وہی ہے جو تمہیں خشک زمین اور سمندر میں چلنے پھرنے (کی توفیق) دیتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے ہو اور وہ (کشتیاں) لوگوں کو لے کر موافق ہوا کے جھونکوں سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں تو (ناگہاں) ان (کشتیوں) کو تیز و تند ہوا کا جھونکا آلیتا ہے اور ہر طرف سے ان (سواروں) کو (جوش مارتی ہوئی) موجیں آگھیرتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ (اب) وہ ان (لہروں) سے گھر گئے (تو اس وقت) وہ اللہ کو پکارتے ہیں (اس حال میں) کہ اپنے دین کو اسی کے لئے خالص کرنے والے ہیں (اور کہتے ہیں: اے اللہ!) اگر تو نے ہمیں اس (بَلا) سے نجات بخش دی تو ہم ضرور (تیرے) شکر گزار بندوں میں سے ہوجائیں گے،
English Sahih:
It is He who enables you to travel on land and sea until, when you are in ships and they sail with them by a good wind and they rejoice therein, there comes a storm wind and the waves come upon them from every place and they expect to be engulfed, they supplicate Allah, sincere to Him in religion, "If You should save us from this, we will surely be among the thankful."
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ “اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے"
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے کہ تمہیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انھیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے ان پر آندھی کا جھونکا آیا اور ہر طرف لہروں نے انہیں آلیا اور سمجھ لے کہ ہم گِھر گئے اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں نرے اس کے بندے ہوکر، کہ اگر تو اس سے ہمیں بچالے گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے
3 Ahmed Ali
وہ وہی ہے جو تمہیں جنگل اور دریا میں سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو اور وہ کشتیاں لوگو ں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کرچلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں تیز ہوا چلتی ہے اور ہر طرف سے ان پر لہریں چھانے لگتی ہیں اور و ہ خیال کرتے ہیں کہ بےشک وہ لہروں میں گھر گئے ہیں تو سب خالص اعتقاد سے الله ہی کو پکارنے لگتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچادے تو ہم ضرور شکر گزار رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے (١) یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے (٢) (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں (٣) کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔
٢٢۔١ یسیرکم وہ تمہیں چلاتا یا چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے ' خشکی میں ' یعنی اس نے تمہیں قدم عطا کئے جن سے تم چلتے ہو، سواریاں مہیا کیں، جن پر سوار ہو کر دور دراز کے سفر کرتے ہو ' اور سمندر میں ' یعنی اللہ نے تمہیں کشتیاں اور جہاز بنانے کی عقل اور سمجھ دی، تم نے وہ بنائیں اور ان کے ذریعے سے سمندر کا سفر کرتے ہو۔ ٢٢۔٢ جس طرح دشمن کسی قوم یا شہر کا احاطہ یعنی محاصرہ کر لیتا ہے اور وہ دشمن کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھر جاتے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آتی ہے۔ ٢٢۔٣ یعنی پھر وہ دعا میں غیر اللہ کی ملاوٹ نہیں کرتے جس طرح عام حالات میں کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ بھی اللہ کے بندے ہیں، انہیں بھی اللہ نے اختیارات سے نواز رکھا ہے اور انہی کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح شدائد میں گھر جاتے ہیں تو یہ سارے شیطانی فلسفے بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ یاد رہ جاتا ہے اور پھر صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی فطرت میں اللہ واحد کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ماحول سے متاثر ہو کر اس جذبے یا فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن مصیبت میں یہ جذبہ ابھر آتا ہے اور یہ فطرت عود کر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ توحید، فطرت انسانی کی آواز اور اصل چیز ہے، جس سے انسان کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انحراف فطرت سے انحراف جو سراسر گمراہی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مشرکین، جب اس طرح مصائب میں گھر جاتے تو وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے بجائے، صرف ایک اللہ کو پکارتے تھے چنانچہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح کیا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے، تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی۔ جس پر ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اللہ واحد سے دعا کرو، تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے سوچا اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے۔ اور یہی بات محمد کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں فیصلہ کر لیا اگر یہاں سے میں زندہ بچ کر نکل گیا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کرلوں گا۔ چنانچہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے، لیکن افسوس! امت محمدیہ کے عوام اس طرح شرک میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شدائد و آلام میں بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے فوت شدہ بزرگوں کو ہی مشکل کشا سمجھتے اور انہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں
6 Muhammad Junagarhi
وه اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وه کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وه لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وه سمجھتے ہیں کہ (برے) آ گھرے، (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچالے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ (خدا) وہی ہے جو تمہیں خشکی و تری میں سیر و سفر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ موافق ہوا کے مطابق مسافروں کو لے کر چلتی ہیں اور وہ خوش و خرم ہوتے ہیں تو پھر اچانک بادِ مخالف کا تھپیڑ آجاتا ہے اور ہر طرف سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہم بالکل گھر گئے ہیں (اور زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی) تو اس وقت دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے یعنی بڑے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں کہ (یا اللہ) اگر تو ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ خدا وہ ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں تھے اور پاکیزہ ہوائیں چلیں اور سارے مسافر خوش ہوگئے تو اچانک ایک تیز ہوا چل گئی اور موجوں نے ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا اور یہ خیال پیدا ہوگیا کہ چارں طرف سے کَھرگئے ہیں تو دین خالص کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے لگے کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو ہم یقینا شکر گزاروں میں ہوجائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے ہو اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں سے) سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی کی عبادت کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور تنگ دستی کے بعد فراخی کے وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، تو اب ان کی اس حالت کا ذکر فرماتا ہے جو اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ ان کی وہ حالت ہے جب وہ سمندر کے اندر سفر کرتے ہیں اور سمندر سخت جوش میں ہوتا ہے اور ان کو اس کے انجام کا خوف ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ” وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی اور سمند میں“ یعنی ان اسباب کے ذریعے سے جو اس نے تمہیں مہیا کئے ہیں اور ان کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ﴿حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ ﴾ ” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو“ یعنی بحری جہازوں میں ﴿وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ﴾ ‘‘‘ اور لے کر چلیں وہ ان کو اچھی ہوا سے“ یعنی کے ہوا جو ان کی خواہش کے موافق بغیر کسی مشقت اور گھبراہٹ کے ان جہازوں کو چلاتی ہے ﴿وَفَرِحُوا بِهَا﴾ ” اور وہ خوش ہوں ساتھ ان کے“ اور ان ہواؤں پر نہایت مطمئن ہوتے ہیں اور وہ اسی حال میں ہوتے ہیں کہ ﴿جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ﴾ ” اچانک زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے“ یعنی کشتیوں پر سخت ہو آئی ﴿وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ﴾ ” اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور انہوں نے جا ن لیا کہ وہ گھر گئے“ یعنی انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کی ہلاکت یقینی ہے، تب اس وقت مخلوق سے ان کے تمام تعلق منقطع ہوجاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مصیبت اور سختی سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب اس وقت ﴿دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” وہ دین کو اللہ کیلئے خالص کر کے اسی کو پکارتے ہیں“ اور الزامی طور پر اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں ﴿ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ ”اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے تو ہم تیرے شکر گزار ہوجائیں گے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
woh Allah hi to hai jo tumhen khushki mein bhi aur samandar mein bhi safar kerata hai , yahan tak kay jab tum kashtiyon mein sawar hotay ho , aur yeh kashtiyan logon ko ley ker khushgawar hawa kay sath paani per chalti hain , aur log iss baat per magan hotay hain to achanak unn kay paas aik tez aandhi aati hai , aur her taraf say unn per mojen uthti hain , aur woh yeh samajh letay hain kay woh her taraf say ghir gaye , to uss waqt woh khuloos kay sath sirf Allah per aetiqaad ker kay sirf ussi ko pukartay hain , ( aur kehtay hain kay : ) ( ya Allah ! ) agar tu ney hamen iss ( museebat say ) nijat dey di to hum zaroor bil-zaroor shukar guzaar logon mein shamil hojayen gay . "