البقرہ آية ۳۷
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِۗ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ
طاہر القادری:
پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
Then Adam received from his Lord [some] words, and He accepted his repentance. Indeed, it is He who is the Accepting of Repentance, the Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
3 Ahmed Ali
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کیے پھر اس کی توبہ قبول فرمائی بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
(حضرت) آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں (١) اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
٣٧۔١ حضرت آدم علیہ السلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالٰی نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 7۔ الاعراف;23) بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالٰی نے انہیں معاف کر دیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے ۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے ۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی ،ولی ، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے
6 Muhammad Junagarhi
(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اس کے بعد آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ دعا کے کلمات (حاصل کئے) تو اس نے ان کی توبہ قبول کی کیونکہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر آدم علیھ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کردیا بیشک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحب رحم ہے
فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہ کَلِمَاتٍ (الآیة) حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام جب ندامت و پشیمانی میں ڈوبے ہوئے دنیا میں تشریف لائے، تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے، اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھلا دئیے جو سورة اعراف میں بیان کئے گئے ہیں : \&\& رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْمَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ \&\&۔
قبولیت دعاء کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کے واسطے سے تمام نبی آدم کو جنت کے حصول کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ میری ہدایت تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق ہوگا اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔
بندہ نوازی کا کمال : فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہ کَلِمَاتٍ ، خطا وار کو توبہ استغفار کے الفاظ اپنی طرف سے تلقین کردینا یہ خود اپنی جگہ پر انتہا درجہ کی بندہ نوازی ہے اللہ رب العالمین نے حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو معافی کے کلمات القاء فرمائے کہ اس طرح معافی مانگو میں معاف کر دوں گا اور پھر اس سے بڑھ کر بندہ نوازی کا کامل یہ ہے کہ اس تعلیم و تلقین کی نسبت تک اپنی جانب نہیں فرمائی، بلکہ اسے آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی جانب منسوب کردیا گیا کہ انہوں نے یہ الفاظ سیکھ لئے، کیا حد ہے شفقت اور بندہ پروری کی ! ! یہ الفاظ اور کلمات کیا تھے ؟ روایتیں مختلف ہیں لیکن خود قرآن مجید میں جو الفاظ حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے ہیں وہ یہ ہیں : \&\& رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا الخ \&\&۔
سوال : خطا وار تو وہ تھے۔ مگر تلقی کلمات کی نسبت صرف آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف کی گئی ہے۔
جواب : عورت مرد کے تابع ہے اور متبوع کے ذکر میں تابع کا ذکر خودبخود آجاتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
آدم علیہ السلام نے (کچھ کلمات) سیکھ لیے اور یاد کرلیے، اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات آدم کو الہام کئے تھے۔ وہ کلمات یہ تھے﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (لاعراف : 7؍ 23) ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا سوال کیا۔ ﴿فَتَابَ عَلَیْہِ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ﴾ ’’پس اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرلی اور اس پر رحم فرمایا جو کوئی توبہ کرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں۔ (1) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (2) پھر جب توبہ کی تمام شرائط پوری ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرلیتا ہے۔
﴿ الرَّحِیْمُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ ان پر اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے انہیں توبہ کی توفیق سے نوازا اور ان کو معاف کر کے ان سے درگزر فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir Adam ney apney perwerdigar say ( tauba kay ) kuch alfaz seekh liye ( jinn kay zariye unhon ney tauba maangi ) chunacheh Allah ney unn ki tauba qubool kerli . beyshak woh boht moaaf kernay wala , bara meharban hai
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن
جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت (قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہوجائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی ؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی ؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کرگئی ؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جاسکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا (اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ اور جگہ ہے آیت (وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا) 25 ۔ الفرقان :71) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