البقرہ آية ۳۵
وَقُلْنَا يٰۤـاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَـنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَاۖ وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اور ہم نے حکم دیا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو اور تم دونوں اس میں سے جو چاہو، جہاں سے چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گے،
English Sahih:
And We said, "O Adam, dwell, you and your wife, in Paradise and eat therefrom in [ease and] abundance from wherever you will. But do not approach this tree, lest you be among the wrongdoers."
1 Abul A'ala Maududi
پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ "تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے"
2 Ahmed Raza Khan
اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے-
3 Ahmed Ali
اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں جا کر رہو اور اس میں جو چاہو اور جہاں سےچاہو کھاؤ اور اس درخت کے نزدیک نہ جاؤ پھر ظالموں میں سے ہو جاؤ گے
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو (١) اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا (٢) ورنہ ظالم ہو جاؤ گے۔
٣٥۔١ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔
٣٥۔٢ یہ درخت کس چیز کا تھا؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کر دیا گیا ہے جو بے اصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ﻇالم ہوجاؤ گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں بہشت میں رہو۔ اور اس سے جہاں سے تمہارا دل چاہے مزے اور فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ لیکن اس (مخصوص) درخت کے پاس نہ جانا (اس کا پھل نہ کھانا) ورنہ تم زیاں کاروں میں سے ہو جاؤگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے کہا کہ اے آدم علیھ السّلام! اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنّت میں ساکن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے کھاؤ صرف اس درخت کے قریب نہ جانا کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤگے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بےروک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہوجاؤ گے
اُسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ ، لفظ انت کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اصلی حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام تھے، حضرت حواء کی حیثیت تابع کی تھی، مذکورہ آیت میں حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) دونوں کے لئے جنت کو مسکن بنانے کا ارشاد ہے جس کو مختصر لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے، اُسْکُنَا الجنةَ یعنی دونوں جنت میں رہو جیسا کہ : وَکُلَا، اور لَا تَقْرَبَا، میں دونوں کو ایک صیغہ میں جمع کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے خلاف اَنْتَ وَزَوْجُکَ ، کے الفاظ اختیار کرنے میں مخاطب صرف حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو قرار دیا ہے اور انہی سے فرمایا کہ تمہاری زوجہ بھی جنت میں رہیں اس میں دو مسئلوں کی طرف اشارہ ہے۔
(1) اول یہ کہ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے دوسرے یہ کہ سکونت میں بیوی شوہر کے تابع ہے، جس مکان میں شوہر رہے اسی میں رہنا چاہیے۔
(2) اُسْکُنْ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس وقت ان دونوں حضرات کے لئے جنت کا قیام محض عارضی تھا بطور ملکیت نہ تھا، کیونکہ اُسْکُنْ ، کے معنی ہیں اس مکان میں رہا کرو، یہ نہیں فرمایا کہ یہ مکان تمہارا ہے یا تمہیں دیدیا گیا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ آئندہ ایسے حالات پیش آنے والے ہیں کہ آدم و حواء (علیہما السلام) کو یہ مکان چھوڑنا پڑے گا، اس لئے کہ جنت کا دائمی اسیحقاق تو قیامت کے بعد ایمان و عمل کے صلہ میں ہوگا۔
غذا و خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں : وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا، یعنی تم دونوں جنت میں با فراغت کھاؤ، اس میں خطاب صرف آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو نہیں ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی لفظ میں شریک کرکے تثنیہ کا صیغہ استعمال فرمایا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غذا اور خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں وہ اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق استعمال کرسکتی ہیں۔ (معارف)
مسئلہ عصمت انبیائ : اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو ایک خاص قسم کے درخت سے کھانے بلکہ پاس جانے سے بھی منع کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی متنبہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس سے ہوشیار رہنا، اس کے باوجود حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام نے اس درخت سے کھالیا، جو بظاہر گناہ ہے حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) گناہ سے معصوم ہوتے ہیں، قرآن کریم میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا حضرت آدم علیہ الصلوٰة السلام کا یہ واقعہ بھی اسی میں داخل ہے۔
ایسے واقعات کا حاصل باتفاق امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطاء و نسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا ہے کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا خطاء اجتہادی ہوتی ہے، یہ خطاء و نسیان کے سبب باقی معافی ہوتی ہے، جس کو اصطلاح میں گناہ نہیں کہا جاسکتا، اور سہو و نسیان کی غلطی ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ وتعلیم و تشریح سے ہو، بلکہ ذاتی افعال و اعمال میں ایسا سہو و نسیان ہوسکتا ہے۔ (بحر محیط معارف)
آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی خطاء کی توجیہ
