البقرہ آية ۲۸۴
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِۗ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِىْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُۗ فَيَـغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۤءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ
طاہر القادری:
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے، وہ باتیں جو تمہارے دلوں میں ہیں خواہ انہیں ظاہر کرو یا انہیں چھپاؤ اﷲ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا، اور اﷲ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے،
English Sahih:
To Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth. Whether you show what is within yourselves or conceal it, Allah will bring you to account for it. Then He will forgive whom He wills and punish whom He wills, and Allah is over all things competent.
1 Abul A'ala Maududi
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا تو جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا سزادے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے،
3 Ahmed Ali
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور اگر تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو گے یا چھپاؤ گے الله تم سے اس کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے بخشے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا اور الله ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
آسمانوں اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالٰی ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالٰی اس کا حساب تم سے لے گا (١) پھر جسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔
٢٨٤۔١ احایث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ نماز، روزہ، زکوۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجا لاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن اللہ تعالٰی نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے کہا اللہ تعالٰی نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کر دیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کر دیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ﻇاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا۔ پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب کچھ) خدا کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ خواہ تم اس کو ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ۔ خدا سب کا تم سے محاسبہ کرے گا۔ اور پھر جسے چاہے گا۔ بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی کِل کائنات ہے تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈالو وہ سب کا محاسبہ کرے گا وہ جس کو چاہے گا بخش دے گااور جس پر چاہے گا عذاب کرے گا وہ ہرشے پر قدرت و اختیار رکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
آیت نمبر ٢٨٤ تا ٢٨٦
ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے برے اعمال اور ان کا پختہ ارادہ جو تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو اللہ ان کی تم کو قیامت کے دن سزا دے گا، پھر جس کی مغفرت چاہے گا مغفرت کر دے گا اور جس کو عذاب دینا چاہے گا عذاب دیگا دونوں فعل (یغفر اور یعذب ) جواب شرط (یُحَاسِبْکم) پر عطف ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں اور تقدیر ھو کی وجہ سے مرفوع بھی، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور انہیں چیزوں میں سے تمہارا محاسبہ کرنا اور تم کو جزاء دینا ہے رسول یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو تصدیق کی جو ان پر ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا، اور مومنین نے (بھی) اس کا عطف اَلرّسول پر ہے، یہ سب (کّلٌّ) کی تنوین مضاف الیہ کے عوض ہے (ای کلّھُمْ ) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لائے (کُتُبْ ۔ کتاب) جمع اور افراد کے ساتھ ہے، اور اس کے رسولوں پر وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں باہم کوئی فرق نہیں کرتے کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا، اور انہوں نے کہا جس کا آپ نے ہم کو حکم دیا قبولیت کے کان سے ہم نے سن لیا، اور ہم نے اطاعت کی اے ہمارے پروردگار ہم آپ سے خطابخشی کا سوال کرتے ہیں اور تیری ہی طرف واپسی ہے، یعنی بعث کے ذریعہ لوٹنا ہے اور جب ماقبل کی آیت نازل ہوئی تو مومنین نے وسوسوں کے بارے میں شکایت کی اور ان پر وسوسوں کے بارے میں حساب فہمی گراں گزری تولا یُکَلِفُ اللہُ نِفْسًا الخ نازل ہوئی، اللہ کسی کو طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا یعنی جو اس کے بس میں ہو، جو نیکی جس نفس نے کمائی اس کا ثواب اس کے لئے ہے اور جس نے جو بدی کمائی اس کا گناہ اس پر ہے کوئی کسی کے جرم میں ماخوذ نہ ہوگا اور ناکردہ جرم یعنی نفس کے وسوسوں میں ماخوذ ہوگا کہو، اے ہمارے پروردگار ہماری عذاب کے ذریعہ گرفت نہ فرما اگر ہم سے بھول ہو یا چوک ہوجائے (یعنی) بلاقصد ہم درستگی کے تاریک ہوجائیں جیسا کہ آپ نے اس پر ہم سے ماقبل والوں کی گرفت فرمائی، اور اللہ تعالیٰ نے اس امت سے بھول چوک کو معاف فرما دیا، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، پھر (معافی) کی درخواست دراصل اللہ کی نعمت کا اعتراف ہے اے ہمارے پروردگار، ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پیشتر تھے بنی اسرائیل، کہ وہ توبہ کے عوض قتل نفس ہے اور زکوٰۃ میں چوتھائی مال کی زکوٰۃ نکالنا، اور امام نجاست کو کاٹنا، یعنی ایسا حکم جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہو، تکالیف اور مصائب کے قبیل سے، اور ہم سے ہمارے گناہوں کو درگذر فرما اور ہم کو معاف فرما اور رحم فرما رحمت میں مغفرت کے مقابلہ میں زیادتی ہے، تو ہی ہمارا آقا ہے یعنی ہمارے امور کا متولی ہے سو ہم کو کافروں پر غلبہ عطا فرما قیام حجت میں اور ان سے قتال میں فتح کے ساتھ، اس لیے کہ آقا کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غلاموں کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کرتا ہے اور حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تلاوت فرمائی، تو ہر کلمہ کے بعد (رسول) سے کہا گیا۔ قد فَعَلْتُ ، یعنی میں نے منظور کیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : تُظْھِرُوْا، تُبْدُوْا، کی تفسیر تَظْھِرُوا سے کرکے اشارہ کردیا کہ تُبْدُوْا، اِبْداءٌ سے ہے کہ بَدْءٌ سے جس کے معنی شروع کرنے کے ہیں
قولہ : میں سوءٍ ، مِن بیانیہ ہے، ” ما “ کا بیان ہے۔
قولہ : یُحَاسِبْکُمْ ، اس کی دو تفسیریں ہیں ایک یجزکُمْ اور دوسری یُخْبِرُکم، ہے مفسر علام نے سوءٌ کی تفسیر والعزم علیہ سے پہلے لفظ کے اعتبار سے کی ہے، اور والعزم علیہ میں واؤ تفسیری ہے مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں جو پختہ خیالات آتے ہیں یعنی جن کو عملی جامہ پہنانے کا عزم مصمم ہوتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ فرمائیں گے اس لیے کہ محض وساوس قلبی پر مواخذہ نہیں ہے۔
قولہ : والعزم علیہ، سے ایک اعتراض کا جواب بھی مقصود ہے۔
سوال : وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بہِ اللہُ ، سے معلوم ہوتا ہے کہ وساوس قلبی پر بھی مؤاخذہ ہوگا حالانکہ وساوس قلبی پر بندے کا اختیار نہیں ہے نیز یہ تکلیف مالایطاق بھی ہے۔ اس کا جواب دیا کہ مافی انفسِکم سے وہ وساوس مراد ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کا عزم مصمم کرلیا گیا ہو، اسی طرح مفسر علام نے یُحَاسِبْکُم کی تفسیر یخبرکم سے کر کے بھی اس سوال کا جواب دیدیا کہ حدیث شریف میں فرمایا کہ وساوس قلبی پر کوئی مواخذہ نہیں جب کہ ان کو عملی جامہ نہ پہنائے۔ اس کا جواب دیا کہ یحاسبکم کے معنی ہیں یخبرکم یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن، قلبی وساوس سے بھی بندے کو آگاہ کر دے گا۔ اور جن نسخوں میں یخزکم ہے تو پھر نسخ لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا سے ہوگا۔ سابقہ آیت وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ الخ، کو اگر عام رکھا جائے جو قلبی وساوس اور معزومات کو بھی شامل ہو تو آئندہ آیت ” لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا “ الخ اس کی ناسخ ہوگی اور اگر سابقہ آیت کو عزم پر محمول کیا جائے تو پھر نسخ نہیں ہوگا بلکہ لاحقہ آیت سابقہ آیت کی توضیح ہوگی۔
قولہ : عطفاً علی جواب الشرط، اگر یَغْفِرْ اور یُعَذِّبْ کو جزم کے ساتھ پڑھا جائے تو جواب شرط یعنی یُحَاسِبْ پر عطف ہوگا اور اگر دونوں کو مرفوع پڑھا جائے تو، ھُوْ مبتداء محذوف کی خبر ہوگی اور جملہ استینافیہ ہوگا۔
قولہ : تَنْوِیْنُہٗ عوض عن المضاف الیہ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : جب المؤمنون کا عطف الرسول پر ہے، تو جملہ معطوفہ ہو کر خبر مقدم ہوگی اور کُلُّ مبتداء موخر ہوگا، حالانکہ کُلُّ کا نکرہ ہونے کی وجہ سے مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : کُلُّ اضافت الی الغیر کی وجہ سے معرفہ ہے اس لیے کہ کُلُّ کی تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے تقدیر عبارت کلّھُمْ ہے اور عوض کا حکم مُعَوْض کا ہوتا ہے۔
