جب (حساب کتاب کا) کام فیصل ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہنا مان لیا۔ (آج) مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بیشک جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔ آیت نمبر ٢٢ تا ٢٧ ترجمہ : اور جب فیصلہ چکا دیا جائیگا، اور اہل جنت، جنت میں، دوزخی دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے اور دوزخی شیطان کے پاس جمع ہوں گے تو ابلیس ان سے کہے گا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بعث اور جزاء کے جتنے وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کہ (بعث وغیرہ) کچھ ہونے والا نہیں ہے میں نے اس کو پورا نہیں کیا (یعنی اس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہوگیا) اور میری تم پر کوئی زور زبردستی تو تھی نہیں کہ جس کے ذریعہ میں تم کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا البتہ اتنی بات ضرورت ہے کہ میں نے تم کو دعوت دی تو تم نے میری بات پر لبیک کہہ دیا، لہٰذا اب تم میری دعوت پر لبیک کہنے پر مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں نہ تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری (مصرخی) یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے اس سے پہلے دنیا میں جو تم نے مجھے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے ظالموں کیلئے دردناک سزا یقینی ہے (بخلاف) ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کو ایسے باغوں میں داخل کیا جائیگا کہ جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ اپنے رب کی اجازت سے ہمیشہ رہیں گے اس میں ان کیلئے اللہ اور فرشتوں کی طرف سے اور خود آپس میں بھی سلامتی کی مبارک بادی ہوگی خالدین (جنت) سے حال مقدرہ ہے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ یعنی لا الٰہ الا اللہ کو اور کلمۃ طیبۃ۔ مثلا سے بدل ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ اچھی نسل کا درخت ہو اور وہ کھجور کا درخت ہے، کہ اس کی جڑیں زمین میں (گہری) جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم و ارادہ سے پھل دے رہا ہے کلمۂ ایمان کی مثال ایسی ہی ہے کہ قلب مومن میں جما ہوا ہے اور اس کا عمل آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور مومن اپنے عمل کی برکت اور ثواب ہر آن پاتا ہے، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ اس لئے دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت (سبق) حاصل کریں اور ایمان لے آئیں، اور کلمہ خبیثہ کی مثال کہ وہ کلمۂ کفر ہے برے نسل کے درخت کی سی ہے اور وہ حنظل کا درخت ہے کہ اس کو سطح زمین سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کیلئے کوئی استحکام نہیں ہے کلمہ کفر ایسا ہی ہے کہ نہ اس کیلئے استحکام ہے اور نہ اس کی شاخیں ہیں اور نہ برکت ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ ایک قول ثابت کی بنیاد پر کہ وہ کلمۂ توحید ہے دنیا اور آخرت کی (یعنی) قبر کی زندگی میں ثبات عطا کرتا ہے جبکہ دو فرشتے ان کے رب اور ان کے دین اور ان کے نبی کے بارے میں سوال کریں گے تو وہ درست جواب دیں گے، جیسا کہ شیخین کی حدیث میں ہے، اور ظالموں کافروں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ درست جواب تک رسائی نہیں پاتے بلکہ وہ کہتے ہیں (ھاء ھاء لاندری) ہائے افسوس کہ ہم نہیں جانتے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، اور اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وعد الحق، ای وعدا من حقہ ان ینجز، یعنی ایسا وعدہ کہ جس کا حق یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے اور اضافت موصوف الی الصفت بھی قرار دیا جاسکتا ہے الی الوعد الحق۔ قولہ : لکن اس میں اشارہ ہے کہ الا ان دعوتکم، دعوتکم، مستثنیٰ منقطع ہے، اسلئے کہ دعاء سلطان کی جنس سے نہیں ہے۔ قولہ : بالفتح یعنی مصرخی میں یاء پر فتحہ اور کسرہ دونوں قراءتیں ہیں فتحہ تخفیف کیلئے ہے اور کسرہ اصل کے مطابق، مصرخ اسم فاعل مذکر، فریاد رسی کرنے والا (افعال) اصراخ، اضداد میں سے ہے اسکے معنی فریاد رسی کرنے والا، اور فریاد خواہ یعنی دادرس اور دادخواہ۔ قولہ : حال مقدرۃ یعنی مقدرین خلودھم، خالدین، جنّٰت سے حال ہے جنت کا وجود مقدم ہے اور دخول جنت بعد میں ہوگا معلوم ہوا کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک نہیں ہے حالانکہ ایک ہونا ضروری ہے، جواب یہ ہے کہ حال مقدرہ ہے ای مقدرین خلودھم۔ قولہ : تعطی اس میں اشارہ ہے کہ تؤتی ایتاء سے ہے نہ اتیان ہے۔ قولہ : اجتثت اس کو اکھاڑا گیا ماضی مجہول واحد مؤنث غائب، مصدر اجتثاث (افتعال) تفسیر و تشریح اللہ کا وعدہ : وقال۔۔۔۔ (الآیۃ) یہاں فیصلے سے مراد یہ ہے کہ مطیع جنت میں اور نافرمان دوزخ میں پہنچ چکیں گے، اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ ایک روز جزاء اور سزا کا آنے والا ہے، اہل ایمان کو اس روز نجات نصیب ہوگی اور اہل کفر کو ہلاکت۔ شیطان کا وعدہ : شیطان کا وعدہ یہ ہے کہ کفر پر ایمان کو ترجیح نہیں، جنت اور دوزخ سب ڈھکو سلے ہیں، آخرت میں جزا سزا کسی کو نہیں ہوگی۔ دوزخ میں جب دوزخی سارا الزام ابلیس پر ڈالیں گے تو شیطان کہے گا کہ تمہارے گللے شکوے اس حد تک تو صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا، اس سے مجھے ہرگز انکار نہیں، اللہ کے وعدے اور اس کی وعید میں تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی ہر بات اور ہر وعدہ صد فی صد صحیح نکلا، اور میں خود یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دنیا میں دلائے اور خوشنما باغ تم کو دکھائے اور پر فریب توقعات کے جال میں میں نے تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت کچھ ہے ہی نہیں، سب ڈھکوسلے ہیں اور اگر بالفرض ہوئی بھی تو فلاں حضرت کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھر و نجات دلانے کا ذمہ ان کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ کہلواتا رہا سب دھوکا اور فریب تھا۔ وما کان۔۔۔۔ الخ جہنم میں ابلیس جہنمیوں کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہے گا کہ میں کب تمہارا ہاتھ پکڑ کر زبردستی غلط راستے پر کھینچ کر لایا نہ میرا تم پر کوئی دباؤ تھا نہ زور و زبردستی، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دعوت حق کے مقابلہ میں اپنی دعوت باطل تمہارے سامنے پیش کی سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف بلایا، باقی ماننے اور نہ ماننے کا اختیار تو آپ حضرات کو ہی حاصل تھا میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہیں تھی لہٰذا اس غلط انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالنے کے بجائے خود تمہیں اٹھانی چاہیے، اسلئے کہ اس انتخاب میں تمام تر قصور تمہارا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کیا اور دعوائے محض کے پیچھے لگے رہے جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں تھی لہٰذا نہ تم کو اس قہر و غضب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس عذاب سے مجھے نکلوا سکتے ہو، کہ جس میں میں مبتلا ہوں، اور مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں اگر تم مجھے یا کسی اور کو اللہ کا شریک سمجھتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی اس کی تدبیر وہی کرتا رہا بھلا اس کا شریک کوئی کیونکر ہوسکتا ہے ؟ الم تر کیف۔۔۔۔ الخ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے کہ جو گرمی سردی غرضیکہ ہر موسم میں پھل دیتا ہے، اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر وقت آسمان کی طرف جاتے رہتے ہیں، کلمہ طیبہ سے اسلام یا لا الہ الا اللہ اور شجرۂ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔ کلمۂ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرۂ خبیثہ سے مراد حنظل (اندرائن) کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں اوپر ہوتی ہیں اور ذرا سے اشارہ میں اکھڑ جاتی ہیں، یعنی کافر کے اعمال نیک بالکل بےحیثیت ہیں نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔
English Sahih:
And Satan will say when the matter has been concluded, "Indeed, Allah had promised you the promise of truth. And I promised you, but I betrayed you. But I had no authority over you except that I invited you, and you responded to me. So do not blame me; but blame yourselves. I cannot be called to your aid, nor can you be called to my aid. Indeed, I deny your association of me [with Allah] before. Indeed, for the wrongdoers is a painful punishment."
