھ بمعنی حصہ ہے یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس دن ہم تمام مخلوق کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک بت اپنی جگہ ٹھہرو (مکانکم) الذموا مقدر کی وجہ سے منصوب ہے (انتم) فعل مقدر (الْمزموا) میں ضمیر مستتر کی تاکید ہے تاکہ (ضمیر مستتر) پر عطف درست ہوسکے، تو ہم ان کے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالدیں گے جیسا کہ (آیت) وَامْتَازُوا الیوم ایُّھا المجرمون، میں ہے، اور ان سے وہ شرکاء کہیں گے تم ہماری بندگی نہیں کرتے تھے مَا، نافیہ ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے مفعول (اِیّانا) کو مقدم کردیا گیا ہے، سو ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ کے طور پر اللہ کافی ہے انْ مخففہ عن المثقلہ ہے ای اِنَّا، ہم تو تمہاری اس عبادت سے بالکل بیخبر ہے اس دن ہر شخص اپنے کئے کا مزہ چکھ لے گا تبلوا، بلویٰ ، سے ماخوذ ہے اور ایک قراءت میں دو تاؤں کے ساتھ ہے (اس وقت) یہ تلاوۃ سے ماخوذ ہوگا، اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مولائے حقیقی ہے ثابت و دائم ہے، لوٹائے جائیں گے اور جو جھوٹ انہوں نے شرکاء کے بارے میں گھڑ رکھے تھے غائب ہوجائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَاِذَا اَذقْنَا النَّاسَ ۔۔۔ الی۔۔ اِذَا لَھُمْ مکر فی آیتنا، واو استینا فیۃ اِذا ظرفیۃ متضمن بمعنی شرط، اِذَا لَھُمْ ، جزاءِ شرط ہے اِذَا مفاجاتیہ ہے۔
قولہ : مجازاۃ۔ سوال : مکرٌ کی تفسیر مجازاۃ سے کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ جواب : چونکہ مکر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف مناسب نہیں ہے اسلئے مکر کی تفسیر جزاء مکر سے کی ہے۔
قولہ : السفن، فُلْکٌ کا صیغہ چونکہ مفرد اور جمع کیلئے مشترک ہے اسلئے فُلک کی تفسیر سُفْنٌ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں جمع مراد ہے
قولہ : فیہ التفاتٌ عن الخطاب، سابق میں خطاب کے صیغے استعمال ہوئے ہیں جَرَیْنَ بھم میں غائب کی ضمیر لائی گئی ہے ایسا زیادتی تقبیح کو بیان کرکے کیلئے کیا گیا ہے جَرَیْنَ ماضی جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے وہ چلیں، ہو جاری ہوئیں، متعدی بالیاء کی وجہ سے اس کے معنی ہیں وہ کشتیاں ان کو لے کر چلیں۔
قولہ : ریحٌ، الھَوَاء الْمسخر بین السّماءِ وَالارض، ریح فضاء میں معلق ہوا کو کہتے ہیں (المصباح) رِیحٌ اصل میں رِوْحٌ کو ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے یاء سے بدل دیا رِیحٌ ہوگیا اس کی جمع اَرواحٌ اور رباحٌ آتی ہے ریحٌ مؤنث سماعی ہے۔
قولہ : وظَنَّوا اَنَّھم اُحِیْطَ بِھِمْ اس کا عطف جَاءَھُمْ پر ہے اور اِنَّ اور جو اس کے ماتحت ہے وہ ظَنَّوا کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے اور اُحِیْطَ بِھِمْ أنَّ کی خبر ہے اور جملہ دَعَوْا اللہ الخ ظَنّوا سے بدل الاشتمال ہے اسلئے کہ ان کی دعاء ان کے ہلاکت کے گمان کے لوازم میں سے ہے، اور سوال مقدر کا جواب ہونے کی صورت میں جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے (یعنی) ما ذا صَنَعُوا ؟ قیلَ دَعَوْا اللہ مخلصین لہ الدین۔
قولہ : اصلہ تَزَیَّنَتْ ، باب تَفَعُّلٌ۔ قولہ : زَرْعَھَا۔ سوال : یہاں حذف مضاف سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اگر زرع مضاف محذوف نہ مانا جائے تو نفس ارض کو کاٹنا لازم آئیگا حالانکہ زمین کے کاٹنے کا کوئی مطلب نہیں ہے اسلئے زرع مضاف محذوف مانا، اور اظہار مبالغہ کیلئے مضاف کو حذف کردیا یعنی کھیتی کو کاٹ کر ایسا صاف کردیا گو یا زمین ہی کو کاٹ کر صاف کردیا
قولہ : عطفٌ علی الَّذِیْنَ احسنوا، یہ ان لوگوں کے قول کے مطابق ہے جو فی الدار زید والحجرۃ عمرو کی ترکیب کو جائز کہتے ہیں۔
تفسیر و تشریح
