اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
And their prophet said to them, "Indeed, Allah has sent to you Saul as a king." They said, "How can he have kingship over us while we are more worthy of kingship than him and he has not been given any measure of wealth?" He said, "Indeed, Allah has chosen him over you and has increased him abundantly in knowledge and stature. And Allah gives His sovereignty to whom He wills. And Allah is all-Encompassing [in favor] and Knowing."
1 Abul A'ala Maududi
اُن کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے یہ سن کر وہ بولے : "ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں وہ تو کوئی بڑا ما ل دار آدمی نہیں ہے" نبی نے جواب دیا: "اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بیشک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہ ے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے
3 Ahmed Ali
ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک الله نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے انہوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہو سکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی پیغمبر نے کہا بے شک الله نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخ دی ہے اور الله اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو ہم بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالٰی اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے (١) بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے۔
٢٤٧۔١ حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے باشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے جس پر انہوں نے اعتراض کیا پیغمبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے اللہ تعالٰی نے انہیں مقرر کیا ہے علاوہ ازیں قیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہےبادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ خدا نےاس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاه بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیاده حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیده کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ بے شک خدا نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ ان لوگو ں نے کہا، اس کو ہم پر کس طرح حکومت کرنے کا حق ہو سکتا ہے۔ اس سے تو ہم حکومت کرنے کے زیادہ حقدار ہیں اسے تو مالی وسعت ملی ہی نہیں ہے (کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے)۔ نبی نے جواب دیا کہ اللہ نے اسے اس لئے تم پر فضیلت اور ترجیح دی ہے کہ اسے علم اور جسمانی طاقت میں زیادتی عطا کی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے۔ اپنا ملک عطا کرتا ہے۔ (کیونکہ) اللہ بڑی وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان کے پیغمبر علیھ السّلامنے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں. نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی
9 Tafsir Jalalayn
اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں پیغمبر نے کہا کہ خدا نے اس کو تم پر (فضیلت دی ہے اور بادشاہی کیلیے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ﴾” اور ان کے نبی نے (ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے) کہا ﴿اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ۭ﴾” اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔‘،یہ نام زدگی اللہ کی طرف سے تھی، لہٰذا ان کا فرض تھا کہ اسے قبول کرتے ہوئے اعتراضات بند کردیتے۔ لیکن انہوں نے اعتراض کردیا اور کہنے لگے ﴿ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ۭ ﴾” بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت حق دار بادشاہت کے ہم ہیں۔ اسے مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔“ یعنی وہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے۔ جب کہ وہ خاندانی طور پر ہم سے کم تر ہے۔ پھر وہ غریب اور نادار بھی ہے، اس کے پاس حکومت قائم رکھنے کے لئے مال بھی نہیں۔ ان کی اس بات کی بنیاد ایک غلط خیال پر تھی کہ بادشاہ اور سردار ہونے کے لئے اونچا خاندان اور بہت مالدار ہونا ضروری ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ترجیح کے قابل اصل صفات زیادہ اہم ہیں۔ اس لئے ان کے نبی نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰیہُ عَلَیْکُمْ﴾” سنو ! اللہ تعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کیا ہے۔“ لہٰذا اس کی اطاعت قبول کرنا تمہارا فرض ہے۔ ﴿ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ﴾ ” اور اسے اللہ نے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔“ یعنی اسے عقل اور جسم کی قوت عطا فرمائی ہے، اور ملک کے معاملات انہی دو چیزوں کی بنیاد پر صحیح طور پر انجام پاتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عقل و رائے میں کامل ہو، اور اس صحیح رائے کے مطابق احکام نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو، تو درجہ کمال حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو نظام میں خلل آجائے گا۔ اگر وہ جسمانی طور پر طاقت ور ہوا لیکن پورا عقل مند نہ ہوا تو ملک میں غیر شرعی سختی ہوگی اور طاقت کا استعمال حکمت کے مطابق نہیں ہوگا اور اگر وہ معاملات کی پوری سمجھ رکھنے والا ہوا، لیکن اپنے احکام نافذ کرنے کی طاقت سے محروم ہوا، تو اس عقل و فہم کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جسے وہ نافذ نہ کرسکے۔ ﴿ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ﴾” اللہ تعالیٰ کشادگی والا۔“ یعنی بہت فضل و کرم والا ہے اس کی عمومی رحمت کسی کو محروم نہیں رکھتی، بلکہ ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿ عَلِیْمٌ﴾ ” علم والا ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aur unn kay nabi ney unn say kaha kay : Allah ney tumharay liye taloot ko badshah bana ker bheja hai . kehney lagay : bhala uss ko hum per badshahat kernay ka haq kahan say aagaya-? hum uss kay muqablay mein badshahat kay ziyada mustahiq hain . aur uss ko to maali wusat bhi hasil nahi . nabi ney kaha : Allah ney unn ko tum per fazilat dey ker chuna hai , aur unhen ilm aur jism mein ( tum say ) ziyada wusat ata ki hai . aur Allah apna mulk jiss ko chahta hai deta hai . aur Allah bari wusat aur bara ilm rakhney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
خوئے بدرا بہانہ بسیار مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر نے بحکم الہ حضرت طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے، ایک لشکری تھے، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں، مفلس شخص ہے، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے، پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی، پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کرسکوں، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دل و دماغ والا ہونا چاہئے۔ پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے۔ اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے ؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے، وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں۔