(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے،
English Sahih:
And keep yourself patient [by being] with those who call upon their Lord in the morning and the evening, seeking His face [i.e., acceptance]. And let not your eyes pass beyond them, desiring adornments of the worldly life, and do not obey one whose heart We have made heedless of Our remembrance and who follows his desire and whose affair is ever [in] neglect.
1 Abul A'ala Maududi
اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگانی کا سنگھار چاہو گے، اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا،
3 Ahmed Ali
تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں (١) کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ (٢) جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (٣)۔
٢٨۔١ یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورہ الا نعام۔ ٥٢ میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحیح مسلم) ٢٨۔٢ یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف و اہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ ٢٨۔۳ فرطا، اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
6 Muhammad Junagarhi
اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)!) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں آپ ان کی معیت پر صبر کریں۔ اور دنیا کی زینت کے طلبگار ہوتے ہوئے ان کی طرف سے آپ کی آنکھیں نہ پھر جائیں۔ اور جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل چھوڑ رکھا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے اس کی اطاعت نہ کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اسکی خوشنودی کے طالب ہیں ان کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور دوسروں کو، جو اوامر نواہی میں آپ کے نمونہ پر عمل پیرا ہیں، حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مومنوں کے ساتھ جوڑے رکھیں جو اللہ کے بندے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ ﴿ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ ﴾ ” جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح و شام“ یعنی دن کے پہلے اور آخری حصے میں، اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بندگی اور اس میں ان کے اخلاص کو بیان کیا ہے۔ پس اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے ان کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اختلاط میں، نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے۔ خواہ یہ نیک لوگ فقرا ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی صحبت میں اتنے فوائد ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔ ﴿وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ﴾ ” اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظریں ان سے تجاوز کریں نہ آپ اپنی نظروں کو ان سے ہٹائیں۔ ﴿تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” دنیا کی زندگی کی رونق کی تلاش میں“ کیونکہ یہ چیز نقصان دہ ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں یہ تمام دینی مصالح کی قاطع ہے یہ دنیا سے دل کے تعلق کی موجب بنتی ہے، دل میں اندیشے اور وسوسے جاگزیں ہوجاتے ہیں اور دل سے آخرت کی رغبت زائل ہوجاتی ہے دنیا کی زیب و زینت دیکھنے والے کو بہت خوش کن نظر آتی ہے، قلب پر جادو کردیتی ہے جس سے قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو کر لذات و شہوات میں مگن ہوجاتا ہے تب وہ اپنے وقت کو ضائع کر کے اپنے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ دائمی خسارے میں پڑجاتا ہے اور ابدی ندامت اس کا نصیب بن جاتی ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا ﴾ ” اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو سزا دی کہ اسے اپنے ذکر سے غافل کردیا۔ ﴿وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ﴾ ” اور وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا“ اس کے نفس نے جو چاہا وہ کیا اور اس کو پا لینے کی کوشش کرنے لگا خواہ اس میں اس کی ہلاکت اور اس کے لیے خسارہ ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللّٰـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ﴾(الجاثیة:45؍23) ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کردیا۔“ ﴿ وَكَانَ أَمْرُهُ ﴾ ” اور اس کا کام ہے“ یعنی اس کے دین و دنیا کے مصالح ﴿فُرُطًا ﴾ ” حد سے نکل جانا“ یعنی ضائع اور معطل ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی اطاعت سے روکا ہے کیونکہ اس کی اطاعت اس کی پیروی کرنے کی دعوت دیتی ہے، نیز اس لیے کہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے وہ خود متصف ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہی شخص اطاعت کے لائق اور لوگوں کا امام بننے کے قابل ہے جس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہو اور اس کی زبان پر محبت الٰہی کا فیضان ہو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو اپنے رب کی رضا کی پیروی کرتا ہو اور اسے اپنے نفس کی خواہشات پر مقدم رکھتا ہو۔ پس اس طرح وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے گا، اس کے تمام احوال درست اور تمام افعال ٹھیک ہوجائیں گے۔ وہ لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دے گا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ پس یہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور اس کو امام بنایا جائے۔ آیت مقدسہ میں جس صبر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر ہے۔ یہ صبر کی بلند ترین قسم ہے اس کی تکمیل سے صبر کی باقی تمام اقسام کی تکمیل ہوتی ہے۔ آیت مبارکہ سے ذکر الٰہی، دعا اور دن کے دونوں حصوں میں عبادت کا استحباب مستفاد ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی مدح کی ہے اور جس فعل پر اللہ تعالیٰ فاعل کی مدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے تو اس کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur apney aap ko istiaqamat say unn logon kay sath sath rakho jo subha o shaam apney rab ko iss liye pukartay hain kay woh uss ki khushnoodi kay talabgaar hain . aur tumhari aankhen dunyawi zindagi ki khoobsurti ki talash mein aesay logon say hatney naa payen . aur kissi aesay shaks ka kehna naa maano jiss kay dil ko hum ney apni yaad say ghafil ker rakha hai , aur jo apni khuwaishaat kay peechay parra huwa hai , aur jiss ka moamla hadd say guzar chuka hai .