طٰہٰ آية ۷۱
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَـكُمْۗ اِنَّهٗ لَـكَبِيْرُكُمُ الَّذِىْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُصَلِّبَـنَّكُمْ فِىْ جُذُوْعِ النَّخْلِۖ وَلَـتَعْلَمُنَّ اَيُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰى
طاہر القادری:
(فرعون) کہنے لگا: تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ (موسٰی) تمہارا (بھی) بڑا (استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے، پس (اب) میں ضرور تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں الٹی سمتوں سے کاٹوں گا اور تمہیں ضرور کھجور کے تنوں میں سولی چڑھاؤں گا اور تم ضرور جان لوگے کہ ہم میں سے کون عذاب دینے میں زیادہ سخت اور زیادہ مدت تک باقی رہنے والا ہے،
English Sahih:
[Pharaoh] said, "You believed him [i.e., Moses] before I gave you permission. Indeed, he is your leader who has taught you magic. So I will surely cut off your hands and your feet on opposite sides, and I will crucify you on the trunks of palm trees, and you will surely know which of us is more severe in [giving] punishment and more enduring."
1 Abul A'ala Maududi
فرعون نے کہا " تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے" (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ)
2 Ahmed Raza Khan
فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا تو مجھے قسم ہے ضرور میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تمہیں کھجور کے ڈھنڈ (تنے) پر سُولی چڑھاؤں گا، اور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے
3 Ahmed Ali
کہا تم میری اجازت سے پہلےہی اس پر ایمان لے آئے بے شک یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا سو اب میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹواؤں گا اورتمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا اورتمہیں معلوم ہوجائے گا ہم میں سے کس کا عذاب سخت اور دیر تک رہنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً تمہارا بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، (سن لو) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے (١) کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا، اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔
٧١۔١ مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(فرعون) بولا کہ پیشتر اس کے میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔ بےشک وہ تمہارا بڑا (یعنی استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔ سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں (جانب) خلاف سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوا دوں گا (اس وقت) تم کو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر تک رہنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پرایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وه بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، (سن لو) میں تمہارے پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا، اور تمہیں پوری طرح معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیاده سخت اور دیرپا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہی تمہارا وہ بڑا (جادوگر) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤن مخالف سمت سے کٹواتا ہوں اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دیتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
فرعون نے کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر ہی ایمان لے آئے تو یہ تم سے بھی بڑا جادوگر ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اب میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تمہیں خرمہ کی شاخ پر سولی دے دوں گا اور تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ زیادہ سخت عذاب کرنے والا اور دیر تک رہنے والا کون ہے
