طٰہٰ آية ۲۵
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِىْ صَدْرِىْ ۙ
طاہر القادری:
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے،
English Sahih:
[Moses] said, "My Lord, expand [i.e., relax] for me my breast [with assurance]
1 Abul A'ala Maududi
موسیٰؑ نے عرض کیا " پروردگار، میرا سینہ کھول دے
2 Ahmed Raza Khan
عرض کی اے میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے
3 Ahmed Ali
کہا اے میرے رب میرا سینہ کھول دے
4 Ahsanul Bayan
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہا میرے پروردگار (اس کام کے لئے) میرا سینہ کھول دے
6 Muhammad Junagarhi
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے
7 Muhammad Hussain Najafi
موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما۔ (حوصلہ فراخ کر)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
موسٰی نے عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے
9 Tafsir Jalalayn
کہا میرے پروردگار (اس کام کے لئے) میرا سینہ کھول دے
آیت نمبر 25 تا 42
ترجمہ : موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب میرا سینہ کھول دے (حوصلہ زیادہ کر دے یعنی میرے سینہ کو وسیع کر دے تاکہ (بار) رسالت کا متحمل ہوسکے، اور میرے لئے میرا یہ (تبلیغ) کا کام آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے جو کہ اس چنگاری سے جلنے کی وجہ سے پڑگئی تھی کہ جس کو بچپن میں منہ میں رکھ لیا تھا تاکہ لوگ پیغام رسانی کے وقت میری بات سمجھ سکیں، اور میرا کوئی وزیر کار رسالت میں معاون میرے خاندان میں سے مقرر کر دیجئے ہارون مفعول ثانی ہے اور اَخِیْ ہارون سے عطف بیان ہے یعنی ہارون کو جو کہ میرے بھائی ہیں اس کے ذریعہ میری پیٹھ مضبوط کر دیجئے اور اس کو میرے معاملہ یعنی کار رسالت میں میرا شریک کر دے اور دونوں فعل (یعنی اُشْدُدْ اور اَشْرِکْہُ ) امر کے صیغہ بھی ہوسکتے ہیں، اور مضارع مجزوم کے بھی، اور مضارع جواب امر (ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے) تاکہ ہم دونوں کثرت سے تیری تسبیح بیان کریں اور تیرا کثرت سے ذکر کریں بیشک آپ ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ تو نے رسول بنا کر انعام فرمایا ارشاد فرمایا اے موسیٰ تجھ پر احسان کرتے ہوئے ہم نے تیری درخواست کو قبول فرما لیا اور اے موسیٰ اس کے علاوہ بھی ہم تجھ پر احسان کرچکے ہیں اِذ تعلیلیہ ہے جبکہ ہم نے تیری ماں کو خواب میں یا الہام کے ذریعہ تیرے بارے میں وہ بات بتادی جو بذریعہ الہام بتانے کے لائق تھی جب کہ تیری ماں نے تجھ کو جنا تھا اور اس کو یہ خوف ہوا تھا کہ فرعون منجملہ (دیگر نو مولود) بچوں کے تجھ کو قتل کر دے گا اور اَن اقْذِفِیْہِ فِی التابوت، مَایُوْحیٰ سے بدل ہے وہ یہ کہ ان کو تابوت میں بند کرکے دریائے نیل میں ڈالدے، پھر دریا ان کو ساحل پر ڈال دے گا یعنی اپنے کنارے پر اور (فَلْیُلقَہٖ ) امر بمعنی خبر ہے، آخر کار اس کو ایسا شخص پکڑے لے گا جو کہ میرا بھی دشمن ہے اور اس کا بھی اور وہ فرعون ہے، اور بعد اس کے کہ ان لوگوں نے تجھ کو پکڑ لیا میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ تو لوگوں کے نزدیک محبوب ہوجائے اور پھر فرعون اور ہر وہ شخص جو تجھ کو دیکھے گا تجھ سے محبت کرنے لگے اور تاکہ تم میری نگرانی رعایت و حفاظت میں پرورش پاؤ اذ تعلیلیہ ہے (یہ اس وقت کی بات ہے) جب تیری بہن مریم تیری خبر گیری کے لئے چل رہی تھی اور ان لوگوں نے بہت سی دودھ پلانے والیوں کو بلایا تھا اور تو ان میں سے کسی کی پستانوں کو قبول نہیں کرتا تھا تو (مریم) کہنے لگی کیا میں تم لوگوں کو ایسا شخص بتادوں جو اس کی کفالت کرے ؟ چناچہ اس کی بات منظور کرلی گئی بعد ازاں وہ اس کی ماں کو بلا لائی اور اس نے اس کی پستانوں کو قبول کرلیا، پھر ہم نے تم کو تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھیں تیری ملاقات سے ٹھنڈی ہوں اور ان کو اس وقت کوئی غم نہ رہے (ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے) یعنی تو نے اپنی ماں کا دودھ قبول کرلیا تو ان تجھ کو کوئی غم نہ ہونا چاہیے، اور تو نے ایک قبطی شخص کو مصر میں قتل کردیا تھا اور اس کے قتل کی وجہ سے تو فرعون کی طرف سے مغموم تھا پھر ہم نے تم کو اس غم سے نجات دی پھر ہم نے تم کو مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈالا (یعنی) اس کے علاوہ بھی ہم نے تم کو آزمائشوں میں مبتلا کیا اور پھر ان سے تجھ کو خلاصی دی پھر اہل مدین میں تم کئی (دس) سال رہے مصر سے مدین آنے کے بعد شعیب (علیہ السلام) کے پاس اور تم نے اس کی بیٹی سے نکاح کیا پھر تم ایک خاص عمر کو پہنچے جو کہ میرے علم میں رسالت کے لئے مقدر تھی اور وہ تیری عمر کے چالیس سال تھے اے موسیٰ میں نے تم کو اپنی رسالت کے لئے منتخب کرلیا لہٰذا (اب) تم اور تمہارے بھائی میری نو نشانیاں لیکر لوگوں کے پاس جاؤ اور میری یادگاری میں کوتاہی سستی سے کام نہ لینا (یعنی) تسبیح وغیرہ میں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
یفقھوا جواب دعاء ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، وزیرًا وزرٌ سے صیغہ صفت ہے، مددگار، ناصر، معین، بقول مفسر علام وزیرًا اجعل کا مفعول اول ہے اور ہارون مفعول ثانی ہے، اس کا عکس اولیٰ ہے اس لئے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دو مفعول جمع ہوں ان میں ایک معرفہ ہو اور دوسرا نکرہ، تو معرفہ کو مفعول اول بناتے ہیں اس لئے کہ مفعول اول مبتداء ہوتا ہے جس کو معرفہ ہونا چاہیے اور مفعول ثانی خبر ثانی ہوتی ہے جس کے لئے نکرہ ہونا مناسب ہے اور یہاں ہارون معرفہ اور وزیرًا نکرہ ہے مقصود بالعنایت اور اہم ہونے کی وجہ سے مفعول ثانی کو مقدم کردیا گیا ہے۔
دوسری ترکیب : وزیرًا مفعول اول ہو اور لِیْ مفعول ثانی اور ہارون بدل یا عطف بیان ہو اشدُدْ ، اشرِکْ یہ دونوں صیغے جب مضارع واحد متکلم ہوں گے تو اُشْدُدْ میں ہمزہ کا فتحہ ہوگا اور اُشْرِکْہٗ میں ہمزہ کا ضمہ ہوگا اور جواب دعاء ہونے کی وجہ سے دال ثانی اور کاف ساکن ہوں گے اس صورت میں دونوں فعلوں کی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ہوگی مطلب یہ ہوگا تاکہ میں اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کروں اور اس کو اپنا شریک کار بناؤں اور اگر دونوں امر کے صیغہ ہوں تو اُشْدد ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ ہوگا (ن، ض) اور اَشْرِکْ ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہوگا اس صورت میں دونوں فعلوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوگی یعنی اے اللہ تو میرے بھائی کے ذریعہ میری پیٹھ مضبوط کر دے اور اس کو میرا شریک کار بنا دے اُشدُدْ کا جب اَخِی کے ساتھ وصل کریں گے تو ہمزہ ساقط ہوجائے گا اَزرِیْ الاَزر قوت، پشت سُؤْلَکَ سُؤلٌ بروزن فُعْلٌ جیسا کہ خُبْزٌ بمعنی مَخْبُوزٌ فُعْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہے کاف کی طرف مضاف ہے بمعنی درخواست، تمنا، خواہش اِذ اَوْحَینَا مَنَنَّا کا ظرف ہے اور اِذ اَوْحینا مَرَّۃ سے بدل بھی ہوسکتا ہے اور اِذ تعلیلیہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ مفسر (رح) نے صراحت کی ہے مفسر (رح) کا مناماً اور الھامًا کا اضافہ کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ وحی رسالت نہیں تھی بلکہ وحی لغوی تھی اِقْذِفِیْ قَذْفٌ (ض) واحد مؤنث حاضر اس کے آخر میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب مفعول ہے (تو اس کو ڈال دے، رکھ دے) یُلْقِہٖ اِلقاءٌ سے امر کا واحد مذکر غائب بمعنی خبر ہے ضمیر مفعولی ہے، اس کو ڈال دے، پھینک دے اَلْیَمُّ البحر مراد دریائے نیل ہے یَاْخُذْہٗ جواب امر ہے مِنِّی اَلْقَیْتُ کے متعلق ہے اور کائنۃً محذوف کے متعلق ہو کر مُحَبۃً کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : لِتُحَبَّ یہ الْقَیْتُ کی علت ہے اس کو محذوف اس لئے مانا کہ لِتُصْنعَ کا عطف درست ہوجائے ای لِتُحَبَّ وتصْنَعْ اِذتمشیْ کا تعلق مذکور دونوں فعلوں میں سے کسی ایک سے ہوسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اذا اولیٰ سے بدل ہو، اس لئے کہ بہن کا ساتھ ساتھ چلنا بھی احسان ہی تھا اور اذکر محذوف مان کر تقدیر عبارت یہ بھی ہوسکتی ہے اذکر اِذ تمشی۔
قولہ : مَرَاضِعَ مُرْضِعَۃٌ کی جمع ہے دودھ پلانے والی کو کہتے ہیں فُتُوْنًا مفعول مطلق ہے ای اِبْتَلَیْنَاکَ اِبْتَلاءً اور فِتْنَۃٌ کی جمع بھی ہوسکتی ہے جیسے بَدْرۃ کی جمع بدورٌ ای فتنّاکَ بِفُتُوْنٍ کثیرَۃ مفسر علام نے فاجیبت کو محذوف مانا ہے تاکہ فرجعناک کا عطف درست ہوجائے اِصْطَنَعْتُکَ (افتعال) اِصْطِناعٌ درستگی میں مبالغہ کرنا، منتخب کرنا تَیِنَا وَنٰی یَنِیْ وَیْیًا سستی کرنا (ض) تثنیہ مذکر حاضر لاَتَنِیَا سستی نہ کرو الی الناس یہاں فرعون کو آئندہ پر قیاس کرتے ہوئے حذف کردیا گیا ہے جس طرح کہ وہاں آیاتی کو اس پر قیاس کرکے حذف کردیا گیا ہے اس کو صنعت احتباک کہتے ہیں یعنی نظیر کو نظیر پر قیاس کرتے ہوئے حذف کردینا۔
قولہ : التِّسعُ مفسر علام التسع کے بجائے العصا والید فرماتے تو مناسب ہوتا، اس لئے کہ ابتداءً صرف یہی دو معجزے عطا کیے گئے تھے باقی مدت کے دوران عطا کیے گئے اب رہا یہ سوال کہ وہ معجزوں پر جمع کا اطلاق کیونکر درست ہے ؟ جواب : یہ دونوں معجزے چونکہ متعدد معجزات پر مشتمل تھے اس لئے جمع سے تعبیر کرنا درست ہے۔
تفسیر و تشریح
قال رب اشرح لی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب کلام الٰہی کا شرف خاص حاصل ہوا اور منصب نبوت و رسالت عطا ہوا تو
اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کے بجائے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگئے اس وقت پانچ دعائیں مانگیں رب اشرح لی صدری اے میرے رب میرا سینہ کشادہ فرما دے یعنی اس میں ایسی وسعت عطا فرما دے کہ جو علوم نبوت کا متحمل ہو سکے اور دعوت و تبلیغ کے کام میں جو شدائد و مصائب پیش آتے ہیں ان کو برداشت کرسکے۔
دوسری دعاء : ویسرلی امری یعنی میرا یہ کام آسان کر دے اس لئے کہ کسی کام کا آسان یا دشوار ہونا سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اگر وہ چاہے تو آسان کو مشکل اور مشکل کو آسان کر دے۔
تیسری دعاء : وَاحْلُلْ عقدۃ من لسانی الخ یعنی میری زبان کی بندش کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھنے لگیں، اس بندش کا واقعہ یہ ہے کہ ایک روز ایسا ہوا فرعوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ہاتھ سے فرعون کی ڈاڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے اس کے گام پر طمانچہ رسید کردیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کھیل رہے تھے ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے وہ کھیل رہے تھے اچانک فرعون کے سر پر ماردی فرعون کو غصہ آیا اور اس کے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، غالباً فرعون کو یہ شک ہوگیا کہ ہوسکتا ہے یہ وہی اسرائیلی بچہ ہو جس کے