النحل آية ۱۰۱
وَاِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍۗ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے،
English Sahih:
And when We substitute a verse in place of a verse – and Allah is most knowing of what He sends down – they say, "You, [O Muhammad], are but an inventor [of lies]." But most of them do not know.
1 Abul A'ala Maududi
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خو د گھڑ تے ہو اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے کافر کہیں تم تو دل سے بنا لاتے ہو بلکہ ان میں اکثر کو علم نہیں،
3 Ahmed Ali
اورجب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری بدلتے ہیں اور الله خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے تو کہتے ہیں کہ تو بنا لاتا ہے یہ بات نہیں لیکن اکثر ان میں سے نہیں سمجھتے
4 Ahsanul Bayan
جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالٰی نازل فرماتا ہے اسے وہ خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں (١)۔
١٠١۔١ یعنی ایک حکم منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کرتے ہیں، جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور اس کے مطابق وہ احکام میں رد وبدل فرماتا ہے، تو کافر کہتے ہیں کہ یہ کلام اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی تو اس طرح نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ان کے اکثر لوگ بےعلم ہیں، اس لئے یہ منسوخی کی حکمتیں اور مصلحتیں کیا جانیں۔ مزید وضاحت کیلیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۰٦ کا حاشیہ
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ اور خدا جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو (کافر) کہتے ہیں کہ تم یونہی اپنی طرف سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نادان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے اسے وه خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم (یہ کلام) اپنے دل سے گھڑ لیا کرتے ہو حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ (حقیقتِ حال کو) نہیں جانتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم جب ایک آیت کی جگہ پر دوسری آیت تبدیل کرتے ہیں تو اگرچہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کررہا ہے لیکن یہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ محمد تم افترا کرنے والے ہو حالانکہ ان کی اکثریت کچھ نہیں جانتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم کوئی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں اور خدا جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو (کافر) کہتے ہیں کہ تم تو (یونہی) اپنی طرف سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نادان ہیں۔
آیت نمبر 101 تا 110
ترجمہ : اور جب ہم کوئی آیت منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسری آیت بندوں کی مصلحت کیلئے نازل کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نازل کرتا ہے وہ خوب جانتا ہے تو کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں تم تو افترا پر داز ہو جھوٹے ہو، قرآن اپنی طرف سے گھڑ کو لاتے ہو، (ایسا نہیں ہے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ قرآن کی حقیقت اور نسخ کے فائدہ سے واقف نہیں ہیں آپ ان کو بتادیجئے کہ اس کو جبرئیل آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کرتے ہیں (بالحق) نَزَّلَ کے متعلق ہے کہ اہل ایمان کو اس کے ذریعہ ایمان پر ثابت رکھے اور مسلمانوں کے لئے ہے اور وہ ایک نصرانی لوہار ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس جایا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس شخص کی زبان کہ جس کی طرف یہ لوگ اشارہ کرتے ہیں کہ فلاں ان کو سکھاتا ہے، عجمی ہے اور یہ قرآن صاف عربی زبان میں ہے جو بلیغ و فصیح ہے تو (بھلا) اس کو عجمی (غیر عربی) کیسے سکھا سکتا ہے ؟ جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے ان کو اللہ کی طرف سے ہدایت نہیں ملتی، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، جھوٹ تو وہ لوگ بولتے ہیں جو اللہ کی آیتوں (قرآن) پر ایمان نہیں رکھتے ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ یہ تو انسانی کلام ہے، درحقیقت جھوٹے یہی لوگ ہیں، اور تکرار اور اِنَّ وغیرہ کے ذریعہ تاکید ان کے قول ” اِنَّماانت مفترٍ “ کو رد کرنے کے لئے ہے اور جو شخص ایمان کے بعد اللہ کا منکر ہوا، تو ان کے لئے شدید وعید ہے البتہ وہ شخص اس سے مستثنیٰ ہے کہ جس کو کفریہ کلمات کہنے پر مجبور کیا گیا اور اس نے زبان سے کفر یہ کلمہ کہہ بھی دیا حال یہ کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، اور مَن مبتداء یا شرطیہ ہے اور خبر یا جواب، لھم وعیدٌ شدیدٌ ہے، جس کے (حذف پر) یہ آیت علیھم غضب من اللہ الخ دلالت کررہی ہے لیکن جو شخص شرح صدر کے ساتھ کفر کے مرتکب ہوں (یعنی) کھلے دل اور وسعت قلبی کے ساتھ کفر اختیار کریں، یعنی کفر سے ان کا دل خوش ہو تو ان پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے لئے اللہ کا بڑا عذاب ہے ان کے لئے عذاب کی یہ وعید اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں پسند کیا ہے، یعنی اس کو اختیار کرلیا ہے، اور اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں فرماتا یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر مہر لگا دی ہے اور جو ان سے مقصود ہے اس سے یہی لوگ غافل ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ یہی لوگ آخرت میں دائمی آگ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے خسارہ میں ہیں، پھر یقیناً تیرا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بعد اس کے کہ وہ ستائے گئے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور کلمۂ کفر زبان سے نکالنے کے بعد، اور ایک قراءت میں (فَتَنُوا) صیغۂ معروف کے ساتھ ہے یعنی مشرکین نے کفر کرنے اور لوگوں کو ایمان سے روکنے کے بعد پھر انہوں نے جہاد کیا اور طاعت پر صبر کیا بیشک تیرا رب ان آزمائشوں کے بعد ان کو معاف کرنے والا ان پر رحم کرنے والا ہے اور پہلے اَنَّ کی خبر (محذوف) ہے جس پر اِنَّ ثانی کی خبر دلالت کر رہی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اِذا، شرطیہ ہے، قَالُوا انما اَنْتَ مُفْتَرٍ ، جواب شرط ہے۔ قولہ : وَاللہ اعلم بما یُنَزِّلُ ، شرط وجزاء کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : روح القدس یہ اضافت موصوف الی الصفت ہے ای الروح المقدس، القدس کے دال پر ضمہ اور سکون دونوں جائز ہیں۔
قولہ : متعلق بنزّلَ یعنی، متلبسًاسے متعلق ہو کر نزلہٗ کی ضمیر مفعولی سے حال ہے، ای نزّلہ متلبسًا بالحق . قولہ : ھدًی وَبشریٰ.
سوال : ان کا عطف لیثبتَ پر ہے، حالانکہ یہ عطف درست ہے اسلئے کہ یہ دونوں معطوف علیہ کے ساتھ نہ اعراب میں متحد ہیں اور نہ علت میں حالانکہ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔
جواب : ھدیٰ اور بشریٰ کا عطف لیثبِّتَ کے محل پر ہے، لِیثبّتَ میں لام تعلیلیہ ہے جس کے بعد أن مصدر یہ مقدر ہے جس کی وجہ سے مضارع مصدر کے معنی ہے یثبّت کے اندر ھو ضمیر فاعل ہے جس کا مرجع قرآن ہے، اور لِثبّتَ مفعول لاجلہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، اور ھدًی اور بشریٰ دونوں مصدر ہیں جن کا عطف لیثبّتَ کے محل پر ہے ای تثبیتا و ھدایۃ و بشارۃً لہٰذا اب عدم مطابقت کا اعتراض نہیں۔
قولہ : للتحقیق، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ قدْ جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو عمومًا تقلیل کے لئے ہے حالانکہ یہاں تقلیل کے معنی نہ تو لنعلم سے میل کھاتے ہیں اور نہ شان باری کے مناسب ہیں، جواب کا حاصل یہ ہے کہ قد یہاں تحقیق کے لئے ہے، لَقَدْ میں لام قسمہ ہے۔ قولہ : قَیْنٌ، آہنگر، لوہار، (جمع) قُیُونَ واقیان . قولہ : یمیلون الیہ ای یشترون الیہ .