9 Tafsir Jalalayn
(فرعون) بولا کہ پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے ؟ بیشک وہ تمہارا بڑا (یعنی استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں (جانب) خلاف سے کٹوا دوں گا اور کجھور کے تنوں پر سولی چڑھوا دوں گا (اس وقت) تم کو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر تک رہنے والا ہے
آیت نمبر 71 تا 76
ترجمہ : فرعون نے کہا تم میری اجازت کے بغیر ہی اس پر ایمان لے آئے ءَاٰمَنْتُمْ دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور دوسرے کو الف سے بدل کر بلاشبہ وہ تمہارا بڑا گرو ہے جس نے تم کو سحر سکھایا ہے میں تم سب کے ہاتھ پیر جانب مخالف سے کٹواتا ہوں خلاف حال ہے معنی میں مختلفۃ کے ہے یعنی داہنے ہاتھوں کو اور بائیں پیروں کو اور تم سب کو کھجوروں کے تنوں پر لٹکوا دوں گا فی جُذُوعِ النخل ای عَلَیھَا اور تم کو پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں یعنی مجھ میں اور موسیٰ کے رب میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے، یعنی کس کی مخالفت شدید ہے اور دیرپا ہے ان لوگوں نے صاف جواب دیدیا کہ ہم تجھ کو کبھی ترجیح نہ دیں گے اختیار نہ کریں گے بمقابلہ ان دلائل کے جو موسیٰ کی صداقت پر دلالت کرنے والے ہم کو ملے ہیں اور بمقابلہ اس ذات کے جس نے ہم کو پیدا کیا واو قسمیہ ہے یا ما جاءنا پر عطف ہے سو تیرا جو جی چاہے کہ یعنی جو تو نے کہا ہے کر ڈال اور تو بجز اس کے کہ کچھ کرسکتا ہے وہ اسی دنیا میں کرسکتا ہے اور (الحیوۃ کا) نصب توسع کے طور پر ہے ای فیھا اور (اللہ) اس پر آخرت میں جزاء دے گا ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ ہماری شرک وغیرہ کی خطاؤں کو معاف کردے اور اس سحر کو بھی معاف کر دے کہ جس کے سیکھنے اور عملی طور پر موسیٰ کا مقابلہ کرنے کے لئے تو نے ہم کو مجبور کیا ہے اور اللہ بہتر ہے تجھ سے اجر کے اعتبار سے جب اس کی اطاعت کی جائے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے تجھ سے عذاب کے اعتبار سے جب اس کی نافرمانی کی جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم یعنی کافر ہو کر آئے گا جیسا کہ فرعون تو بیشک اس کے لئے جہنم ہے نہ اس میں مرے گا کہ راحت پائے گا اور نہ زندہ رہے گا ایسی زندگی کہ جس سے اس کو نفع ہو اور جو شخص اس کے پاس مومن ہو کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال یعنی فرائض و نوافل کئے ہوں گے تو یہی ہیں وہ لوگ جن کے لئے اونچے درجات ہیں عُلیٰ علیا کی جمع ہے اور اعلیٰ کا مؤنث ہے یعنی ہمیشہ رہنے کے یعنی اقامت کے قابل باغات ہیں جنّٰتُ عدن دَرَجٰتِ العُلیٰ کا بیان ہے کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ انعام ہے اس شخص کا جو گناہوں سے پاک ہوا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
أ آمَنْتُمْ لَہٗ ہمزہ استفہام انکاری توبیخ کے لئے ہے، اور حفص کے نزدیک آمَنْتُمْ جملہ خبر یہ کے طور پر استعال ہوا ہے ءَآمَنْتُمْ کا صلہ لام لایا گیا ہے اس لئے کہ آمَنْتُمْ اِتَّبَعْتُمْ کی معنی کو متضمن ہے، دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ پہلا استفہامیہ ہے اور ثانی فا کلمہ ہے جمع مذکر حاضر ءَأمّنْتُمْ بروزن اَکْرَمْتُمْ دوسرے ہمزہ کو قاعدہ کے مطابق الف سے بدلا پھر اس پر ہمزہ استفہام داخل کیا گیا، اب کلمہ میں دو ہمزے غیر منقلبہ ہوگئے، اب خواہ تحقیق ہمزتین کے ساتھ پڑھیں یا ہمزہ استفہام کے حذف کے ساتھ پڑھیں مفسر علام کا وابدال الثانیہ الفًا کہنا غیر ظاہر ہے اس لئے کہ ثانیہ تو قرأت میں بغیر ابدال کے باقی ہے، البتہ ابدال الثالثۃ درست ہے