قولہ : یقولون۔ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یقولون کے مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : لاَنُفرِّقُ ، جمع متکلم کا صیغہ ہے اس میں جو ضمیر جمع متکلم ہے وہ الرسول اور المؤمنین کی طرف راجع ہے حالانکہ وہ اسم ظاہر ہونے کی وجہ سے بحکم غائب ہیں، اور غائب کی طرف کلام واحد میں متکلم کی ضمیر نہیں لوٹ سکتی، لہٰذا نفرقُ سے پہلے یقولون مقدر مان لیا تاکہ جمع اور ضمیر میں مطابقت ہوجائے۔
اللغۃ والبلاغۃ
الطاقۃ، المجھود والقدرۃ، یہ مصدر حذف زوائد کے ساتھ استعمال ہوا ہے اصل میں اَلاِطَاقۃُ تھا، الاِصر بھاری بوجھ، تکالیف شاقہ، سخت دشوار امور (ض) مقابلہ : لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ، اس میں صفت مقابلہ ہے۔ صفت مقابلہ کی تعریف یہ ہے کہ دو یا زیادہ متوافق معنی لائے جائیں پھر علی الترتیب ہر لفظ کا متقابل لایا جائے، جیسے فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلاً وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا یہاں یضحکوا اور قلیلا متوافق لفظ ہیں اس کے بعد اسی ترتیب سے یَبْکوا اور کثیرا لایا گیا ہے مذکورہ آیت میں لَھَا، اور عَلَیْھَا، ان دونوں میں مقابلہ ہے اسی طرح، کَسَبَتْ اور ما اکْتَسَبَتْ میں بھی مقابلہ ہے اول فعل عمل خیر کے ساتھ خاص ہے اور دوسرا فعل عمل شر کے ساتھ خاص ہے۔ (اعراب القرآن للدرویش) ۔ حسن الختام، یہ ہے کہ تفصیلی طور پر جن امور کو پورے مضمون میں بیان کیا گیا، اس پورے مضمون کے ایجاز و اختصار کے ساتھ خاتمہ کلام میں اعادہ کردینا۔
سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، سورت کو ختم کرتے وقت بھی ان تمام بنیادی اصولوں کو بیان کردیا گیا ہے جن پر دین اسلام کی اساس قائم ہے تقابل کے لیے اس سورت کے پہلے رکوع کو پیش نظر رکھا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔
تفسیر و تشریح
للہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ قرآن مجید کی طویل ترین سورت کا یہ آخری رکوع ہے اس میں عقیدہ توحید کا پھر اعادہ ہے، سوت کا آغاز اصول دین سے متعلق جامع تعلیم سے ہوا تھا، سورت کا خاتمہ بھی اسی جامعیت کے ساتھ بنیادی عقائد پر ہو رہا ہے، اسی کو بلاغت کی اصطلاح میں حسن الختام کہا جاتا ہے۔
احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) بڑے پریشان ہوئے، دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج و جہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجالاتے ہیں، کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں، لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں ہے اور وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فی الحال تم سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ہی کہو، صحابہ کے جذبہ سمع و اطاعت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کو، آیت لَایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا، سے منسوخ فرما دیا۔ (فتح القدیر)
صحیحین اور سنن اربعہ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے، اِنَّ اللہ تَجَاوَزَلِی عن امتی مَا وَسْوَسَتْ بہ صَدْرُھَا مالَمْ تعمل اَوْ تتکلّم، اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے، البتہ ان باتوں پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار کیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ وساوس اور خیالات پر ہمیشہ مؤاخذہ نہیں ہوگا، صرف اس وقت مؤاخذہ ہوگا جب وہ عمل کے قالب میں ڈھل جائیں اور ان کے کرنے کا پختہ عزم ہوجائے۔ امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لیے کہ محاسبہ تو ہر ایک کافر مائیں گے، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو محاسبہ کے باوجود اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ سب کو اسی نے پیدا کیا، رزق دیا، ان کے دینی اور دنیوی فوائد کا بندوبست فرمایا۔ چنانچہ وہ سب اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لئے نفع کا اختیار رکھتے ہیں نہ نقصان کا، نہ موت کا نہ حیات کا، نہ مرکر جینے کا۔ وہ ان کا رب ہے، ان کا مالک ہے، جو اپنی حکمت، عدل اور احسان کے مطاب ان میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اس نے انہیں کچھ کاموں کا حکم دیا ہے، کچھ کاموں سے منع فرمایا۔ لہٰذا وہ ان سے ان کے ظاہر اور پوشیدہ اعمال کا حساب لے گا۔ ﴿فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ﴾” پھر جسے چاہے گا بخشے گا۔