اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں، فرما دیجئے: (میری رسالت پر) میرے اور تمہارے درمیان اﷲ بطورِ گواہ کافی ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس (صحیح طور پر آسمانی) کتاب کا علم ہے،
English Sahih:
And those who have disbelieved say, "You are not a messenger." Say, [O Muhammad], "Sufficient is Allah as Witness between me and you, and [the witness of] whoever has knowledge of the Scripture."
1 Abul A'ala Maududi
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو کہو "میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر کہتے ہی تم رسول نہیں، تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں اور وہ جسے کتاب کا علم ہے
3 Ahmed Ali
اور کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے کہہ دو میرے اور تمہارے درمیان الله گواہ کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے
4 Ahsanul Bayan
یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے (١) اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے (٢)۔
٤٣۔١ پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔ ٤٣۔٢ کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم رضی اللہ عنہم یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالٰی نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم (خدا کے) رسول نہیں ہو۔ کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے گواہ کافی ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے واﻻ کافی ہے اور وه جس کے پاس کتاب کا علم ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان بطور گواہ اللہ کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم (خدا) کے رسول نہیں ہو۔ کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کا علم ہے گواہ کافی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ﴾ ” اور کافر کہتے ہیں کہ آپ بھیجے ہوئے نہیں ہیں“ یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور اس حق کی تکذیب کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ قُلْ﴾ اگر وہ آپ سے گواہ طلب کریں تو ان سے کہہ دیجیے ﴿كَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ﴾ ” اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے“ اور اس کی گواہی اس کے قول و فعل اور اقرار کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ قول کے ذریعے سے اس کی شہادت یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن مخلوق میں سب سے سچی ہستی پر نازل فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور آپ کو ایسی فتح و نصرت عطا کی جو آپ کی، آپ کے اصحاب اور آپ کے متبعین کی قدرت و اختیار سے باہر تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فعل و تائید کے ذریعے سے شہادت ہے۔ اقرار کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو خبر دی کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کریں۔ پس جو کوئی آپ کی اطاعت کرتا ہے اس کے لئے اللہ کی رضا مندی اور اس کی کرامت ہے اور جو کوئی آپ کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دعوے پر برقرار رکھتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں آپ کو عذاب دے دیتا۔ ﴿وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ﴾ ” اور جس کو خبر ہے کتاب کی“ یہ آیت کریمہ اہل کتاب کے تمام اعمال کو شامل ہے۔ کیونکہ ان میں سے جو کوئی ایمان لا کر حق کی اتباع کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی دیتا ہے اور نہایت صراحت سے آپ کے حق میں شہادت دیتا ہے اور ان میں سے جو کوئی گواہی کو چھپاتا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خبر کہ اس کے پاس شہادت ہے، اس کی خبر سے زیادہ بلیغ ہے۔ اگر اس کے پاس شہادت نہ ہوتی، تو دلیل کے ساتھ اپنے طلب شہادت کو رد کردیتا۔ پس اس کو سکوت دلالت کرتا ہے کہ اس کے پاس رسول کے حق میں شہادت موجود ہے جو اس نے چھپا رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل کتاب سے گواہی لینے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ گواہی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہر معاملے میں صرف اسی شخص سے گواہی لی جانی چاہئے جو اس کا اہل ہو اور دوسروں کی نسبت اس بارے میں زیادہ علم رکھتا ہو۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس معاملے میں بالکل اجنبی ہوں، مثلاً ان پڑھ مشرکین عرب وغیرہ، تو ان سے شہادت طلب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں اسی معاملے کی کوئی خبر ہے نہ انہیں اس کی معرفت ہی حاصل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apna liya hai , woh kehtay hain kay : tum payghumber nahi ho keh do kay : meray aur tumharay darmiyan gawahi kay liye Allah kafi hai , neez her woh shaks jiss kay paas kitab ka ilm hai !
12 Tafsir Ibn Kathir
رسالت کے منکر کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں۔ تیری رسالت کے منکر ہیں۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے، میری تبلیغ پر، تمہاری تکذیب پر، وہ شاہد ہے۔ میری سچائی، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں (رض) ۔ یہ قول حضرت مجاہد (رح) وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لئے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ ظاہر ابن عباس کا قول ہے کہ یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں حضرت عبداللہ بن سلام بھی ہیں، حضرت سلمان اور حضرت تمیم داری وغیرہ (رض) بھی۔ حضرت مجاہد (رح) سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے۔ حضرت سعید (رح) اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام لئے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو من عندہ پڑھتے تھے۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری سے بھی مروی ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت اور آپ کی بشارت موجود تھی۔ ان کے نبیوں نے آپ کی بابت پیش گوئی کردی تھی۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے آیت (ورحمتی وسعت کل شیئی) یعنی میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں، رسول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والے ہیں، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات و انجیل میں موجود پاتے ہیں اور آیت میں ہے کہ کیا یہ بات بھی ان کے لئے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید منائیں مکہ پہنچے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہیں تھے یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس تھے یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں کہا ہاں فرمایا قریب آؤ جب قریب گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے اسی وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور حکم دیا کہ کہو آیت (قل ھو اللہ احد) آپ نے پوری سورت پڑھ سنائی۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا، مسلمان ہوگئے، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی آجاتے تو تم درخت سے نہ کودتے۔ کیا بات ہے ؟ جواب دیا کہ اماں جی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے۔