Skip to main content

وَقَالَ الشَّيْطٰنُ لَـمَّا قُضِىَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَـقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْۗ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِىْ ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِىْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ۗ مَاۤ اَنَاۡ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِىَّ ۗ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ۗ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَ لِيْمٌ

And will say
وَقَالَ
اور کہے گا
the Shaitaan
ٱلشَّيْطَٰنُ
شیطان
when
لَمَّا
جب
has been decided
قُضِىَ
فیصلہ کردیا جائے گا
the matter
ٱلْأَمْرُ
کام کا
"Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
promised you
وَعَدَكُمْ
وعدہ کیا تم سے
a promise
وَعْدَ
وعدہ
(of) truth
ٱلْحَقِّ
سچا
And I promised you
وَوَعَدتُّكُمْ
اور میں نے وعدہ کیا تم سے
but I betrayed you
فَأَخْلَفْتُكُمْۖ
تو میں نے خلاف کیا تم سے
But not
وَمَا
اور نہ
I had
كَانَ
تھا
I had
لِىَ
میرے لئے
over you
عَلَيْكُم
تم پر
any
مِّن
کوئی
authority
سُلْطَٰنٍ
زور
except
إِلَّآ
مگر
that
أَن
یہ کہ
I invited you
دَعَوْتُكُمْ
میں نے بلایا تم کو
and you responded
فَٱسْتَجَبْتُمْ
پس تم نے لبیک کہا
to me
لِىۖ
مجھ کو
So (do) not
فَلَا
پس نہ
blame me
تَلُومُونِى
تم مجھے ملامت کرو
but blame
وَلُومُوٓا۟
اور ملامت کرو
yourselves
أَنفُسَكُمۖ
اپنے نفسوں کو
Not
مَّآ
نہیں
(can) I
أَنَا۠
میں
(be) your helper
بِمُصْرِخِكُمْ
فریاد رس تمہارے لئیے
and not
وَمَآ
اور نہیں
you (can)
أَنتُم
تم
(be) my helper
بِمُصْرِخِىَّۖ
فریاد رسی کرنے والے
Indeed, I
إِنِّى
بیشک میں
deny
كَفَرْتُ
انکار کیا میں نے
[of what]
بِمَآ
ساتھ اس کے
your association of me (with Allah)
أَشْرَكْتُمُونِ
جو شریک ٹھہرایا تم نے مجھے
before
مِن
اس سے
before
قَبْلُۗ
پہلے
Indeed
إِنَّ
بیشک
the wrongdoers
ٱلظَّٰلِمِينَ
ظالم لوگ
for them
لَهُمْ
ان کے لئے
(is) a punishment
عَذَابٌ
عذاب ہے
painful"
أَلِيمٌ
درد ناک