قولہ : مِنْ خِلاَفٍ مِنْ ابتدائیہ ہے اور خلاف مختلفہ کے معنی میں ہو کر حال ہے ای اَقْطَعُھَا مختلِفَاتٍ ۔ قولہ : فِی جذوع النَّخْلِ ای علیھا اس میں اشارہ ہے کہ فِی بمعنی علی ہے وَلَتَعْلَمُنَّ میں لام قسمیہ ہے اَیُّنَا مبتداء اَشَدُّ وَاَبْقٰی معطوف ومعطوف علیہ سے مل کر خبر اور مبتداء خبر سے مل کر لتعلمُنَّ کا مفعول قائم مقام دو مفعولوں کے علی مخالفتہٖ کا تعلق اشدُوَا بقٰی دونوں سے ہے وَالَّذی فطَرَنا واو اگر قسمیہ ہو تو موصول صلہ سے مل کر قسم اور لانؤثرکَ علی الحق جواب قسم محذوف ای وحق الذی فطرنا لانؤثرک علی الحق اور اگر واو عاطفہ ہو تو معطود علیہ مَا جاءنا ہوگا ای لَنْ نُؤثِرَکَ علی الذی جاءنا ولا الذی فَطَرَنا فاَقْضِ مَا اَنْتَ قاضٍ یہ جواب تہدید ہے ھذہ الحیوۃ الدنیا ھٰذہٖ مبدل منہ الحیوۃ بدل یہ حذف حرف جر کی وجہ سے اتساعًا منصوب ہے تقدیر عبارت یہ اِنَّمَا تقضی فِی ھٰذہٖ الحیوٰۃ الدنیا فِی کو حذف کردیا جس کی وجہ سے منصوب ہوگیا۔
قولہ : اِنَّمَا مَا میں دو وجہ جائز ہیں اول وجہ یہ کہ مافعل پع اِنّ کے دخول کو جائز کرنے کے لئے ہے اور الحیوٰۃ والدنیا تقضی کا ظرف ہے اور تقضی کا مفعول محذوف ہے ای تقضی غرضک دوسری وجہ یہ کہ ما مصدر یہ اسم اِنّ ہو اور ظرف خبر ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی اِنّ قَضَاءَکَ فی ھذہ الحیوٰۃ والدنیا تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مَا بمعنی الذی موصول اسم اِنّ تقضیہ اس کا صلہ عائد محذوف ای اِنّ الّذی تقضیہ کائنٌ فی الحیوۃ الدنیا (جمل) وَمَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خطا یانا پر ہے، تاکہ ہماری خطاؤں اور اس عمل سحر کو معاف کر دے جس پر تو نے ہم کو مجبور کیا مِنَ السِّحر علَیہِ کی ضمیر سے یا موصولہ سے حال ہوسکتا ہے، مِنْ بیان جنس کے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : قال تعالیٰ سے اشارہ کردیا کہ اِنّہٗ مَنْ یَاْتِ ربَہٗ جملہ مستانفہ ہے اس کے ماقبل ساحروں کا کلام تھا اور یہ اللہ سبحانہ کا کلام ہے خَالدِیْنَ مَنْ کے معنی کی رعایت سے جمع لایا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
قال آمنتم لہٗ جب جادوگروں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا حقیقت میں اژدہا بن کر ان کے خیالی سانپوں کو نگل گیا، تو چونکہ یہ جادو کے ماہر اور جادو کی حقیقت سے واقف تھے تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کام جادو کے ذریعہ نہیں ہوسکتا بلاشبہ خدائی معجزہ ہے اس لئے جادو گر سجدہ میں گرگئے اور برسر عام اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جادوگروں نے اس وقت تک سجدہ سے سر نہیں اٹھایا جب تک اللہ تعالیٰ نے جنت میں ان کا مقام نہ دکھا دیا، اس واقعہ سے فرعون کی برسرعام بہت رسوائی ہوئی تو اس نے اپنی خفت کو کم کرنے کے لئے تہدید آمیز لہجے میں کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر موسیٰ اور اس کے رب پر ایمان لے آئے اس جملہ سے لوگوں کو یہ تاثر بھی دینا مقصود تھا کہ میری اجازت کے بغیر کسی کے قول و فعل کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے اور اصل حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لئے ان جادوگروں پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ اب معلوم ہوا کہ تم موسیٰ کے شاگرد ہو اور وہ تم سب کا بڑا استاذ ہے اسی نے تم کو جادو سکھایا ہے اور استاد شاگردوں نے مل کر سازش کی ہے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق شاگردوں نے اپنی ہار مان لی ہے کبیرٌ بمعنی معلم بھی لغت عرب میں مستعمل ہے، کسائی نے کہا ہے کہ جب بچہ اپنے معلم (استاذ) کے پاس سے آتا تو کہتا ہے جنتُ من عند کبیری فرعون نے یہ جملہ انہ لکبیرکم الذی علَّمَکُمْ السحرَ باوجودیکہ فرعون کو بھی معلوم تھا کہ ان کے درمیان استادی و شاگردی کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر پھر بھی لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے اور لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے سے روکنے کے لئے یہ بات قصداً کہی۔
فلاقطعن یہ قسم محذوف کا جواب ہے تقدیر عبارت یہ ہے وعزتی وکبریائی لاَفْعَلَنَّ بکم ذٰلکَ فرعون نے قسم کھا کر حاکمانہ انداز میں سخت سزا کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں تم سب کے جانب مخالف سے ہاتھ پیر کاٹ دوں گا تاکہ تم دوسروں کے لئے عبرت کا نمونہ بن جاؤ، اور کوئی دوسرا موسیٰ پر ایمان لانے کی جسارت نہ کرسکے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تم کو اسی حالت میں کھجور کے تنوں پر لٹکا دوں گا تاکہ بھوکے پیاسے تمہاری جان نکل جائے فی جذوع النخل میں فی بمعنی علیٰ ہے اور علیٰ کے بجائے فی کے استعمال میں یہ مصلحت ہے کہ استقراء اور دوام کا ظاہر کرنا ہے یعنی تم اسی حالت میں ایک مدت تک لٹکے رہو گے، جیسا کہ مظروف کا استقرار ظرف میں ہوتا ہے۔