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا "حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور شیطان کہے گا جب فیصلہ ہوچکے گا بیشک اللہ نے تم کو سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا اور میرا تم پر کچھ قابو نہ تھا مگر یہی کہ میں نے تم کو بلایا تم نے میری مان لی تو اب مجھ پر الزام نہ رکھو خود اپنے اوپر الزام رکھو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو، وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں، بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے،
3 Ahmed Ali
اور جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا بےشک الله نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اورمیں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر اس کے سوا کوئی زور نہ تھا کہ میں نے تمہیں بلایا پھر تم نے میری بات کو مان لیا پھر مجھے الزام نہ دو اور اپنے آپ کو الزام دونہ میں تمہارا فریادرس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہو میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس سےپہلے مجھے شریک بناتے تھے بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
جب اور کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا شیطان (١) کہے گا کہ اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے ان کے خلاف کیا (٢) میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں (٣) ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، (٤) پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو (٤) نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے (٥) میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے (٦) یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے (٧)۔
٢٢۔١ یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا ٢٢۔٢ اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ' شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں ' (النساء۔٢٠) ٢٢۔٣ دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔ ٢٢۔٤ ہاں میری دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بےدلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کر دیا۔ ٢٢۔٥ اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کر دیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگ رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔ ٢٢۔٦ یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔ ٢٢۔٧ مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہو سکتا تھا۔ ٢٢۔٨ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہوگیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب (حساب کتاب کا) کام فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہا مان لیا۔ تو (آج) مجھے ملامت نہ کرو۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بےشک جو ظالم ہیں ان کے لیے درد دینے والا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعده دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ﻇالموں کے لیے دردناک عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب (ہر قسم کا) فیصلہ ہو جائے گا تو اس وقت شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی تسلط (زور) تو تھا نہیں سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (کفر اور گناہ کی) دعوت دی اور تم نے میری دعوت قبول کر لی پس تم مجھے ملامت نہ کرو (بلکہ) خود اپنے آپ کو ملامت کرو (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو اس سے پہلے (دنیا میں) جو تم نے مجھے (خدا کا) شریک بنایا تھا میں اس سے بیزار ہوں بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے
9 Tahir ul Qadri
اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا، سو میں نے تم سے وعدہ خلافی کی ہے، اور مجھے (دنیا میں) تم پر کسی قسم کا زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (باطل کی طرف) بلایا سو تم نے (اپنے مفاد کی خاطر) میری دعوت قبول کی، اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ (خود) اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں (آج) تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہراتے رہے ہو بیشک میں (آج) اس سے انکار کرتا ہوں۔ یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے،
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ ﴾ شیطان، جو دنیا میں واقع ہونے والی ہر برائی کا سبب ہے جہنمیوں سے براءت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہو کر کہے گا : ﴿لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ﴾ ” جب فیصلہ ہوچکے گا سب امور کا“ اور جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جہنمی جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ﴾ ” جو وعدہ اللہ نے کیا تھا وہ تو سچ تھا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی زبان پر تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا مگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی، اگر تم نے اس کی اطاعت کی ہوتی تو تم فوزعظیم سے بہرہ ور ہوتے ﴿وَوَعَدتُّكُمْ﴾ ” اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا“ بھلائی کا ﴿فَأَخْلَفْتُكُمْ﴾ ” پس میں نے تم سے وعدہ خلافی کی“ یعنی میں نے تمہیں جو جھوٹی آرزوئیں اور امیدیں دلائی تھیں وہ حاصل نہیں ہوئیں اور نہ کبھی حاصل ہوں گی۔ ﴿وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ﴾ ” اور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا“ میرے پاس کوئی دلیل اور اپنے قول کی کوئی تائید نہ تھی۔ ﴿إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي﴾ ” مگر یہ کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میری بات مان لی“ یعنی میرے پاس زیادہ سے زیادہ جو اختیار تھا وہ یہ تھا کہ میں نے تمہیں اپنے مقصد کی طرف بلایا اور تمہارے سامنے اسے خوب آراستہ کیا، تم نے اپنی خواہشات نفس اور شہوات کی پیروی کرتے ہوئے دعوت پر لبیک کیا۔ جب صورت حال یہ ہے ﴿فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ﴾ ” تو تم مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو“ پس موجب عذاب میں تم ہی پردارومدار ہے اور تم ہی اس عذاب کا سبب ہو۔ ﴿مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ ﴾ ” میں تمہاری فریاد کو نہیں پہنچ سکتا“ یعنی جس شدت عذاب میں تم مبتلا ہو میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ ﴿وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ﴾ ” اور نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو“ ہر ایک کے لئے اپنے اپنے حصے کا عذاب ہے ﴿إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ﴾ ” میں منکر ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا تھا اس سے پہلے“ یعنی تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا تھا، میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہ تھا اور تم پر میری اطاعت واجب نہ تھی پس میں تم سے بری الذمہ ہوں ﴿إِنَّ الظَّالِمِينَ﴾ بے شک شیطان کی اطاعت کرکے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ﴿لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ وہ اس عذاب میں ابدالآبادتک رہیں گے۔ اور یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم ہے کہ اس نے انہیں شیطان کی اطاعت سے ڈرایا ہے، اس نے شیطان کے مقاصد اور ان راستوں کی نشاندہی کردی ہے جہاں سے وہ داخل ہو کر انسان کو گمراہ کرتا ہے، اس کا مقصد صرف انسان کو جہنم کی آگ میں جھونکنا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ جب شیطان اپنے لشکر سمیت جہنم میں داخل ہوگا تو وہ اپنے متبعین سے بری الذمہ ہوجائے گا اور ان کے شرک سے صاف انکار کردے گا۔ ﴿وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴾(فاطر : 35؍ 14) ” اور اللہ باخبر کی مانند تمہیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔ “ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان کے پاس کوئی اختیار نہیں اور ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ (النحل : 16؍100) ” شیطان کا زور تو صرف انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا والی اور سرپرست بناتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔“ پس وہ ” زور“ اور ” تسلط“ جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کی ہے اس سے مراد حجت اور دلیل ہے، شیطان جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے، اس پر درحقیقت اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ ان کو شبہات میں مبتلا کرے، گناہوں کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کرے، جن سے متاثر ہو کر وہ گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرلیں۔ رہا وہ ” زور“ جس کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے تو اس سے مراد وہ تسلط ہے جس کے بل پر وہ اپنے دوستوں کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے اور ان کو نافرمانیوں پر ابھارتا ہے۔ بندے شیطان سے موالات پیدا کرکے اور اس کے گروہ میں شامل ہو کر اس کو اپنے آپ پر مسلط کرلیتے ہیں۔ اس لئے شیطان کا ان لوگوں پر کوئی زور نہیں چلتا جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab her baat ka faisla hojaye ga to shetan ( apney manney walon say ) kahey ga : haqeeqat yeh hai kay Allah ney tum say sacha wada kiya tha , aur mein ney tum say wada kiya to uss ki khilaf warzi ki . aur mujhay tum per iss say ziyada koi ikhtiyar hasil nahi tha kay mein ney tumhen ( Allah ki nafarmani ki ) dawat di to tum ney meri baat maan li . lehaza abb mujhay malamat naa kero , balkay khud apney aap ko malamat kero . naa tumhari fariyad per mein tumhari madad ker-sakta hun , aur naa meri fariyad per tum meri madad ker-saktay ho . tum ney iss say pehlay mujhay Allah ka jo shareek maan liya tha , ( aaj ) mein ney uss ka inkar kerdiya hai . jinn logon ney yeh zulm kiya tha , unn kay hissay mein to abb dardnak azab hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