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جب (حساب کتاب کا) کام فیصل ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہنا مان لیا۔ (آج) مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بیشک جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔
آیت نمبر ٢٢ تا ٢٧
ترجمہ : اور جب فیصلہ چکا دیا جائیگا، اور اہل جنت، جنت میں، دوزخی دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے اور دوزخی شیطان کے پاس جمع ہوں گے تو ابلیس ان سے کہے گا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بعث اور جزاء کے جتنے وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کہ (بعث وغیرہ) کچھ ہونے والا نہیں ہے میں نے اس کو پورا نہیں کیا (یعنی اس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہوگیا) اور میری تم پر کوئی زور زبردستی تو تھی نہیں کہ جس کے ذریعہ میں تم کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا البتہ اتنی بات ضرورت ہے کہ میں نے تم کو دعوت دی تو تم نے میری بات پر لبیک کہہ دیا، لہٰذا اب تم میری دعوت پر لبیک کہنے پر مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں نہ تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری (مصرخی) یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے اس سے پہلے دنیا میں جو تم نے مجھے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے ظالموں کیلئے دردناک سزا یقینی ہے (بخلاف) ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کو ایسے باغوں میں داخل کیا جائیگا کہ جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ اپنے رب کی اجازت سے ہمیشہ رہیں گے اس میں ان کیلئے اللہ اور فرشتوں کی طرف سے اور خود آپس میں بھی سلامتی کی مبارک بادی ہوگی خالدین (جنت) سے حال مقدرہ ہے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ یعنی لا الٰہ الا اللہ کو اور کلمۃ طیبۃ۔ مثلا سے بدل ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ اچھی نسل کا درخت ہو اور وہ کھجور کا درخت ہے، کہ اس کی جڑیں زمین میں (گہری) جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم و ارادہ سے پھل دے رہا ہے کلمۂ ایمان کی مثال ایسی ہی ہے کہ قلب مومن میں جما ہوا ہے اور اس کا عمل آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور مومن اپنے عمل کی برکت اور ثواب ہر آن پاتا ہے، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ اس لئے دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت (سبق) حاصل کریں اور ایمان لے آئیں، اور کلمہ خبیثہ کی مثال کہ وہ کلمۂ کفر ہے برے نسل کے درخت کی سی ہے اور وہ حنظل کا درخت ہے کہ اس کو سطح زمین سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کیلئے کوئی استحکام نہیں ہے کلمہ کفر ایسا ہی ہے کہ نہ اس کیلئے استحکام ہے اور نہ اس کی شاخیں ہیں اور نہ برکت ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ ایک قول ثابت کی بنیاد پر کہ وہ کلمۂ توحید ہے دنیا اور آخرت کی (یعنی) قبر کی زندگی میں ثبات عطا کرتا ہے جبکہ دو فرشتے ان کے رب اور ان کے دین اور ان کے نبی کے بارے میں سوال کریں گے تو وہ درست جواب دیں گے، جیسا کہ شیخین کی حدیث میں ہے، اور ظالموں کافروں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ درست جواب تک رسائی نہیں پاتے بلکہ وہ کہتے ہیں (ھاء ھاء لاندری) ہائے افسوس کہ ہم نہیں جانتے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، اور اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وعد الحق، ای وعدا من حقہ ان ینجز، یعنی ایسا وعدہ کہ جس کا حق یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے اور اضافت موصوف الی
الصفت بھی قرار دیا جاسکتا ہے الی الوعد الحق۔
قولہ : لکن اس میں اشارہ ہے کہ الا ان دعوتکم، دعوتکم، مستثنیٰ منقطع ہے، اسلئے کہ دعاء سلطان کی جنس سے نہیں ہے۔
قولہ : بالفتح یعنی مصرخی میں یاء پر فتحہ اور کسرہ دونوں قراءتیں ہیں فتحہ تخفیف کیلئے ہے اور کسرہ اصل کے مطابق، مصرخ اسم فاعل مذکر، فریاد رسی کرنے والا (افعال) اصراخ، اضداد میں سے ہے اسکے معنی فریاد رسی کرنے والا، اور فریاد خواہ یعنی دادرس اور دادخواہ۔
قولہ : حال مقدرۃ یعنی مقدرین خلودھم، خالدین، جنّٰت سے حال ہے جنت کا وجود مقدم ہے اور دخول جنت بعد میں ہوگا معلوم ہوا کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک نہیں ہے حالانکہ ایک ہونا ضروری ہے، جواب یہ ہے کہ حال مقدرہ ہے ای مقدرین خلودھم۔
قولہ : تعطی اس میں اشارہ ہے کہ تؤتی ایتاء سے ہے نہ اتیان ہے۔
قولہ : اجتثت اس کو اکھاڑا گیا ماضی مجہول واحد مؤنث غائب، مصدر اجتثاث (افتعال)
تفسیر و تشریح
اللہ کا وعدہ : وقال۔۔۔۔ (الآیۃ) یہاں فیصلے سے مراد یہ ہے کہ مطیع جنت میں اور نافرمان دوزخ میں پہنچ چکیں گے، اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ ایک روز جزاء اور سزا کا آنے والا ہے، اہل ایمان کو اس روز نجات نصیب ہوگی اور اہل کفر کو ہلاکت۔
شیطان کا وعدہ : شیطان کا وعدہ یہ ہے کہ کفر پر ایمان کو ترجیح نہیں، جنت اور دوزخ سب ڈھکو سلے ہیں، آخرت میں جزا سزا کسی کو نہیں ہوگی۔ دوزخ میں جب دوزخی سارا الزام ابلیس پر ڈالیں گے تو شیطان کہے گا کہ تمہارے گللے شکوے اس حد تک تو صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا، اس سے مجھے ہرگز انکار نہیں، اللہ کے وعدے اور اس کی وعید میں تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی ہر بات اور ہر وعدہ صد فی صد صحیح نکلا، اور میں خود یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دنیا میں دلائے اور خوشنما باغ تم کو دکھائے اور پر فریب توقعات کے جال میں میں نے تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت کچھ ہے ہی نہیں، سب ڈھکوسلے ہیں اور اگر بالفرض ہوئی بھی تو فلاں حضرت کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھر و نجات دلانے کا ذمہ ان کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ کہلواتا رہا سب دھوکا اور فریب تھا۔
وما کان۔۔۔۔ الخ جہنم میں ابلیس جہنمیوں کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہے گا کہ میں کب تمہارا ہاتھ پکڑ کر زبردستی غلط راستے پر کھینچ کر لایا نہ میرا تم پر کوئی دباؤ تھا نہ زور و زبردستی، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دعوت حق کے مقابلہ میں اپنی دعوت باطل تمہارے سامنے پیش کی سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف بلایا، باقی ماننے اور نہ ماننے کا اختیار تو آپ حضرات کو ہی حاصل تھا میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہیں تھی لہٰذا اس غلط انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالنے کے بجائے خود تمہیں اٹھانی چاہیے، اسلئے کہ اس انتخاب میں تمام تر قصور تمہارا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کیا اور دعوائے محض کے پیچھے لگے رہے جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں تھی لہٰذا نہ تم کو اس قہر و غضب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس عذاب سے مجھے نکلوا سکتے ہو، کہ جس میں میں مبتلا ہوں، اور مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں اگر تم مجھے یا کسی اور کو اللہ کا شریک سمجھتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی اس کی تدبیر وہی کرتا رہا بھلا اس کا شریک کوئی کیونکر ہوسکتا ہے ؟
الم تر کیف۔۔۔۔ الخ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے کہ جو گرمی سردی غرضیکہ ہر موسم میں پھل دیتا ہے، اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر وقت آسمان کی طرف جاتے رہتے ہیں، کلمہ طیبہ سے اسلام یا لا الہ الا اللہ اور شجرۂ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔ کلمۂ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرۂ خبیثہ سے مراد حنظل (اندرائن) کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں اوپر ہوتی ہیں اور ذرا سے اشارہ میں اکھڑ جاتی ہیں، یعنی کافر کے اعمال نیک بالکل بےحیثیت ہیں نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔

English Sahih:

And Satan will say when the matter has been concluded, "Indeed, Allah had promised you the promise of truth. And I promised you, but I betrayed you. But I had no authority over you except that I invited you, and you responded to me. So do not blame me; but blame yourselves. I cannot be called to your aid, nor can you be called to my aid. Indeed, I deny your association of me [with Allah] before. Indeed, for the wrongdoers is a painful punishment."

1 Abul A'ala Maududi

اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا "حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے"