وہ بولے! اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بیشک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہو،
English Sahih:
They said, "O Shuaib, does your prayer [i.e., religion] command you that we should leave what our fathers worship or not do with our wealth what we please? Indeed, you are the forbearing, the discerning!"
1 Abul A'ala Maududi
انہوں نے جواب دیا "اے شعیبؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پر ستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے!"
2 Ahmed Raza Khan
بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو،
3 Ahmed Ali
انہوں نے کہا اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ باپ دادا پوجتے تھے یا اپنے مالوں میں اپنی خواہش کے مطابق معاملہ نہ کریں بے شک تو البتہ بردبار نیک چلن ہے
4 Ahsanul Bayan
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ (١) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں (٢) تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے (٣)۔
٨٧۔١ صَلَوٰۃً سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔ ٨٧۔٢ اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰ ۃ و صدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔ ٨٧۔٣ حضرت شعیب علیہ السلام کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم ان کو ترک کر دیں یا اپنے مال میں تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو
6 Muhammad Junagarhi
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاة تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ان لوگوں نے کہا اے شعیب(ع)! کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے یا اپنے اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں؟ بس تم ہی عاقل و بردبار اور نیکوکار آدمی ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں نے طنز کیا کہ شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
انہوں نے کہا شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم انکو ترک کردیں۔ یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ﴾ ” انہوں نے کہا، اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے“ یہ بات انہوں نے اپنے نبی سے تمسخر کرتے ہوئے اور ان کی دعوت کے قبول کرنے کو بعید سمجھتے ہوئے کہی تھی۔ ان کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ تو ہمیں ان باتوں سے صرف اس لئے منع کرتا ہے کہ نماز پڑھتا ہے اور اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر یہ معاملہ ہے، تو کیا ہم ان معبودوں کی عبادت، جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، محض تیرے قول پر چھوڑ دیں، جس پر کوئی دلیل نہیں؟ سوائے اس کے کہ وہ تیری خواہش کے موافق ہے۔ پس ہم اپنے عقل مند آباؤ اجداد کو چھوڑ کر تیری اتباع کیسے کرسکتے ہیں؟ اسی طرح تمہارا ہمیں یہ کہنا ﴿أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ﴾ ” یا چھوڑ دیں ہم کرنا اپنے مالوں میں جو چاہیں“ یعنی تو جو کہتا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے موافق تصرف نہ کری، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق ماپ اور تول کو پورا کریں اور مال میں جو حقوق واجبہ ہیں، انہیں ادا کریں۔ ہم ایسا نہیں کریں گے، بلکہ ہم اپنے اموال کے بارے میں جو چاہیں گے کرتے رہیں گے، کیونکہ یہ ہمارے اموال ہیں ان میں تصرف کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ بنا بریں انہوں نے از راہ تمسخر کہا ! ﴿إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ ﴾ ” تو تو بڑا بردباد اور راست باز ہے۔“ یعنی تو تو وہ شخص ہے کہ حکم و وقار تیرا اخلاق ہے، رشد وہدایت تیری عادت ہے، رشد و ہدایت کے سوا تجھ سے کچھ صادر نہیں ہوتا، تو رشد و ہدایت کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا اور تو گمراہی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا۔۔۔ یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ شعیب علیہ السلام اس سے برعکس حماقت اور گمراہی کے اوصاف سے متصف ہیں۔۔۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم تو حلیم و رشید ہو اور ہمارے آباؤ اجداد احمق اور گمراہ ؟ اور یہ قول جس کی انہوں نے تمسخر اور استہزاء کے طریقے سے تخریج کرکے معاملے کو شعیب علیہ السلام کو قول کے برعکس ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ایسے نہیں جیسے وہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ معاملہ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں۔ بے شک شعیب علیہ السلام کی نماز انہیں حکم دیتی ہے کہ وہ انہیں ان باطل معبودوں کی عبادت سے روکیں جن کی عبادت ان کے گمراہ آباؤ اجداد، کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے اموال میں ویسے ہی تصرف کریں گے جیسے ہم چاہیں گے۔۔۔ کیونکہ نماز خود فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت سے بڑھ کر کونسا کام برا اور فحش ہوتا ہے اور اس شخص سے بڑھ کر کون فحش کاموں کا ارتکاب کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے یا ناپ تول میں کمی کرکے ان کے مال کو چرا لیتا ہے اور شعیب علیہ السلام کا وصف تو حلم و رشد ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh kehney lagay : aey shoaib ! kiya tumhari namaz tumhen yeh hukum deti hai kay humaray baap dada jinn ki ibadat kertay aaye thay , hum unhen bhi chorr den , aur apney maal o dolat kay baaray mein jo kuch hum chahen , woh bhi naa keren ? waqaee tum to baray aqal mand , naik chalan aadmi ho !
12 Tafsir Ibn Kathir
پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار حضرت اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں۔ حضرت حسن فرماتے ہیں واللہ واقعہ یہی ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں۔ ثوری فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں ؟ نبی اللہ کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا۔