ذریعہ میری سلطنت کا خاتمہ نجومیوں نے بتایا ہے، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم نے کہا شاہا آپ بچہ کی بات کا خیال کرتے ہیں جس کو کسی چیز کمی عقل وتمیز نہیں، اور اگر آپ چاہیں تو تجربہ کرلیں چناچہ ایک طشت میں انگارے اور دوسرے میں جواہر پارے لاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دئے خیال یہ تھا کہ انگارے چونکہ جواہرات کے مقابلہ میں زیادہ روشن اور چمکدار ہوتے ہیں لہٰذا بچوں کی عادت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی انگاروں کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے جس سے فرعون کو یقین آجائے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ بچپن کی نادانی کی وجہ سے کیا ہے مگر اتفاق کی بات کہ حضرت موسیٰ نھے ہاتھ جواہرات کی طرف بڑھایا مگر جبرائیل امین نے ان کا ہاتھ آگ کے انگاروں کی طرف کردیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بچوں کی عادت کے مطابق ایک چنگاری ہاتھ میں اٹھا کر منہ میں رکھ لی جس کی وجہ سے زبان جل گئی، فرعون کو اس بات کا یقین آگیا کہ موسیٰ کا یہ عمل کسی شرارت کا نتیجہ نہیں بلکہ بچپن کی نادانی کا نتیجہ ہے، آگ کی وجہ سے زبان کے جل جانے کو قرآن میں عقدۃ کہا گیا ہے اور اسی کو کھولنے کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی، جو کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قبول فرمائی مگر قیلیل مقدار میں بستگی کا اثر باقی رہ گیا تھا یہ قبولیت دعا کے منافی نہیں ہے۔
چوتھی دعاء : واجعل وزیرا من اھلی میرا یک معاون میرے خاندان سے عطا فرما جو میرا شریک ہو کر میرا ہاتھ بٹاسکے، چناچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور ہارون (علیہ السلام) کو ان کا شریک کار بنادیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت مصر میں تھے اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعہ ان کی نبوت کی اطلاع دیدی۔
پانچویں دعاء : واشرکہُ فی اَمْری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کو اپن وزیر اور معاون بنانا چاہا یہ اختیات تو اس کو خود صاصل تھا صرف تبرکاً اس کام کی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی چاہتے تھے کہ نبوت اور رسالت میں شریک کردیں یہ اختیار کسی رسول یا نبی کو خود نہیں ہوتا، اس لئے اس کی جدا گانہ مستقل دعاء کی، حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے اور تین ہی سال قبل وفات پائی۔
ولقد مننا علیک مرۃ اخری اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ان نعمتوں کو یاد دلا رہے ہیں جو شروع پیدائش سے اب تک زندگی کے ہر دور میں آپ پر مبذول ہوتی رہیں، اور مسلسل آزمائشوں کے درمیان قدرت حق نے کن حیرت انگیز طریقوں سے ان کی حفاظت فرمائی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان نعمتوں کو یاد دلانے کے لئے مرۃ اخریٰ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نعمتیں بعد کی ہیں اور اس سے پہلے جو نعمتیں شمار کرائی ہیں وہ پہلی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخریٰ کا لفظ کبھی مطلقاً دوسری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (روح المعانی)
اذ اوحینا الی امک یعنی جب وحی بھیجی ہم نے آپ کی والدہ کے پاس ایک ایسے معاملہ میں کہ جو صرف وحی ہی سے معلوم ہوسکتا تھا وہ یہ کہ فرعونی سپاہی جو کہ اسرائیلی لڑکوں کو قتل کرنے پر مامور تھے ان سے بچانے کے لئے آپ کی والدہ کو بذریعہ وحی بتلایا گیا کہ ان کو ایک تابوت میں بند کرکے دریا میں ڈال دیں اور ان کے ہلاک ہونے کا اندیشہ نہ کریں، ہم ان کی حفاظت کریں گے اور پھر آپ کے پاس ہی واپس پہنچا دیں گے ظاہر ہے کہ یہ باتیں عقل و قیاس کی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور ان کی حفاظت کا ناقابل قیاس انتظام صرف اسی کی طرف سے بتلانے پر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ (معارف القرآن)