“ یعنی جس کے پاس مغفرت کے اسباب موجود ہوں گے۔﴿ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ﴾” اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔“ اسے ان گناہوں کی سزا ملے گی، جن کی معافی کے اسباب حاصل نہیں ہوئے۔﴿وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ کوئی چیز اس کے بس سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کے غلبہ، مشیت، تقدیر اور جز اور سزا کے قوانین کے ماتحت ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo kuch aasmano mein hai aur jo kuch zameen mein hai sabb Allah hi ka hai . aur jo baaten tumharay dilon mein hain , khuwa tum unn ko zahir kero ya chupao , Allah tum say unn ka hisab ley ga . phir jiss ko chahye ga moaaf kerday ga aur jiss ko chahye ga saza dey ga . aur Allah her cheez per qudrat rakhta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان کے ضمیر سے خطاب
یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے، جیسے اور جگہ فرمایا آیت قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران :29) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا، جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہوگا، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر گھٹنوں کے بل گرپڑے اور کہنے لگے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، تمہیں چاہئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چناچہ صحابہ کرام نے اسے تسلیم کرلیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہوگئے تو آیت (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :285) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کردیا اور آیت لایکلف اللہ نازل ہوئی (مسند احمد) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر آیت لایکلف اللہ الخ، اتاری اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نعم، یعنی میں یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا آیت ربنا ولا تحمل علینا الخ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول، پھر کہا ربنا ولاتحملنا اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، اسے بھی قبول کیا گیا۔ پھر دعا مانگی اے اللہ ہمیں معاف فرمادے، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس آیت وان تبدوا کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے، آپ نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ کا ہوا تھا، وہ سخت غمگین ہوگئے اور کہا دلوں کے مالک تو ہم نہیں۔ دل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا سمعنا واطعنا کہو، چناچہ صحابہ نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہوگئی، دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں، لیکن دلی وسو اس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات سے درگزر فرما لیا، گرفت اسی پر ہوگی جو کہیں یا کریں، بخاری مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو (مسلم) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رکے رہو جب تک کر نہ لے، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی نیکی بڑھا دی جاتی ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا بردبار ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو، ایک مرتبہ اصحاب نے آکر عرض کیا حضرت کبھی کبھی تو ہمارے دل میں ایس وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے (مسلم وغیرہ) حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہوگی۔ ارشاد ہے (آیت ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دلی شک اور دلی نفاق کی بنا پر، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے، امام ابن جریر بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے۔ حساب لئے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کردیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو، چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ تم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ حضرت زید نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں حضرت عائشہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا جب سے میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا، مگر آج تو نے پوچھا تو سن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو۔ ترمذی وغیرہ، یہ حدیث غریب ہے۔