قولہ : اَعجمیٌّ، جو فصیح اللسان نہ ہو اگرچہ عربی ہو، اور عجمی، منسوب الی العجم، جو لغت عرب سے واقف نہ ہو اگرچہ فصیح ہو۔
قولہ : والتاکید بالتکرار واِنَّ وغیر ھما چونکہ مکہ نے متعدد تاکیدات کیساتھ، اِنّما انت مفترٍ ، کہتے ہوئے نزول قرآن کا انکار کیا تھا انکا جواب بھی متعدد تاکیدات کساتھ دیا گیا ہے، اول تکرار سے مراد اِنَّ الذین لایؤمنون کا تکرار ہے اور اِنَّ کا تکرار ہے اور غیر ھما سے مراد ضمیر فیصل ہے اور تعریف مسند اور جملہ کا اسمیہ ہونا ہے لہٰذا ظاہر نظر میں تکذیب کا حصر جو قریش میں معلوم ہورہا تھا وہ ختم ہوگیا۔
قولہ : مَن مبتداء اوشرطیۃ، من کفر باللہ کے مَنْ میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ من موصولہ مبتدا ہو نہ کہ الذین لا یؤمنون بآیات اللہ سے بدل، اس لئے کہ بدل اور مبدل منہ کے فصل بالا جنبی جائز نہیں ہے اور یہاں ” اولئِک ھم الکافرون “ کا فصل موجود ہے، مَن کو موصولہ مبتداء ماننے کی صورت میں کَفَرَ اس کا صلہ ہوگا اور موصول صلہ سے مبتداء ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی اور وہ لَھُمْ وَعید شدیدٌ ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ مَنْ شرطیہ ہو اور جزاء مقدر ہو اور وہ لھم وعیدٌ شدیدٌ ہے، جیسا کہ علامہ سیوطی نے
ظاہر کردیا ہے، اور دال برحذف آئندہ جملہ، فعلیھم غضب من اللہ، یا ولَھَم عذاب شدیدٌ، ہے۔
قولہ : صدرًا لَہٗ ، لَہٗ کا اضافہ اس شبہ کا جواب ہے کہ شَرَحَ کا صلہ باء نہیں آتا حالانکہ یہاں بالکفر میں باء صلہ واقع ہورہا ہے، جواب یہ ہے کہ باء بمعنی لام ہے۔
قولہ : بمعنی طابت یہ اس شبہ کا جواب ہے یہاں فتحہ کے معنی نہیں ہیں، جواب یہ ہے کہ فتحہ بمعنی طاب ہے اور اسبات کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ صَدرًا، مفعول سے منقول ہو کر تمیز واقع ہے۔
قولہ : اختاروھا، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ استحبّوا کا صلہ علہ نہیں آتا حالانکہ یہاں علیٰ صلہ ہورہا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ استحبّوا، اختاروا کے معنی میں ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : وفی قراءۃ بالبناء للفاعل، یعنی فتنوا میں دو قراءتیں ہیں مجھول اور معروف، مجھول ہونے کی صورت میں مھاجرین نائب فاعل ہوں گے اور کفروا کے فاعل بھی اور معروف کی صورت دونوں فعلوں کے فاعل کفار ہوں گے، یعنی مشرکین نے کفر کیا اور لوگوں کو ایمان سے روکا۔ قولہ : خبراِنَّ الاولیٰ الخ یعنی پہلے اِنَّ کی خبر کو حذف کردیا ہے اسلئے اِنَّ ثانیہ کی حذف پر دال ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیت میں تلاوت اعوذ باللہ پڑھنے کا حکم تھا اس لئے کہ تلاوت قرآن کے وقت شیطان مختلف قسم کے وسوسے دل میں ڈالتا ہے، اس آیت میں شیطان کے مختلف وسوسوں کا ذکر اور ان کا جواب ہے۔
نبوت پر کفار کے شبہات کا جواب مع تہدید : ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہوسکتا ہے، یعنی ایک آیت کے لفظ یا معنی منسوخ کرکے دوسرا حکم بھیج دیتے ہیں حالانکہ جو حکم اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ بھیجتا ہے اس کی مصلحت اور حکمت وہی خوب جانتا ہے کہ جن کو یہ حکم دیا گیا ہے ان کے حالات کے اعتبار سے ایک وقت میں مصلحت کچھ تھی پھر حالات بدل جانے سے مصلحت اور حکمت دوسری ہوگئی تو یہ لوگ کہتے ہیں معاذ اللہ آپ افترا کرتے ہیں کہ اپنے کلام کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ورنہ اگر اللہ کا حکم ہوتا تو اس کے بدلنے کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ کو پہلے حالات بدلنے کا علم نہ تھا یا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ ایسا حکم بھیجے جو ہرحال میں اور ہر زمان میں قابل عمل ہو، یہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ بعض اوقات تمام حالات کا علم ہونے کے باوجود پہلی حالت پیش آنے پر حکم دیا جاتا ہے اور دوسری حالت پیش آنے کا اگرچہ اس کو علم ہوتا ہے مگر بتقاضائے مصلحت اس دوسری حالت کا حکم اس وقت بیان نہیں کیا جاتا، بلکہ جب وہ حالت پیش آجاتی ہے اس وقت بیان کیا جاتا ہے جیسے طبیب یا ڈاکٹر ایک وقت ایک دوا تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے استعمال سے حالت بدلے گی اور اس وقت دوسری دوادی جائے گی، مگر مریض کو ابتداءً سب تفصیل نہیں بتاتا، یہی حقیقت نسخ احکام کی ہے جو قرآن وسنت میں ہوتا ہے جو حقیقت سے واقف نہیں وہ باغواء شیطانی نسخ کا انکار کرنے لگتے ہیں، اسی لئے اس کے جواب میں حق تعالیٰ مفری نہیں ہے بلکہ انہی میں اکثر جاہل ہیں کہ نسخ کو بلادلیل کلام الہٰی ہونے کے خلاف سمجھتے ہیں۔
