الاخلاص آية ۱
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۚ
طاہر القادری:
(اے نبئ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے،
English Sahih:
Say, "He is Allah, [who is] One,
1 Abul A'ala Maududi
کہو، وہ اللہ ہے، یکتا
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے
3 Ahmed Ali
کہہ دووہ الله ایک ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالٰی ایک (ہی) ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے رسول کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ وہ (ذات پاک ہے جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے رب کے کے بارے میں سوال کیا گیا تو قل ھو اللہ احد نازل ہوئی، کہو وہ اللہ یکتا ہے، اللہ، ھو کی خبر ہے اور احد اس سے بدل ہے یا (مبتداء) کی خبر ثانی ہے، اللہ بےنیاز ہے یہ مبتدا خبر ہیں یعنی وہ حاجتوں میں ہمیشہ مقصود ہے، نہ اس کی کوئی اولاد مجانست کے منتقی ہونے کی وجہ سے نہ وہ کسی کی اولاد اس سے حدوث کے منتفی ہونے کی وجہ سے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے یعنی ہمسر اور مماثل نہیں، لہ کفواً سے متعلق ہے، لہ کو کفواً پر مقدم کردیا گیا ہے، اس لئے کہ وہی (ماثل سے) مقصود بالنفی ہے اور احد کو جو کہ یکن کا اسم ہے اس کی خبر سے مئوخر کردیا گیا ہے فو اصل کی رعایت کی وجہ سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سورة اخلاص، اس سورت کے متعدد نام ہیں اور کثرت اسماء شرف مسمی پر دلالت کرتے ہیں، صاوی (رح) تعالیٰ نے اس کے بیس نام شمار کرائے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں، سورة التفرید، سورة التجرید، سورة التوحید، سورة الاخلاص، سورة التحیات، سورة الولایۃ، سورة النسبۃ، سورة المعرفۃ، سورة الجمال، سورة المقشقشۃ ، (تلک عشرۃ کاملۃ)
قولہ : قل ھو اللہ احد اس کی ترکیب میں چند صورتیں ہیں، (١) ھو ضمیر شان مفسر مبتداء اور لالہ الصمد مفسر جملہ ہو کر خبر (٢) ھو مبتداء اول، اللہ مبتدا ثانی اور احد مبتدا ثانی کی خبر، مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر مبتداء اول کی خبر، اس صورت میں ھو کا مرجع ہوہ ہے جو سابق میں مذکور ہوا، اس لئے کہ قل ھو اللہ احد، مشرکین کے سوال یا محمد ! انب لنا ربک، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہم سے اپنے رب کا نسب بیان کر، کے جواب میں ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ، ھو سے بدل ہو۔
قولہ : اللہ الصمد، اللہ مبتداء الصمد اس کی خبر، الصمد یا میصمد الیہ فی الحاجات کو کہا جاتا ہے یعنی حاجتوں میں جس کی جانب قصد کیا جائے، فعل (یصمد) آتا ہے، مصدر بمعنی مفعول (مصمود) ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة اخلاص کی فضیلت :
یہ سورت اگرچہ بہت مختصر ہے، مگر بڑے فضائل کی حامل ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ثلث قرآن قرار دیا یہع۔
شان نزول :
مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا نسب بیان کرو تب یہ سورت نازل ہوئی۔ (مسند احمد)
قل ھو اللہ احد اس حکم کے مخاطب اولین تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب کون ہے اور کیسا ہے ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سوال کے جواب میں اللہ احد کہیں، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے، اسے بھی وہی بات کہنا چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا تھا۔
لفظ قل، اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی طرف اشارہ ہے کہ ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا حکم ہو رہا ہے اور اللہ اس ذات کا نام ہے جو واجب الوجود اور تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے، احد اور واحد کا ترجمہ تو ایک ہی کیا جاتا ہے، مگر مفہوم کے اعتبار سے احد کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ترکیب و تحلیل، تعدد اور تجزیہ اور کسی شئی کی مشابہت و مشابہت مشاکلت سے پاک ہے یعنی وہ ایک یا متعدد مادوں سے نہیں بنا ہے اور نہ اس میں تعدد کا کوئی امکان ہے، اس کے سوا دنیا کی ہر شئی جفت اور طاق ہے، یہ جواب ہوگیا ان لوگوں کا جو اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ سونے چاندی کا ہے یا کسی جوہر کا ؟ اس ایک مختصر جملہ میں ذات وصفات کے سب مباحث آگئے۔
اللہ الصمد لفظ صمد کے معنی میں بڑی وسعت ہے، اس کے بہت سے معنی ہوسکتے ہیں اور وہ سب صحیح ہیں، لیکن اصل معنی صمد کے ہیں وہ ذات کہ لوگ اپنی حاجات اور ضروریات میں جس کی طرف رجوع کریں اور جو بڑائی اور سرداری میں ایسا ہو کہ اس سے کوئی بڑا نہیں، خلاصہ یہ کہ سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قُلْ﴾ یعنی اس حقیقت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کے معنی کو جانتے ہوئے حتمی طور پر کہہ دیجئے : ﴿ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ وہ اللہ ایک ہی ہے ، یعنی وحدانیت اس کی ذات میں منحصر ہے۔ وہ ہر قسم کے کمال میں احد اور منفرد ہے جو اسمائے حسنیٰ صفات کاملہ وعالیہ افعال مقدسہ کا مالک ہے جس کی کوئی نظیر ہے نہ مثیل۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do : baat yeh hai kay Allah her lehaz say aik hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭ اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے، حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں جس کا کوئی وزیر نہیں جس کا کوئی شریک نہیں جس کا کوئی ہمسر نہیں جس کا کوئی ہم جنس نہیں جس کا برابر اور کوئی نہیں جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبانہ و تعالیٰ سب پر الب ہے اور اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بینظیر ہے، صمد کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں صمد وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ صمد کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر کی روایت سے حضرت ابی بن کعب سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گذرا اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ صمد کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ صمد میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو، لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔ حافظ ابو القاسم طبراین (رح) اپنی کتاب " السنہ " میں لفظ صمد کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ درصال یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردر اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے نہ وہ کھوکھلا ہے نہ وہ کھائے نہ پئے سب فانی ہے اور وہ باقی ہے وغیرہ۔ پھر فرمایا اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے
یعنی وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہوگی ؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے : یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہوگا ؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے جیسے اور جگہ فرمایا وقالو اتحذا الرحمٰن ولدا الخ، یعنی یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گرپڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں اور جگہ ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 26ۙ ) 21 ۔ الأنبیاء :26) ، یعنی ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں اور جگہ ہے وجعلوا بینہ وبین الجنتہ نسبتاً الخ، یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے۔ بخاری کی اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں ؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور احلمد اللہ سورة اخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