قالوا لن نؤثرک علیٰ ما جاءنا الخ جادوگروں نے فرعون کی دھمکی سن کر اپنے ایمان پر بڑی پختگی کا ثبوت دیا کہنے لگے ہم تجھے یا تیرے کسی قول کو ان بینات و معجزات پر ترجیح نہیں دے سکتے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ہمارے سامنے آچکے ہیں نیز خالق کائنات کو چھوڑ کر تجھے اپنا رب نہیں مان سکتے حضرت عکرمہ کی روایت کے مطابق بینات سے مراد جنت کے وہ مقامات علیہ اور نعم غالیہ بھی ہوسکتی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے جادوگروں کو سجدہ کی حالت میں مشاہدہ کرایا تھا، اور ساتھ ہی جادو گروں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تو نے ہمیں سزا دی بھی تو وہ سزا اسی چند روزہ زندگی تک محدود رہے گی مرنے کے بعد تو تیرا ہمارے اوپر کوئی قبضہ نہیں رہے گا بخلاف حق تعالیٰ کے کہ اس کا قبضہ مرنے سے پہلے بھی ہے اور مرنے کے بعد بھی لہٰذا اسی کی سزا کی فکر مقدم ہے۔
انا آمنا بربنا لیغفرلنا خطایانا موسیٰ (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کی غرض بیان کرتے ہوئے جادوگروں نے کہا ہم اس لئے ایمان لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سابقہ گناہوں کو معاف فرما دے اور جادو کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے عمل کو بھی معاف فرما دے جس پر تو نے ہم کو مجبور کیا ہے، یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ جادوگر تو موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کے لئے خوشی خوشی آئے تھے حتی کہ فرعون سے انعام و اکرام کے بارے میں سودے بازی بھی کی تھی کہ اگر ہم موسیٰ کے مقابلہ میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا فرعون نے انعام و اکرام سے نوازنے نیز مزید براں اپنے مصاحبین میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کرلیا تھا پھر جادوگروں کا یہ کہنا تو نے ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کے لئے مجبور کیا تھا کہاں تک درست ہوسکتا ہے اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ جادو گر ابتداءً تو برضا ورغبت اپنی خوشی سے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے سے کترانے لگے چناچہ جب جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مشورہ کیا تو یہ لوگ مختلف الرائے ہوگئے، بعض ان کو جادوگر کہتے تھے اور بعض انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی باتیں پیغمبرانہ معلوم ہوتی ہیں لہٰذا ان کا مقابلہ کرنا درست نہیں ہے فرعون کو جب ان کے تذبذب کا علم ہوا تو ان کو مجبور کیا اور مزید لالچ بھی دیا جس کی وجہ سے وہ مقابلہ کے لئے آمادہ ہوگئے۔
دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ فرعون کو کاہنوں کے ذریعہ جب یہ معلوم ہوا کہ ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھ پر تیری حکومت ختم ہوجائے گی اور اس نوعیت کے اس کے پاس علوم اور معجزات ہوں گے تو فرعون نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ملک میں جادو کی تعلیم کو جبری اور لازمی قرار دیدیا تھا جس کی وجہ سے جادوگروں کا یہ کہنا کہ تو نے ہمیں جادو پر مجبور کیا ہے صحیح اور درست ہے، (روح)
