یوسف آية ۱۰۵
وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ
طاہر القادری:
اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں،
English Sahih:
And how many a sign within the heavens and earth do they pass over while they, therefrom, are turning away.
1 Abul A'ala Maududi
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے
2 Ahmed Raza Khan
اور کتنی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں کہ اکثر لوگ ان پر گزرتے ہیں اور ان سے بے خبر رہتے ہیں،
3 Ahmed Ali
اور آسمانوں اور زمین میں بہتی سی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ گزرتے ہیں اوران سے منہ پھیر لیتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن سے یہ منہ موڑے گزر جاتے ہیں (١)۔
١٠٥۔١ آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک خالق و صانع ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا ایسا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں کبھی آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہیں ہوا لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گزر جاتے ہیں ان پر غو و فکر کرتے ہیں اور نہ ان سے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان سے اعراض کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن سے یہ منھ موڑے گزر جاتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کے وجود اور اس کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں موجود ہیں مگر یہ لوگ ان سے روگردانی کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں (اور کوئی توجہ نہیں کرتے)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور زمین و آسمان میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے لوگ گزر جاتے ہیں اور کنارہ کش ہی رہتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور آسمان اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں۔ اور ان سے اعراض کرتے ہیں۔
آیت نمبر ١٠٥ تا ١١١
ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں خدا کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی بیشمار نشانیاں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے منہ موڑ کر گذر جاتے ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتے اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان رکھنے یعنی اس کو خالق و رازق تسلیم کرنے کے باوجود بتوں کی بندگی کرکے مشرک ہیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے تلبیہ میں کہا کرتے تھے لبیک لاشریک لک الاشریکا ھو لک تملکہ وما ملک (ترجمہ) ہم تیرے حضور میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے کہ اس کا تو مالک ہے اور اس کا بھی تو مالک ہے جس کا وہ مالک ہے اور وہ الا شریکا سے اصنام مراد لیتے تھے، کیا وہ اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان پر اللہ کے عذابوں میں سے کوئی چھا جانے والا عذاب آجائے یا ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے اور وہ پہلے سے اس کے آنے کا احساس نہ کرسکیں، آپ ان سے کہہ دو یہ ہے میرا طریقہ اور طریقہ کی تفسیر اپنے قول ادعوا الی اللہ الخ سے کی ہے، کہ میں اور میری اتباع کرنے والے جو مجھ پر ایمان لائے ہیں اللہ کے دین کی طرف علی وجہ البصیرت حجۃ واضحہ کے ساتھ دعوت دیتے ہیں من کا عطف، أنا مبتداء پر ہے جس کی خبر اس کا ماقبل (یعنی علی وجہ البصیرۃ) ہے اور اللہ پاک ہے وہ شریک کے نقص سے بری ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں یہ بھی آپ کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، آپ سے پہلے بستی والوں میں ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب مرد ہی تھے نہ کہ فرشتے (اور عورت) ایک قراءت میں (نوحی) نون اور حاء مک سورة کے ساتھ ہے، یعنی شہروں کے رہنے والے تھے، اسلئے کہ شہری بہ نسبت بدویوں کے زیادہ جاننے والے اور زیادہ بردبار ہوتے ہیں، نہ کہ باد یہ نشین اپنے جہل و ظلم کی وجہ سے، کیا مکہ والوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا ؟ کہ ان سے پہلے والوں کا ان کے اپنے رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے کیسا انجام ہوا ؟ ان کو ہلاک کرکے یقیناً آخرت کا گھر یعنی جنت اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے بہت ہی بہتر ہے اے اہل مکہ ! کیا تم اسے سمجھتے نہیں ہو کہ ایمان لے آؤ (یعقلون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے حتی اس کی غایت کیلئے ہے جس پر وما ارسلنا من قبلک الا رجالا دلالت کرتا ہے، یعنی ان کی نصرت مؤخر ہوگئی، یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور رسولوں نے یقین کرلیا کہ ان کو جھٹلایا گیا (کذبوا کے ذال کی) تشدید کے ساتھ ایسی تکذیب کہ اسکے بعد ایمان (کی توفیق) نہیں اور (ذال) کی تخفیف کے ساتھ بھی، یعنی امتوں نے گمان کرلیا کہ رسولوں نے اس نصرت کی وعدہ خلافی کی جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا، تو انکے پاس ہماری نصرت آپہنچی تو جس کو ہم چاہتے ہیں نجات دیتے ہیں (ننجی) دو نونوں اور جیم مشدد کے ساتھ ہے اور جیم کی تخفیف کے ساتھ (بھی ہے) اور ایک نون اور جیم مشدد کے ساتھ ماضی مجھول کا صیغہ، اور ہمارا عذاب مشرکوں سے ہٹایا نہیں جائے گا، بلاشبہ ان رسولوں کے قصوں میں عقلمندوں کیلئے عبرت ہے یہ قرآن گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ سابقہ کتب کی تصدیق ہے، اور ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے اور ایمان لانے والوں کیلئے رحمت ہے (مومنین) کا ذکر خاص طور پر اسلئے ہے کہ وہی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کَاَیّن، یہ دراصل کای تھا تنوین کو نون سے بدل دیا کاین ہوگیا یہ کاف تشبیہ اور أی سے مرکب ہے، یہ اکثر کم خبر یہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو تکثیر کے معنی دیتا ہے مثلا کأی من رجل رأیت میں نے بہت سے آدمی دیکھے، اور کبھی کبھی استفہام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے معلوم کیا کأی تقر أسورۃ الاحزاب تم نے سورة احزاب کتنی مرتبہ پڑھی، کاین مبتداء ہے اور من آیۃ تمیز مجرور بمن ہے۔
قولہ : فی السموات والارض آیۃ کی صفت ہے۔
قولہ : یمرون علیھا جملہ ہو کر کأین کی خبر ہے اور وھم عنھا معرضون جملہ ہو کر یمرون کی ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : المخبر عنہ بما قبلہ، أنا اور من مبتداء مؤخر اور علی بصیرۃ خبر مقدم، کما صرح المفسر۔
قولہ : بخلاف اھل البواد اس میں اشارہ کہ اھل القری سے شہروں کا مقابل مراد ہے لہٰذا اب یہ اعتراض وارد نہ ہوگا کہ انبیاء زیادہ تر شہر ہی میں مبعوث ہوئے ہیں۔
قولہ : یئس استیئس میں (س ت) طلب کیلئے نہیں ہے۔
قولہ : تکذیبالا ایمان بعدہ، اس میں اس شبہ کا جواب ہے کہ تکذیب تو پہلے ہی سے مو جود تھی یعنی اب ایسی تکذیب کردی کہ اس کے بعد ایمان کی توقع ختم ہوگئی اور ظنوا کا ترجمہ ایقن الرسل، قد کُذِّبوْآ کی تشدید کی صورت میں ہوگا اور تخفیف کی صورت میں ظنوا اپنے معنی پر ہوگا۔
قولہ : فننجی جیم کی تشدید کے ساتھ، تَنْجیۃٌ (تفعیل) سے ہم بچا لیتے ہیں، فَنُنْجِی مخففا (افعال) مضارع جمع متکلم، نجی ماضی مجھول
واحد مذکر غائب (تَنْجیۃ تفعیل) سے اسکو بچایا گیا (مشددا) کا تعلق ہر قراءت میں جیم کیساتھ ہے، ماضی مجھول کی صورت میں من نشاء نائب فاعل ہوگا پہلی دونوں صورتوں میں مفعول بہ ہوگا، بعض حضرات نے مشددا کو نون کی صفت قرار دیا ہے جو کہ سہو ہے۔
تفسیر و تشریح
وکاین۔۔۔ الخ، آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خالق اور صانع ایک ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں آپس میں کبھی ٹکراؤ و تصادم نہیں ہوتا، لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گذر جاتے ہیں نہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ان سے رب کی معرفت حاصل کرتے ہیں، یہ ایسے لوگوں کا بیان تھا جو خدا تعالیٰ کے وجود اور اسکی حکمت وقدرت ہی کے قائل نہیں تھے، آگے ان لوگوں کا بیان ہے کہ جو وجود باری کے قائل تو ہیں مگر اس کی خدائی میں دوسروں کو شریک قرار دیتے ہیں، فرمایا۔
وما یؤمن۔۔۔۔ مشرکون، یعنی ان میں جو ایمان لاتے ہیں وہ بھی شرک کے ساتھ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت وغیرہ اوصاف میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو سراسر ظلم اور جہل ہے، قرآن اس کو بوضاحت بیان کرتا ہے کہ یہ مشرکین یہ تو مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خالق ومالک، و رازق و مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہراتے ہیں آج کے قبر پرستوں کا بھی شرک یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفات الوہیت کا حامل سمجھ کر انھیں مدد کے لئے پکارتے ہیں۔
امام المفسرین ابن کثیر نے فرمایا، کہ اس آیت کے مفہوم میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں کہ جو ایمان کے باوجود مختلف قسم کے شرک میں مبتلا ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تم پر جس چیز کا خطرہ ہے ان سب میں سب سے زیادہ خطرناک شرک اصغر ہے، صحابہ کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ ریا شرک اصغر ہے اسی طرح ایک حدیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی منت اور نذر و نیاز ماننا بھی باتفاق فقہا اس میں داخل ہے۔