طوطا چشم دشمن شیطان اللہ تعالیٰ جب بندوں کی قضا سے فارغ ہوگا، مومن جنت میں کافر دوزخ میں پہنچ جائیں گے، اس وقت ابلیس ملعون جہنم میں کھڑا ہو کر ان سے کہے گا کہ اللہ کے وعدے سچے اور برحق تھے، رسولوں کی تابعداری میں ہی نجات اور سلامتی تھی، میرے وعدے تو دھوکے تھے میں تو تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لئے سبز باغ دکھایا کرتا تھا۔ میری باتیں بےدلیل تھیں میرا کلام بےحجت تھا۔ میرا کوئی زور غلبہ تم پر نہ تھا تم تو خواہ مخواہ میری ایک آواز پر دوڑ پڑے۔ میں نے کہا تم نے مان لیا رسولوں کی سچے وعدے ان کی بادلیل آواز ان کی کامل حجت والی دلیلیں تم نے ترک کردیں۔ ان کی مخالفت اور میری موافقت کی۔ جس کا نتیجہ آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے مجھے ملامت نہ کرنا بلکہ اپنے نفس کو ہی الزام دینا، گناہ تمہارا اپنا ہے خود تم نے دلیلیں چھوڑیں تم نے میری بات مانی آج میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا نہ تمہیں بچا سکوں نہ نفع پہنچا سکوں۔ میں تو تمہارے شرک کے باعث تمہارا منکر ہوں میں صاف کہتا ہوں کہ میں شریک اللہ نہیں جیسے فرمان الہٰی ہے آیت (ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ) الخ، اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے ؟ جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو قبول نہ کرسکیں بلکہ اس کے پکارنے سے محض غافل ہوں اور محشر کے دن ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر بن جائیں۔ اور آیت میں ہے آیت (کلا سیکفرون بعبادتہم) الخ، یقینا وہ لوگ ان کی عبادتوں سے منکر ہوجائیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے یہ ظالم لوگ ہیں اس لئے کہ حق سے منہ پھیرلیا باطل کے پیرو کار بن گئے ایسے ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ ابلیس کا یہ کلام دوزخیوں سے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہوگا۔ تاکہ وہ حسرت و افسوس میں اور بڑھ جائیں۔ لیکن ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب اگلوں پچھلوں کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان میں فیصلے کر دے گا فیصلوں کے وقت عام گھبراہٹ ہوگی۔ مومن کہیں گے ہم میں فیصلے ہو رہے ہیں، اب ہماری سفارش کے لئے کون کھڑا ہوگا ؟ پس حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کے پاس جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچو چناچہ وہ میرے پاس آئیں گے۔ مجھے کھڑا ہونے کی اللہ تبارک و تعالیٰ اجازت دے گا اسی وقت میری مجلس سے پاکیزہ تیز اور عمد خوشبو پھیلے گی کہ اس سے بہتر اور عمدہ خوشبو کھبی کسی نے نہ سونگھی ہوگی میں چل کر رب العالمین کے پاس آؤں گا میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پیر کے انگوٹھے تک نورانی ہوجائے گا۔ اب میں سفارش کروں گا اور جناب حق تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا یہ دیکھ کر کافر لوگ کہیں گے کہ چلو بھئی ہم بھی کسی کو سفارشی بنا کرلے چلیں اور اس کے لئے ہمارے پاس سوائے ابلیس کے اور کون ہے ؟ اسی نے ہم کو بہکایا تھا۔ چلو اسی سے عرض کریں۔ آئیں گے ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے تو شفیع پالیا اب تو ہماری طرف سے شفیع بن جا۔ اس لئے کہ ہمیں گمراہ بھی تو نے ہی کیا ہے یہ سن کر یہ ملعون کھڑا ہوگا۔ اس کی مجلس سے ایسی گندی بدبو پھیلے گی کہ اس سے پہلے کسی ناک میں ایسی بدبو نہ پہنچی ہو۔ پھر وہ کہے گا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ محمد بن کعب قرظی (رح) فرماتے ہیں کہ جب جہنمی اپنا صبر اور بےصبری یکساں بتلائیں گے اس وقت ابلیس ان سے یہ کہے کا اس وقت وہ اپنی جانوں سے بھی بیزار ہوجائیں گے ندا آئے گی کہ تمہاری اس وقت کی اس بےزاری سے بھی زیادہ بےزاری اللہ کی تم سے اس وقت تھی جب کہ تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے۔ عامر شعبی (رح) فرماتے ہیں تمام لوگوں کے سامنے اس دن دو شخص خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا یہ آیتیں (ھذا یوم ینفع الصادقین) الخ تک اسی بیان میں ہیں اور ابلیس کھڑا ہو کر کہے گا آیت (وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ 22 ۔ ) 14 ۔ ابراھیم :22) برے لوگوں کے انجام کا اور ان کے درد و غم اور ابلیس کے جواب کا ذکر فرما کر اب نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ایمان دار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہوگا جیسے فرمان ہے آیت (حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ 71) 39 ۔ الزمر :71) ، یعنی جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے، الخ۔ اور آیت میں ہے ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے اور آیت میں ہے کہ وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے۔ اور آیت میں ہے آیت ( دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ\0\010 ) 10 ۔ یونس :10) ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہوگا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہوگا۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہوگی۔