البتہ جو لوگ مومن ہیں وہ کہتے ہیں کہ ناسخ اور منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں علاوہ ازیں نسخ کے مصالح جب ان کے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر مزید ثبات قدمی اور ایمان میں رسوخ پیدا ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ قرآن مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی سی ہے جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض خاروخس کے سواکچھ نہیں اگتا، مومن کا دل ظاہر اور شفاف ہوتا ہے جو قرآن کی برکت اور ایمان کے نور سے منور ہوجاتا ہے، اور کافروں کا دل زمین شور کیطرح ہوتا ہے جو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے بھرا رہتا ہے جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بےاثر رہتی ہیں
وَلَقَدْ ۔۔۔ بَشَر، مشرکین مکہ کا یہ کہنا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فلاں شخص سکھاتا ہے اور محمد اس کلام کو خدا کی طرف منسوب کرکے خدائی کلام کہتے ہیں ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحضرمی کا ایک رومی غلام تھا دوسری روایت میں حویطب بن عبدالعزّیٰ کے ایک غلام کا نام آیا ہے جسے عائش یا یعیش کہتے تھے، ایک اور روایت میں یسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابوفکُیہہ تھی جو مکہ کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا، اور ایک روایت میں بلعان یا بلعام نامی ایک رومی غلام کا ذکر ہے، بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھکر کہ ایک شخص توراۃ و انجیل پڑھتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سے ملاقات اور دیدشیند ہے بےتکلف یہ الزام گھڑدیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کررہا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے کر پیش کر رہے ہیں، اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین آپ کے خلاف افتراء پر دازیاں کرنے میں کس قدر بےباک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بےانصاف ہوتے ہیں۔
ان کے لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک عظیم شخصیت تھی جس کی نظیرنہ اس وقت دنیا بھر میں کہیں تھی اور نہ آج تک پائی گئی، مگر ان عقل کے اندھوں کو اس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ توراۃ، انجیل پڑھ لیتا تھا بہت قابل نظر آرہا تھا۔
من۔۔۔ ایمانہ (الآیۃ) اس آیت میں ان مظلوم مسلمانوں کا تذکرہ ہے کہ جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، کوئی دن
ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ان میں سے ایک نہ ایک دست ستم سے زخم خوردہ ہو کر نہ آتا ہو، اور انھیں ناقابل برداشت اذیتیں دے کر کفر پر نہ کیا جاتا ہو، انھیں بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کیلئے کلمۂ کفر زبان سے ادا کرو اور تمہارا دل عقیدۂ کفر سے محفوظ ہو تو معاف کردیا جائیگا، لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کرلیا تو دنیا میں سے چاہے جان بچالو، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔ اس کا مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کیلئے کلمہ کہ دینا چاہیے، بلکہ صرف رخصت ہے البتہ مقام عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے مگر وہ کلمۂ حق ہی کا اعلان کرتا رہے دونوں قسم کی نظریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں پائی جاتی ہیں، ایک طرف خباب بن اَرت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹا دیا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے، دوسرے بلال حبشی ہیں جن کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کردیا جاتا تھا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا جاتا تھا مگر وہ ” احد احد “ ہی کہتے رہتے تھے، ان ہی مظلوم و مجبور لوگوں میں حبیب بن زید بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مسیلمہ کذاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں مگر وہ ہر مرتبہ اس کے دعوائے رسالت