آسیہ فرعون کی بیوی کا ایمان : تفسیر قرطبی میں ہے کہ حق و باطل کے اس معرکہ کے وقت فرعون کی بیوی آسیہ برابر خبر رکھتی رہیں کہ انجام کیا ہوا جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ موسیٰ اور ہارون غالب آگئے تو فوراً ہی اس نے بھی اعلان کردیا کہ میں بھی موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتی ہوں، فرعون کو جب اپنی بیوی آسیہ کے ایمان کا علم ہوا تو حکم دیا کہ ایک بھاری پتھر اس کے اوپر گرا دیا جائے، آسیہ نے جب یہ دیکھا تو آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور اللہ سے فریاد کی حق تعالیٰ نے پتھر اس کے اپور گرنے سے پہلی ہی اس کی روح قبض کرلی اور پتھر مردہ جسم پر گرا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ ﴾ فرعون نے جادوگروں سے کہا : ﴿آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ﴾ یعنی مجھ سے پوچھے اور میری اجازت کے بغیر تم نے ایمان لانے کا اقدام کیسے کرلیا؟ چونکہ وہ اپنے ہر معاملے میں فرعون کے مطیع تھے اور اس کا نہایت ادب کرتے تھے، اس لئے فرعون کو ان کا ایمان لانابڑا عجیب اس لگا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس معاملے میں بھی اس کی اطاعت کریں گے۔ اس دلیل اور برہان کو دیکھ لینے کے بعد فرعون اپنے کفر اور سرکشی میں بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ بات کہہ کر اس نے اپنی قوم کی عقل کو اپنی اس بات سے ماؤف کردیا اور یہ ظاہر کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کو جادوگروں پر جو غلبہ حاصل ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ حق موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے بلکہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا گٹھ جوڑ ہے، انہوں نے فرعون اور اس کی قوم کو ان کی زمین سے باہر نکالنے کے لئے اسزش کی ہے۔ پس فرعون کی قوم نے مکرو فریب پر مبنی اس موقف کو سچ سمجھ کر قبول کرلیا۔ ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُإِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ (لزخرف :30؍73) ” اس نے اپنی قوم کی عقل کو ہلکا کردیا اور انہوں نے اس کی بات مان لی، بے شک وہ نافرمان لوگ تھے۔ “
فرعون کی یہ بات کسی آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتی جو رتی بھر عقل اور واقعہ کی معرفت رکھتا ہے۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے تشریف لائے تو وہ تنہا تھے جب وہ مصر پہنچے تو وہ کسی جادوگر سے نہیں ملے بلکہ وہ فرعون اور اس کی قوم کو دعوت دینے کے لئے جلدی سے اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے معجزات دکھائے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کرلیا اور امکان بھر کوشش کی، چنانچہ ہر کارے بھیج کر تمام شہروں سے ماہر جادوگر اکٹھے کر لئے۔ اس نے جادوگروں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو وہ انہیں بہت بڑا معاوضہ اور قدر و منزلت عطا کرے گا۔ چونکہ وہ بہت زیادہ لالچی تھے اس لئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے مکرو فریب کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ کیا اس صورتحال میں یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ جادو گروں اور موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے خلاف سازش کرلی ہو اور جو کچھ پیش آیا اس پر پہلے سے اتفاق کرلیا ہو۔ یہ محال ترین بات ہے۔
پھر فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ﴾ ” پس میں ضرور کاٹ دوں گا تمہارے ہاتھ اور تمہارے پیر الٹے سیدھے“ جیسے فساد برپا کرنے والے محاربین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جاتا ہے۔ ﴿وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ﴾ یعنی تمہاری رسوائی اور اس کی تشہیر کی خاطر تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دے دوں گا۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور تم جان لو گے کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور پائیدار ہے۔“ یعنی فرعون اور اس کے گروہ کا یہ گمان تھا کہ فرعون کا عذاب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے زیادہ سخت، حقائق کو بدلنے اور بے عقل لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے زیادہ دیرپا ہے، اس لئے جب جادوگروں نے حق کو پہچان لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دے دی جس کی بنا پر انہوں نے حقائق کا ادراک کرلیا تو انہوں نے جواب دیا۔ ﴿لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ﴾ ” ہم ہرگز تجھ کو ترجیح نہیں دیں گے ان دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں۔“ جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکیلا ہی رب ہے، وہ اکیلا ہی معظم اور معزز ہے اور اس کے سوا (دوسرے تمام) معبود باطل ہیں۔ تجھے ہم اس ہستی پر ترجیح دیں جس نے ہمیں پیدا کیا؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ ﴿فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ﴾ ” پس تو جو کرسکتا ہے کرلے۔“ یعنی جن باتوں سے تو نے ہمیں ڈرایا ہے، ہاتھ پیر کاٹنے سے، سولی پر چڑھانے سے یا اور سخت سزا سے، وہ تو دے کر دیکھ لے۔ ﴿إِنَّمَا تَقْضِي هَـٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾ تو ہمیں جس تعذیب کی دھمکی دیتا ہے اس کی غایت و انتہاء یہ ہے کہ تو صرف اس دنیا میں ہمیں عذاب دے سکتا ہے جو ختم ہوجانے والا ہے یہ عذاب ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کا دائمی عذاب ہے جو اس کا انکار کرتا ہے۔ یہ گویا فرعون کے اس قول کا جواب ہے۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ ”اگرتم جان لوگے کہ ہم میں سے کس کاعذاب زیادہ سخت اور پائیدار ہے ۔“یعنی فرعون اور اس کے گروہ کا یہ گمان تھا کہ فرعون کا عذاب اللہ تعالیٰ کےعذاب سے زیادہ سخت،حقائق کوبدلنے اور بےعقل لوگوں کوخوفزدہ کرنے کے لیے زیادہ دیرپا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
firon bola : tum inn per meray ijazat denay say pehlay hi emaan ley aaye . mujhay yaqeen hai kay yeh ( musa ) tum sabb ka sarghana hai jiss ney tumhen jadoo sikhlaya hai . abb mein ney bhi paka irada kerliya hai kay tumharay haath paon mukhalif samton say kaatun ga , aur tumhen khujoor kay tanon per sooli charhaon ga . aur tumhen yaqeenan pata lagg jaye ga kay hum dono mein say kiss ka azab ziyada sakht aur dairpa hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
نتیجہ موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا گواہ بنا۔
اللہ کی شان دیکھئے چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آجاتا۔ جن کو اس مقابلے کہ لئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے۔ انھوں نے اپنی ہار مان لی اپنے کرتوت کو جادو اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کرلیا۔ خود ایمان لے آئے جو مقابلے کے لئے بلوائے گئے تھے۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بےجھجک انھوں نے دین حق قبول کرلیا۔ لیکن یہ اپنی شیطانیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلاحق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں ؟ پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے ؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو مشورہ کرکے ہمیں تاراج کرنے کے لئے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے ہو اور اپنے اندورنی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے ہو اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کرلیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہوجائے گا۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کجھور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پر سمجھتے ہو اس کا حال تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے اس دھمکی کا ان دلوں پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت و یقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیز سمجھیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہوگی۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی۔ حضرت عبدالرحمن بن زید (رح) کا قول بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا ہمارے لئے بہ نسبت تیرے اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں اگر اس کی نافرمانی کی جائے۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کر سولی پر چڑھا دیا وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