کیا وحی غیرنبی و رسول کی طرف بھی آسکتی ہے ؟ صحیح بات یہ ہے کہ لفظ وحی کے لغوی معنی ایسے خفیہ کلام کے ہیں کہ جو صرف مخاطب کو معلوم ہو دوسرے اس پر مطلع نہ ہوں اس لغوی معنی کے اعتبار سے وحی کسی کے لئے مخصوص نہیں، نبی اور رسول بلکہ جانور تک اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اَوْحٰی رَبُّکَ الیٰ النَّحْلِ میں شہد کی مکھی کو بذریعہ وحی تلقین وتعلیم کرنے کا ذکر اسی معنی کے اعتبار سے ہے اور اَوْحَیْنَا الیٰ اُمِکَ بھی اس معنی لغوی کے اعتبار سے ہے اس سے ان کا نبی یا رسول ہونا لازم نہیں آتا جیسے مریم کو ارشادات ربانی پہنچے باوجودیکہ باتفاق جمہور امت وہ نبی یا رسول نہیں تھیں، اس طرح کی لغوی وحی عموماً اولیاء اللہ کو اس قسم کے الہامات ہوتے رہتے ہیں، بلکہ ابو حیان اور بعض دوسرے علماء نے کہا ہے کہ اس طرح کی وحی بعض اوقات کسی فرشتہ کے واسطہ سے بھی ہوسکتی ہے جیسے حضرت مریم کے واقعہ میں اس کی تصریح ہے کہ جبرائیل امین نے بشکل انسان متشکل ہو کر ان کو تلقین فرمائی مگر اس کا تعلق صرف اس کی ذات سے ہوتا ہے جس کو یہ وحی الہام کی جاتی ہے اصلاح خلق اور تبلیغ دعوت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، بخلاف وحی نبوت کے کہ اس کا منشا ہی مخلوق کی اصلاح ہے اس کو وحی رسالت اور وحی نبوت کہتے ہیں، اس پر صاحب وحی کو خود بھی ایمان لانا ضروری ہے اور دوسروں کو بھی اپنی وحی پر ایمان لانے کا حکم کرے۔ وحی الہامی یعنی وحی لغوی کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا اور وحی نبوت حضرت خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوچکی ہے بعض بزرگوں کے کلام میں اس کو وحی تشریعی اور غیر تشریعی سے تعبیر کیا گیا ہے جس کو مدعی نبوت قادیانی نے شیخ محی الدین ابن عربی کی بعض عبادتوں کے حوالہ سے اپنے دعوائے نبوت کے جواز کی دلیل بنایا ہے جو خود ابن عربی کی تصریحات سے باطل ہے۔
موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام : روح المعانی میں ہے کہ ان کا مشہور نام یوحانِذ ہے اور اتقان میں ان کا نام لَحْیَانَہ بنت یصمد بن الاوی لکھا ہے اور بعض لوگوں نے ان کا نام بارخا اور بعض نے بازخت بتلایا ہے، تعویذ گنڈے والے ان کے نام کی عجیب و غریب خصوصیات بیان کرتے ہیں، صاحب روح المعانی نے فرمایا کہ ہمیں اس کی کوئی بنیاد معلوم نہیں ہوئی اور غالب یہ ہے کہ خرافات میں سے ہے۔
فلیلقہ الیم بالساحل، یمٌّ بمعنی دریا ہے اور دریا سے بحر نیل مراد ہے آیت میں ایک حکم تو موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کو دیا گیا ہے کہ اس بچہ کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دے اور دوسرا حکم بصیغہ امر دریا کے نام ہے کہ وہ اس تابوت کو دریا کے کنارے پر ڈال دیے دریا چونکہ بظاہر بےحس اور بےشعور ہے اس کو حکم دینے کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اسی لئے بعض حضرات نے یہ قرار دیا کہ اگرچہ یہاں صیغہ امر بمعنی الحکم استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے حکم نہیں ہے بلکہ خبر دنیا ہے کہ دریا اس کو کنارے پر ڈال دے گا مگر محقیقین علماء کے نزدیک یہ امر اپنے ظاہر پر امر اور حکم ہی ہے اور دریا ہی اس کا مخاطب ہے کیونکہ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی شئ حتی کہ درخت اور پتھر بےشعور نہیں بلکہ سب میں عقل و ادراک موجود ہے، اور یہی عقل و ادراک ل ہے جس کے سبب یہ سب چیزیں حسب تصریح قرآن تسبیح میں مشغول ہیں، البتہ جنوں اور انسانوں کے علاوہ کسی میں عقل و شعور اتنا مکمل نہیں جن کو حلال و حرام کا مکلف بنایا جاسکے۔