وَاِذَا اَذَقْنَا الناسَ رحمۃ (الآیۃ) یہ اسی سات سالہ خشک سالی کے ابتلاء کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر ابھی آیت نمبر ١١۔ ١٢ میں گذرا ہے جس میں وہ درختوں کے پتے اور سوکھا چمڑا کھانے پر مجبور ہوگئے تھے ضعف اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا اور آسمانوں پر دھواں نظر آنے لگا تھا اور جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اپنے معبودوں سے مایوس ہو کر جن کو مشرکوں نے اللہ کے یہاں سفارشی ٹھہرا رکھا تھا، ابو سفیان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ آکر بارانِ رحمت کی دعا کرائی تھی اور آپ کی دعا کی بدولت ان کی یہ سات سالہ مصیبت دور ہوئی تھی اور جب وہ مصیبت دور ہوگئی تو بجائے اس کے کہ اللہ وحدہ پر ایمان لاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو قبول کرتے اس خشک سالی کی مختلف تاویل و توجیہ کرکے کہنے لگے کہ یہ خشک سالی کوئی نئی بات نہیں ہے خشک سالی تو دنیا میں کہیں نہ کہیں ہوتی ہی رہتی ہے اور ہمارے یہاں بھی اس سے پہلے بارہ خشک سالی ہوئی ہے البتہ اتنی بات ہے کہ اس مرتبہ ذرا طویل ہوگئی، مشرکین کی اسی حرکت کو مکرو چالبازی سے تعبیر کیا ہے۔
قُل اللہ اسرع مکراً ، عربی لغت کے اعتبار سے مکر خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی یہاں اردو محاورہ کا مکر مراد نہیں ہے جو کہ دھوکہ اور فریب کو کہتے ہیں، جس سے حق تعالیٰ بری ہے، بلکہ یہاں جزاء مکر مراد ہے اور وہ اس طرح کہ اگر تم اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے گا اور جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشہ زندگانی تمہیں یوں ہی مست رکھے گا، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے حتی کہ اچانک موت کا پیغام آجائیگا اور تم اپنے کرتوتوں کا حساب دینے کیلئے گرفتار کرلیے جاؤ گے
وَاللہ یدعوآ الی دار السلام، یہاں دار السلام سے مراد جنت ہے جنت کو دار السلام اسلئے کہا گیا ہے کہ وہاں سلامتی ہی سلامتی ہے نہ وہاں کسی قسم کا غم اور نہ تکلیف نہ بیماری کا خطرہ اور نہ موت کا غم جنت کا دار السلام نام رکھنے کی ایک دوسری وجہ احادیث میں یہ بھی وارد ہوئی ہے کہ جنتیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیز فرشتوں کی طرف سے سلام پہنچتا رہے گا۔
جنت میں خدا کا دیدار : لِلَّذِیْن اَحسنوا الحسنیٰ وزیادۃ، زیادۃ سے مراد حق تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو حاصل ہوگا، صحیح مسلم میں حضرت صہیب کی روایت سے منقول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں داخل ہوجائیں گے تو حق تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ کیا تمہیں اور کسی چیز کی ضرورت ہے ؟ اگر ہو تو بتلاؤ ہم اسے پورا کریں گے، اہل جنت جواب دیں گے کہ آپ نے ہمارے چہرے روشن کئے، ہمیں جنت میں داخل فرمایا، جہنم سے نجات دی، اس سے زیادہ اور کیا چیز طلب کریں ؟ اس وقت درمیان سے حجاب اٹھا دیا جایئگا اور سب اہل جنت حق تعالیٰ کا دیدار کریں گے، تب معلوم ہوگا کہ جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نععمت بھی جس کی طرف ان کا دھیان بھی نہیں گیا تھا جو رب العلمین نے محض اپنے فضل و کرام سے بےمانگے عطا فرمائی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ﴾ ” اور جب چکھائیں ہم لوگوں کو مزا اپنی رحمت کا، ایک تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچی تھی“ مثلاً مرض کے بعد صحت، تنگ دستی کے بعد فراخی اور خوف کے بعد امن، تو وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں کیا تکلیف پہنچی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فراخی اور اس کی رحمت کا اس کا شکر ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی سازشوں اور سرکشی پر جمے رہتے ہیں۔
بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ﴾ ’’اسی وقت بنانے لگیں وہ حیلے ہماری آیتوں میں“ یعنی وہ باطل میں کوشاں رہتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو باطل ثابت کریں ﴿قُلِ اللَّـهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ حیلے بنانے (تدبیر کرنے) میں زیادہ تیز ہے“ کیونکہ بری چالوں کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ ان کے برے مقاصد انہی پر پلٹ جاتے ہیں اور وہ برے انجام سے محفوظ نہیں رہتے، بلکہ فرشتے ان کے اعمال لکھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو محفوظ کرلیتا ہے پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur insanon ka haal yeh hai kay jab unn ko phonchney wali kissi takleef kay baad hum unn ko rehmat ka maza chakhatay hain to zara si dair mein woh humari nishaniyon kay baaray mein chaalbaazi shuroo ker-detay hain . keh do kay : Allah iss say bhi jaldi koi chaal chal sakta hai . yaqeenan humaray farishtay tumhari sari chaalbaaziyon ko likh rahey hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
احسان فراموش انسان
انسان کی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ اسے سختی کے بعد کی آسانی، خشک سالی کے بعد کی ترسالی، قحط کے بعد کی بارش اور بھی ناشکرا کردیتی ہے یہ ہماری آیتوں سے مذاق اڑانے لگتا ہے۔ کیا تو اس وقت ہماری طرف ان کا جھکنا اور کیا اس وقت ان کا اکڑنا۔ رات کو بارش ہوئی، صبح کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی، پھر پوچھا جانتے بھی ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ صحابہ نے کہا ہمیں کیا خبر ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہوجائیں گے اور بہت سے کافر۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہوجائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہوجائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے۔ یہاں فرماتا ہے کہ جیسے یہ چالبازی ان کی طرف سے ہے۔ میں بھی اس کے جواب سے غافل نہیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں۔ یہ اسے غفلت سمجھتے ہیں پھر جب پکڑ آجاتی ہے تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔ میں غافل نہیں۔ میں نے تو اپنے امین فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو ان کے کرتوت برابر لکھتے جا رہے ہیں۔ پھر میرے سامنے پیش کریں گے میں خود دانا بینا ہوں لیکن تاہم وہ سب تحریر میرے سامنے ہوگی۔ جس میں ان کے چھوٹے بڑے بڑے بھلے سب اعمال ہوں گے۔ اسی اللہ کی حفاظت میں تمہارے خشکی اور تری کے سفر ہوتے ہیں۔ تم کشتیوں میں سوار ہو، موافق ہوائیں چل رہی ہیں۔ کشتیاں تیر کی طرح منزل مقصود کو جا رہی ہیں تم خوشیاں منا رہے ہو کہ یکایک باد مخالف چلی اور چاروں طرف سے پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سمندر میں تلاطم شروع ہوگیا۔ کشتی تنکے کی طرح جھکولے کھانے لگی اور تمہارے کلیجے الٹنے لگے۔ ہر طرف سے موت نظر آنے لگی، اس وقت سارے بنے بنائے معبود اپنی جگہ دھرے رہ گئے اور نہایت خشوع وخضوع سے صرف مجھ سے دعائیں مانگیں جانے لگیں وعدے کئے جانے لگے کہ اب کے اس مصیبت سے نجات مل جانے کے بعد شکر گزاری میں باقی عمر گزار دیں گے، توحید میں لگے رہیں گے کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے، آج سے خالص توبہ ہے۔ لیکن ادھر نجات ملی، کنارے پر اترے، خشکی میں چلے پھرے کہ اس مصیبت کے وقت کو اس خالص دعا کو پھر اقرار شکر و توحید کو یکسر بھول گئے اور ایسے ہوگئے گویا ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ ہم سے کبھی معاملہ ہی نہ پڑا تھا۔ ناحق اکڑفوں کرنے لگے، مستی میں آگئے۔ لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم پر ہی ہے۔ تم اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں وہ گناہ جس پر یہاں بھی اللہ کی پکڑ نازل ہو اور آخر میں بھی بدترین عذاب ہو فساد و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ تم اس دنیائے فانی کے تھوڑے سے برائے نام فائدے کو چاہے اٹھالو لیکن آخر انجام تو میری طرف ہی ہے۔ میرے سامنے آؤ گے میرے قبضے میں ہوگے۔ اس وقت ہم خود تمہیں تمہاری بد اعمالیوں پر متنبہ کریں گے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیں گے لہذا اچھائی پاکر ہمارا شکر کرو اور برائی دیکھ کر اپنے سوا کسی اور کو ملامت اور الزام نہ دو ۔