کی تصدیق سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دیدی اور دوسری طرف عمار بن یاسر ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد ان کی والدہ کو سخت عذاب دے کر شہد کردیا گیا پھر ان کو اتنی ناقابل برداشت تکلیفیں دی گئیں کہ آخر کار انہوں نے جان بچانے کے لئے وہ سب کچھ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے پھر وہ روتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ماتُرِکتُ حتی سببتکَ و ذکرتُ آلِھَتَھُمْ بخیر، یارسول مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں آپ کو برا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا ” کیف تحد قلبک “ اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو عرض کیا ” مطمَئِنًّا بالا یمان “ ایمان پر پوری طرح مطمئن اس پر حضور نے فرمایا ” اِن عادو افعد “ اگر اس طرح ظلم کریں تو پھر وہی باتیں کہہ دینا۔
ثم۔۔۔ ھاجروا (الآیۃ) یہ مکہ کے لوگوں کے ان مسلمانوں کا تذکرہ ہے جو کمزور تھے اور قبول اسلام کی وجہ سے کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے بالآخر ان کو ہجرت کا حکم دیا گیا، تو اپنے خویش و اقارب، وطنِ مالوف اور مال و جائیداد سب کچھ چھوڑ کر حبشہ یا مدینہ چلے گئے، پھر جب کفار کے ساتھ معرکہ آرائی ہوئی تو مردانہ وار جہاد میں بھر پور حصہ لیا اور اس کی راہ کی شدتوں اور تکالیف کو صبر کے ساتھ برداشت کیا، ان تمام باتوں کے بعد یقیناً تیرا رب ان کے لئے غفور رحیم ہے۔
سوال : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة نحل مکی ہے پھر اس میں ہجرت و جہاد کا ذکر کیسا، اس کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : اول تو ابن عطیہ کی روایت کے مطابق یہ آیت مدنی ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ ہجرت سے مراد ہجرت حبشہ ہے اس صورت میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، تیسرا جواب یہ ہے کہ صیغۂ ماضی کے ذریعہ اخبار مستقبل کی مثالیں قرآن میں بکثرت موجود ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اس قرآن کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم میں ایسے امور کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے لئے حجت ہوں حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ حاکم اور حکمت والا ہے، جو احکام کو مشروع کرتا ہے اور اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر کسی حکم کو بدل کر اس کی جگہ کسی دوسرے حکم کو لے آتا ہے۔ پس جب وہ اس قسم کی تبدیلی دیکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم میں عیب چینی کرتے ہیں ﴿قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ تو افترا پرداز ہے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” بلکہ ان میں سے اکثر نادان ہیں۔“ پس وہ جاہل ہیں جنہیں اپنے رب کے بارے میں کچھ علم ہے نہ شریعت کے بارے میں اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ جاہل کی جرح و قدح کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ کسی چیز کے بارے میں جرح و قدح اس کے بارے میں علم کی ایک شاخ ہے جو مدح اور قدح کی موجب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab hum aik aayat ko doosri aayat say badaltay hain aur Allah hi behtar janta hai kay woh kiya nazil keray to yeh ( kafir ) kehtay hain kay : tum to Allah per jhoot baandhney walay ho . halankay unn mein say aksar log haqeeqat ka ilm nahi rakhtay .
12 Tafsir Ibn Kathir
ازلی بدنصیب لوگ
مشرکوں کی عقلی، بےثباتی اور بےیقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو ؟ یہ تو ازلی بدنصیب ہیں، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے، حکم دے، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے۔ جیسے آیت ( مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ\010\06 ) 2 ۔ البقرة :106) میں فرمایا ہے۔ پاک روح یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہوجائیں، اب اترا، مانا، پھر اترا، پھر مانا، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں، مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہوجائے، اللہ اور رسول اللہ کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہوجائیں۔