اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَۗ اَنْـتُمْ لَهَا وَارِدُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے
English Sahih:
Indeed, you [disbelievers] and what you worship other than Allah are the firewood of Hell. You will be coming to [enter] it.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
بیشک تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہو، تمہیں اس میں جانا،
احمد علی Ahmed Ali
بے شک تم اور الله کے سوا جو کچھ پوجتے ہو دوزخ کا ایندھن ہے تم سب اس میں داخل ہو گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو (١)۔
٩٨۔١ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزٰی و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جارہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(کافرو اس روز) تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ اور تم سب اس میں داخل ہو کر رہو گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
بےشک تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں اس میں تم سب کو داخل ہونا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یاد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چیزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنمّ کا ایندھن بنایا جائے گا اور تم سب اسی میں وارد ہونے والے ہو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
جہنم کی ہولناکیاں
بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے جیسے فرمان ہے آیت ( وقودہا الناس والحجارۃ) اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر حبشی زبان میں حطب کو حصب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حصب کے حطب ہے۔ تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پر دوزخی ہوگئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّشَهِيْقٌ\010\06ۙ ) 11 ۔ ھود ;106) ، وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کردیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر) حسنیٰ سے مراد رحمت وسعادت ہیں۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت انکے استقبال کو تیار تھی جیسے فرمان ہے آیت ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26) 10 ۔ یونس ;26) نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی۔ فرمان ہے آیت ( هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ 60ۚ ) 55 ۔ الرحمن ;60) نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے۔ یہ جہنم سے دور کردئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں۔ پل صراط پر دوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہوگئے بلکہ ساتھ ہی راحت وآرام بھی حاصل کرلیا۔ من مانی چیزیں موجود۔ دوامی کی راحت بھی حاضر۔ حضرت علی (رض) نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا (رض) ۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادر گھیسٹتے آیت (وہم لایسمعون حسیسہا) ۔ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوگئے اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان (رض) اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوجائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کردی تھی، حضرت عزیر، حضرت مسیح، فرشتے، سورج، چاند، حضرت مریم، وغیرہ۔ عبداللہ بن زبعری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98) 21 ۔ الأنبیاء ;98) اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند، فرشتے عزیر، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57) 43 ۔ الزخرف ;57) اور آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ\010\01ۙ ) 21 ۔ الأنبیاء ;101) نازل ہوئی۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہوگیا آپ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98) 21 ۔ الأنبیاء ;98) تلاوت فرمائی۔ جب آپ اس مجلس سے چلے گئے تو عبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے۔ آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت (ان الذین سبقت) میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہوگئے۔ چناچہ قرآن میں ہے آیت (ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم۔ الخ) یعنی ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57) 43 ۔ الزخرف ;57) اتری کہ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا تھا۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کردیتے حضرت عیسیٰ نشان قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے۔ میری مانتا چلاجا یہی صراط مستقیم ہے ابن زبعری کی جرات دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے۔ امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں لفظ ما جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بےجان اور بےعقل ہوں۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے (رض) یہ بڑے مشہور شاعر تھے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی۔ موت کی گھبراہٹ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے، پورے مسرور ہوں گے، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو۔