اول : یہ کہ جس وقت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو منع کیا گیا تھا تو ایک خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا تھا اور مراد وہی خاص درخت نہیں تھا، بلکہ اس کی جنس کے سارے درخت مراد تھے، ہوسکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام نے اسی مخصوص درخت کی ممانعت سمجھی ہو اور شیطان نے بھی اسی خیال کو وسوسہ کے ذریعہ مستحکم کردیا ہو، اور قسم کھا کر باور کرایا ہو کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو جس وقت شیطان نے اس درخت کے کھانے کے منافع بتلائے ہوں کہ اس درخت کے کھانے سے ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہنے کا اطمینان ہوجائے گا اور اس وقت حضرت آدم کو ممانعت یاد نہ رہی ہو، قرآن مجید کی آیت : \&\& فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہ عَزْمًا \&\& سے اس احتمال کی تائید ہوتی ہے۔
بہرحال اس طرح کے متعدد احتمالات ہوسکتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جان بوجھ کر نافرمانی کا صدور نہیں ہوا، مگر آدم علیہ الصلوٰةو السلام کی شان نبوت اور قرب خداوندی کے مقام کے اعتبار سے یہ لغزش بڑی سمجھی گئی اور قرآن میں اس کو لفظ معصیت سے تعبیر کیا گیا، اور آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی توبہ و استغفار کے بعد کافی کا ذکر فرمایا۔
فائدہ : عام طور پر یہ مشہور ہے کہ حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی بائیں پسلی سے ہوئی ہے یہ روایت تورات کی ہے۔
اور خداوند نے کہا : اچھا نہیں آدم اکیلا رہے، میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کے مانند بناؤں گا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سوگیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا، اور خداوند خدا نے اس کی پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی، ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس وجہ سے وہ ناری کہلائے گی کہ وہ نر سے نکالی گئی۔
حدیث کی طعض روایتیں جو اس مضمون کی مروی ہوئی ہیں ان میں سے کوئی ایسی نہیں کہ جسے قطعی صحت کا درجہ حاصل ہو۔ (ماجدی)
شجر ممنوعہ کیا تھا : ظاہر ہے کہ یہ درخت جنت کے درختوں میں سے کوئی معروف و متعین درخت تھا، حضرت آدم بھی اس سے واقف تھے، لہٰذا اس کی تعیین کے درپے ہونے سے کوئی فائدہ نہیں، جس کو اللہ نے مبہم رکھا، اس کو مبہم ہی رکھنا بہتر ہے محقق امام ابن جزری کا موقف بھی خاموشی اور سکوت کا ہے ہماری بعض تفسیروں میں مادی درختوں میں سے گندم، خرما، کافور، انجیر، حنظل وغیرہ، سے لے کر شجرہ محبت اور شجرہ علم وغیرہ معنوی درختوں تک بہت نام شمار کرائے گئے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا﴾ ’’اور ہم نے کہا، اے آدم ! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم اس سے خوب سیر ہو کر۔“ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا، اس کو فضیلت عطا کی، تو خود اسی میں سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے اس پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس سکون، راحت اور انس حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ جنت میں رہیں اور جنت میں مزے سے بے روک ٹوک کھائیں پئیں۔
﴿ حَيْثُ شِئْتُمَا﴾یعنی جہاں سے چاہو، مختلف اصناف کے پھل اور میوے کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ﴾(طہ۔2؍118۔119)’’یہاں تجھے یہ آسانی حاصل ہوگی کہ تو اس میں بھوکا رہے گا نہ عریاں ہوگا نہ تو اس میں پیاسا ہوگا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔ “
﴿ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ﴾” اور دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا“ یہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ واللہ اعلم۔ آدم اور اس کی بیوی کو صرف ان کی آزمائش اور امتحان کے لئے یا کسی ایسی حکمت کے تحت اس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا جو ہمارے علم میں نہیں۔ ﴿ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾” پس تم بے انصافوں میں سے ہوجاؤ گے“ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں نہی تحریم کے لئے ہے، کیونکہ اس ممانعت پر عمل نہ کرنے کو ظلم کہا ہے۔ ان کا دشمن (ابلیس) ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا اور اس درخت کے پھل کو تناول کرنے کی خوبیوں کو مزین کر کے انہیں اس پھل کو کھا لینے کی ترغیب دیتا رہا حتیٰ کہ وہ انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ابلیس کی تزئین نے ان کو اس لغزش پر آمادہ کیا۔ ﴿ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ﴾(لاعراف : 7؍ 21) ” اس نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔“ چنانچہ وہ دونوں اس کی باتوں میں آ کر دھوکا کھا گئے اور اس کے پیچھے لگ گئے اور اس نے ان دونوں کو نعمتوں اور آسائشوں کے گھر سے نکال باہر کیا اور ان کو دکھوں، تکلیفوں اور مجاہدے کی سرزمین پر اتار دیا گیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney kaha : Adam ! tum aur tumhari biwi jannat mein raho , aur uss mein say jahan say chahao ji bhar kay khao , magar iss darkht kay paas bhi matt jana , werna tum zalimon mein shumar hogay .
12 Tafsir Ibn Kathir
اعزاز آدم (علیہ السلام)
حضرت آدم (علیہ السلام) کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا حضرت آدم نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! نبی بھی، رسول بھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ سورة اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کردی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو ؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ حضرت آدم نے کہا " حوا " انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔ کسی نے کہا ہے، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت ؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کردیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔
سفر ارضی کا آغاز
لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت (یوفک عنہ) میں۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انہیں سورة اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو ؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر " دھنا " میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھئے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم (علیہ السلام) آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہوچکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چناچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