یاخذہ عدولی وعدولہ یعنی اس بچہ کو ایسا شخص اٹھالے گا جو میرا دشمن ہے اور موسیٰ کا بھی، مراد فرعون ہے، فرعون کا دشمن خدا ہوتا تو اس کے کفر کی وجہ سے ظاہر ہے مگر موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن کہنا اس لئے محل غور ہے کہ اس وقت تو فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن نہیں تھا بلکہ ان کی پرورش پر زرکثیر خرط کر رہا تھا پھر اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن فرمانا یا تو انجام کے اعتبار سے ہے کہ بالآخر فرعون اس کا دشمن ہوجائے گا کیونکہ فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن ہوجانا اللہ کے علم میں تھا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں تک فرعون کی ذات کا تعلق ہے وہ فی نفسہٖ اس وقت بھی دشمن ہی تھا اس نے حضرت موسیٰ کی تربیت صرف بیوی کی خاطر گواروہ کی تھی، اور جب اس میں بھی اس کو شبہ ہوا تو اسی وقت قتل کا حکم دے دیا تھا جو حضرت آسیہ کی تدبیر اور دانشمندی کے ذریعہ ختم ہوا۔ (روح ومظہری)
والقیت علیک محبۃ منی اس جگہ لفظ محبت مصدر بمعنی محبوب محبوبیت ہے اور مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی عنایت اور رحمت سے آپ کے وجود میں ایک محبوبیت کی شان رکھ دی تھی کہ جو آپ کو دیکھے گا آپ سے محبت کرنے لگے گا حضرت ابن عباس (رض) اور عکرمہ سے یہی تفسیر منقول ہے۔
ولیصنع علیٰ عینی لفظ صنعت سے یہاں عمدہ تربیت مراد ہے جیسا کہ عرب میں صَنَعتُ فَرْسِی کا محاورہ اسی معنی میں معروف ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے کی اچھی تربیت کی اور علیٰ عَیْنِیْ سے مراد علیٰ حفظی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہترین تربیت براہ راست حق تعالیٰ کی نگرانی میں ہو اس لئے مصر کی سب سے بڑی ہستی یعنی فرعون کے ہاتھوں ہی اس کے
گھر میں یہ کام اس طرح لیا گیا کہ وہ اس سے بیخبر تھا کہ میں اپنے ہاتھوں اپنے دشمن کو پال رہا ہوں۔ (مظہری)
اذ تمشی اختک موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کا اس تابوت کے تعاقب میں جانا اور اس کے بعد کا قصہ جس کا اجمال اس آیت میں آیا ہے جس کے آخر میں وَفَتَنّٰکَ فُتُوْنًا یعنی ہم نے آپ کے آزمائش کی بار بار (قالہ ابن عباس (رض) یا آپ کو مبتلاء آزمائش کیا بار بار (قالہ صحاک (رح) ) اس کی پوری تفصیل سنن نسائی کی ایک طویل حدیث میں بروایت ابن عباس (رض) آئی ہے۔ (قصہ کی تفصیل کے لئے معارف القرآن جلد ششم کی طرف رجوع کریں) ۔
10 Tafsir as-Saadi
چنانچہ عرض کیا : ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي﴾ یعنی اے اللہ! میرے سینے کو کھول دے اور اسے وسعت عطا کرتا کہ میں قولی اور فعلی اذیتیں برداشت کرسکوں اور میرا قلب تکدر کا شکار نہ ہو اور میرا سینہ تنگ نہ ہو کیونکہ انسان کا سینہ جب تنگ ہوتا ہے تو وہ مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا اہل نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران :3؍159) ” یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بہت نرم دل ہیں اگر آپ تند خو سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے اردگرد سے چھٹ جاتے۔“ لوگ (داعی کی) نرم خوئی، کشادہ دلی اور ان کے بارے میں اس سے انشراح صدر کی بناء پر قبول حق کے قریب آتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
musa ney kaha : perwerdigar ! meri khatir mera seena khol dijiye ,