یہ اﷲ کی آیتیں ہیں ہم انہیں (اے حبیب!) آپ پر سچائی کے ساتھ پڑھتے ہیں، اور بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں،
English Sahih:
These are the verses of Allah which We recite to you, [O Muhammad], in truth. And indeed, you are from among the messengers.
1 Abul A'ala Maududi
یہ اللہ کی آیات ہیں، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو، جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم اے محبوب تم پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے ہیں، اور تم بےشک رسولوں میں ہو۔
3 Ahmed Ali
یہ الله کی آیتیں ہیں ہم تمہیں ٹھیک طور پر پڑھ کر سناتے ہیں اوربے شک تو ہمارے رسولوں میں سے ہے
4 Ahsanul Bayan
یہ اللہ تعالٰی کی آیاتیں ہیں جنہیں ہم نے حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بایقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔
٢٥٢۔١ یہ گزشتہ واقعات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالٰی آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں (اور اے محمدﷺ) تم بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہو
6 Muhammad Junagarhi
یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ آیاتِ الٰہیہ (قدرتِ خدا کی نشانیاں) ہیں جنہیں ہم سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بے شک و شبہ آپ رسولوں میں سے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ آیااُ الہٰیہ ہیں جن کو ہم واقعیت کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں (اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہو
10 Tafsir as-Saadi
پھر فرمایا : ﴿ تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ﴾” یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں، جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں۔،یعنی ایسی سچائی کے ساتھ جس میں کوئی شک نہیں، جو اعتبار اور بصیرت کو بھی متضمن ہے اور بیان حقائق امور کو بھی ﴿ وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾” اور بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔“ اس میں اللہ کی طرف سے اپنے رسول کے لئے رسالت کی گواہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دلائل میں انبیائے سابقین، ان کے متبعین اور مخالفین کے ان واقعات کا بیان بھی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتا تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ آپ کی پوری قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوتا جس کو ان واقعات کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ اللہ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ جو حق لے کر آئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی سچا ہے جسے اللہ تعالیٰ تمام ادیان پر غالب کرنے والا ہے۔ اس قصہ میں بہت سی نصیحت آموز نشانیاں ہیں جن سے اہل علم کو نصیحت حاصل ہوتی ہے، مثلاً (1) پہلی بات یہ ہے کہ اہل حل وعقد کا جمع ہو کر یہ غور و فکر کرنا کہ ان کے معاملات کس طریقے سے سدھر سکتے ہیں اور پھر ان تجاویز پر عمل کرنا ترقی اور حصول مقصود کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جیسے ان سرداروں نے اپنے نبی سے بادشاہ مقرر کردینے کی درخواست کی تاکہ وہ متحد اور متفق رہیں اور ایک بادشاہ کا حکم مانیں۔ (2) جب حق کی مخالفت کی جائے اور اس پر شبہات وارد کئے جائیں، تو اس سے حق زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں یقین تام حاصل ہوجاتا ہے، جیسے ان لوگوں نے طالوت کے بادشاہت کا مستحق ہونے پر اعتراض کیا، تو انہیں ایسے جواب دیئے گئے کہ وہ مطمئن ہوگئے اور شک و شبہ ختم ہوگیا۔ (3) حکومت کو کمال تب حاصل ہوتا ہے جب حاکم علم و عقل بھی رکھتا ہو اور نافذ کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو۔ ان میں سے کسی ایک شرط کا، یا دونوں شرطوں کا فقدان سلطنت کے نقصان کا باعث ہے۔ (4) اپنے آپ پر اعتماد کرنے سے ناکامی حاصل ہوتی ہے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے اللہ سے مدد مانگنا اور اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اس کی پناہ حاصل کرنا فتح و کامیابی کا ذریعہ ہے۔ پہلی صورت کی مثال ان کا اپنے نبی سے یہ کہنا ہے ﴿وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَاۗیِٕنَا ۭ﴾” بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں“ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جہاد کا حکم ہوا تو وہ منہ موڑ گئے۔ دوسری صورت کی مثال اللہ کا یہ فرمان ہے ﴿ وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾ ” جب وہ جالوت کے مقابلے میں آئے تو ان سب نے دعا مانگی ! اے پروردگار ! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو شکست ہوگئی۔ (5) اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ ناپاک کو پاک سے، سچے کو جھوٹے سے، ثابت قدمی والے کو بزدل سے ممتاز اور الگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ملے جلے اور غیر نمایاں نہیں رہنے دیتا۔ (6) اللہ کی رحمت اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے شر کو مجاہد مومنوں کے ذریعے سے دور کردیتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو زمین میں کافروں کا غلبہ ہوتا اور کافرانہ طور طریقے ہر جگہ پھیل جاتے جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh Allah ki aayaat hain jo hum aap kay samney theek theek parh ker sunatay hain , aur aap beyshak unn payghumberon mein say hain jo Rasool bana ker bhejay gaye hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں، تم میرے سچے رسول ہو، میری ان باتوں کی اور خود آپ کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پر تاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کی۔ فالحمداللہ۔