وما ارسلنا۔۔۔ الخ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ تمام نبی مرد ہی ہوئے ہیں نہ فرشتے اور نہ عورت، اسی طرح انبیاء کا مقام بعثت قریہ تھا جو قصبہ دیہات اور شہر کو شامل ہے ان میں سے کوئی بھی صحراء نشینوں میں سے نہیں تھا اسلئے کہ اہل بادیہ نسبۃ طبیعت کے سخت اور اخلاق کے کھردرے ہوتے ہیں، یہ خیال بےبنیاد اور لغو ہے کہ اللہ کا رسول فرشتہ ہونا چاہیے نہ کہ انسان بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے انسانوں کا رسول ہمیشہ انسان ہی ہوتا چلا آیا ہے، البتہ عام انسانوں سے اس کو امتیاز حاصل ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی طرف بارگاہ الہٰی کی طرف سے براہ راست وحی آتی ہے، نبوت کسی کی سعی و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتی، البتہ اللہ خود ہی اپنے بندوں میں سے جس کو مناسب سمجھتا ہے اس کام کیلئے منتخب کرلیتا ہے۔
حتی اذا۔۔۔۔ الخ رسولوں کو یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان نہ لانے سے ہوئی۔
وظنوا۔۔۔ الخ اس آیت کی مختلف قراءتوں کی وجہ سے اس آیت کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں لیکن زیادہ مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظنوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار نے جب دیکھا کہ رسولوں نے جس عذاب کی دھمکی دی تھی جب اس کے آنے میں تاخیر ہوئی اور اس کے آنے کے آثار بھی دور دور تک نظر نہ آئے تو کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے اس آیت میں لفظ کذبوا مشہور قراءت کے مطابق پڑھا گیا، مطلب یہ ہوگا کہ عذاب موعود کے آنے میں بہت زیادہ تاخیر ہونے کی وجہ سے پیغمبر یہ خیال کرکے مایوس ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کے اجمالی وعدۂ عذاب کا جوا وقت ہم نے اپنے اندازہ کے مطابق اپنے ذہنوں میں مقرر کر رکھا تھا وقت پر عذاب نہ آئیگا اور وعدۂ الہٰی کا وقت مقرر کرنے میں ہم سے غلط فہمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مایوسی ہوئی، اسی مایوسی کی حالت میں ان کو ہماری مدد پہنچی اور وہ یہ کہ وعدہ کے مطابق کفار پر عذاب آیا، پھر ہم نے اس عذاب سے مومنین کو بچا لیا اور کفار ہلاک ہوگئے اسلئے کہ ہمارا عذاب مجرموں سے ہٹایا نہیں جاتا، بلکہ ضرور آکر رہتا ہے اسلئے کفار مکہ کو چاہیے کہ عذاب میں تاخیر ہونے سے دھوکہ میں نہ رہیں۔
بعض قراءتوں میں کذبوا تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے یہ مصدر تکذیب سے مشتق ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ انبیاء نے اندازہ سے جو عذاب کا وقت مقرر کردیا تھا اس عذاب کے بروقت نہ آنے پر ان کو یہ خطرہ ہوگیا کہ اب جو مسلمان ہیں وہ بھی ہماری تکذیب نہ کرنے لگیں کہ جو کچھ ہم نے کہا تھا وہ پورا نہیں ہوا، ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔
لقد کان۔۔۔۔ الالباب، قرآن کریم میں جو قصہ یوسف (علیہ السلام) اور دیگر قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کو گھڑا نہیں بلکہ یہ پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں دین کے بارے میں ساری ضرورتیں اجمالی یا تفصیلی یا اصولی طور پر موجود ہیں اور یقین رکھنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے۔
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَكَأَيِّن﴾ ” اور کتنی ہی“ ﴿مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا﴾ ” نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں، جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے“ جو توحید الٰہی پر دلالت کرتی ہیں ﴿وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ ” اور یہ ان سے روگردانی کرتے ہیں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur aasmano aur zameen mein kitni hi nishaniyan hain jinn per inn ka guzar hota rehta hai , magar yeh unn say mun morr jatay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
بیان ہو رہا ہے قدرت کی بہت سی نشانیاں، وحدانیت کی بہت سے گواہیاں، دن رات ان کے سامنے ہیں، پھر بھی اکثر لوگ نہایت بےپرواہی اور سبک سری سے ان میں کبھی غور وفکر نہیں کرتے۔ کیا یہ اتنا وسیع آسمان، کیا یہ اس قدر پھیلی ہوئی، زمین، کیا یہ روشن ستارے یہ گردش والا سورج، چاند، یہ درخت اور یہ پہاڑ، یہ کھیتیاں اور سبزیاں، یہ تلاطم برپا کرنے والے سمندر، یہ بزور چلنے والی ہوائیں، یہ مختلف قسم کے رنگا رنگ میوے، یہ الگ الگ غلے اور قدرت کی بیشمار نشانیاں ایک عقل مند کو اس قدر بھی کام نہیں آسکتیں ؟ کہ وہ ان سے اپنے اللہ کی جو احد ہے، صمد ہے، فرد ہے، واحد ہے، لا شریک ہے، قادر وقیوم ہے، باقی اور کافی ہے اس ذات کو پہچان لیں اور اس کے ناموں اور صفتوں کے قائل ہوجائیں ؟
بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں۔ آسمان و زمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھراتے ہیں۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں، جو بھی شریک ہیں، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الہٰی تیرا کوئی شریک نہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے بس بس، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو۔ فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت۔ بخاری ومسلم میں ہے ابن مسعود (رض) نے رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے۔ قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا\014\02ۡۙ ) 4 ۔ النسآء :142) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ چناچہ حضرت حذیفہ (رض) ایک بیمار کے پاس گئے، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہوگیا۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توکل کے باعث سب سختیوں سے دور کردیتا ہے۔ ( ابو داؤد وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہ کی عادت تھی، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایس حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چار پائی تلے چھپا دیا آپ آئے میرے پاس میری چار پائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بےنیاز ہے۔ خود میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویدات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی، وہ دم جھارا کردیتا تھا تو سکون ہوجاتا تھا، آپ نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ وہ کہتی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا ہے دعا (اذھب الباس رب الناس اشف وانت الشاف لا شفاء الا شفاوک شفاء لا یغدر سقما) ( مسند احمد) مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے۔ ہم ان کی عیادت کے لئے گئے، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ مسند میں ہے جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے . ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بےنیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ( مسلم) مسنند میں ہے قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کرلے، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بےنیاز ہے۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کرو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لئے تم نے عمل کئے تھے، انہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص کوئی بد شگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہوگیا۔ صحابہ (علیہ السلام) نے دریافت کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہنا دعا (اللہم لا خیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولا الہ غیرک) یعنی اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے، اس پر حضرت عبداللہ بن حرب اور حضرت قیس بن مصابب کھڑے ہوگئے اور کہا یا تو آپ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور حضرت عمر (رض) سے آپ کی شکایت کریں۔ آپ نے فرمایا لو دلیل لو۔ ہمیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا لوگو ! شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہوسکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو
دعا (اللہم انا نعوذ بک ان نشرک بک شیئا تعلمہ ونستغفرک مما لا نعلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق (رض) تھے۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت (اللہم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک مما لا اعلم ( مسند ابو یعلی) ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ
دعا (اللہم فاطر السموت والارض عالم الغیب الشہادۃ رب کل شئی وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشر کہ )
ایک روایت میں ہے کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں دعا (وان اقترف علی نفسی سوا او اجرہ الی مسلم۔ )
فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الہٰی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45ۙ ) 16 ۔ النحل :45) یعنی مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں، یہ تو صرف اس کی رحمت ورافت ہے کہ گنا کریں اور پھلیں پھولیں۔ فرمان اللہ ہے کہ بستیوں کے گنہگار اس بات سے بےخطرے ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آجائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں۔