ہم نے ہر ایک امت کے لئے (احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کر دی ہے، انہیں اسی پر چلنا ہے، سو یہ لوگ آپ سے ہرگز (اﷲ کے) حکم میں جھگڑا نہ کریں، اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں۔ بیشک آپ ہی سیدھی (راہِ) ہدایت پر ہیں،
English Sahih:
For every [religious] community We have appointed rites which they perform. So, [O Muhammad], let them [i.e., the disbelievers] not contend with you over the matter but invite [them] to your Lord. Indeed, you are upon straight guidance.
1 Abul A'ala Maududi
ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ، وہ اِس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں تم اپنے رب کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو
2 Ahmed Raza Khan
ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کے قاعدے بنادیے کہ وہ ان پر چلے تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں اور اپنے رب کی طرف بلاؤ بیشک تم سیدھی راہ پر ہو،
3 Ahmed Ali
ہم نے ہر قوم کے لیے ایک دستور مقرر کر دیا ہے جس پر وہ چلتے ہیں پھر انہیں تمہارے ساتھ اس معاملہ میں جھگڑنا نہ چاہیئے اور اپنے رب کی طرف بلا بے شک تو البتہ سیدھے راستہ پر ہے
4 Ahsanul Bayan
ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے، جسے وہ بجا لانے والے ہیں (١) پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے (٢) آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں (٣)۔
٦٧۔١ یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ علیہ السلام کے لئے، انجیل امت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔ ٦٧۔٢ یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑیں۔ ٦٧۔٣ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم نے ہر ایک اُمت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی ہے جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ بےشک تم سیدھے رستے پر ہو
6 Muhammad Junagarhi
ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے، جسے وه بجا ﻻنے والے ہیں پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہئے آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) ہم نے ہر قوم کیلئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کے مطابق وہ عبادت کر رہی ہے۔ اس لئے انہیں آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور آپ اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہیے! یقیناً آپ ہدایت کے سیدھے راستہ پر ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ہم نے ہر ایک امت کے لئے ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں تو یہ لوگ تم سے اس امر میں جھگڑا نہ کریں اور تم (لوگوں کو) اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو بیشک تم سیدھے راستے پر ہو
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ہر امت کے لئے ﴿ مَنسَكًا ﴾ ایک عبادت مقرر کی ہے جو عدل و حکمت پر متفق ہونے کے باوجود بعض امور میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللّٰـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ (المائدة:5؍48) ” ہم نے تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اس نے جو احکام تمہیں دیئے ہیں وہ ان میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ “ ﴿ هُمْ نَاسِكُوهُ ﴾ یعنی وہ اس پر اپنے احوال کے مطابق عمل پیرا ہیں، اس لئے ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پر اعتراض کی گنجائش نہیں، خاص طور پر ان پڑھوں کے لئے جو شرک اور کھلی جہالت میں مبتلا ہیں کیونکہ جب رسول کی رسالت دلائل کے ساتھ ثابت ہوگئی تو اس پر اعتراض کو ترک کرنا، ان تمام احکام کو قبول کرنا اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنا واجب ہے، جو رسول لے کر آیا ہے، بناء بریں فرمایا : ﴿ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ﴾ یعنی آپ کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسد عقل کی بنیاد پر آپ کے ساتھ جھگڑا کریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں، جیسے وہ اپنے فاسد قیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپ سے جھگڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” جسے تم قتل کرتے ہو اسے تو کھا لیتے ہو اور جسے اللہ تعالیٰ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے“ اور جیسے وہ سود کی حلت کے لئے کہتے ہیں : ” تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے“ اور اس قسم کے دیگر اعتراضات، جن کا جواب دینا لازم نہیں۔ وہ درحقیقت، اصل رسالت ہی کے منکر ہیں، جس میں کسی بحث اور مجادلے کی گنجائش نہیں بلکہ ہر مقام کے لئے ایک الگ دلیل اور گفتگو ہے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والا، منکر رسالت جب یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف تلاش حق کے لئے بحث کرتا ہے تو اس سے یہ کہا جائے : ”آپ کیساتھ صرف رسالت کے اثبات اور عدم اثبات پر گفتگو ہوسکتی ہے“ ورنہ اس کا صرف اپنی بات پر اقتصار کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد محض عاجز کرنا اور مشقت میں ڈالنا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیں اور اسی رویے کو اپنائے رکھیں، خواہ معترضین اعتراض کریں یا نہ کریں اور یہ مناسب نہیں کہ کوئی چیز آپ کو اس دعوت سے ہٹا دے کیونکہ ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ” یقیناً آپ سیدھے راستے پر ہیں“ جو معتدل اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے اور علم حق اور اس پر عمل کا متضمن ہے۔ آپ کو اپنی دعوت کی حقانیت پر اعتماد اور اپنے دین پر یقین ہے، لہٰذا یہ اعتماد اور یقین اس امر کے موجب ہیں کہ آپ اپنے موقف پر سختی سے جمے رہیں اور وہ کام کرتے رہیں جس کا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے۔ آپ کا موقف مشکوک اور کمزور نہیں یا آپ کی دعوت جھوٹ پر مبنی نہیں کہ آپ لوگوں کی خواہشات نفس اور انکی آراء کی طرف التفات کریں اور ان کا اعتراض آپ کی راہ کو کھوٹا کر دے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰـهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ ﴾ (النمل : 27؍79) ” اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے، بے شک آپ واضح حق پر ہیں۔ “ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴾ میں جزئیات شرع پر معترضین کے اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے جو عقل صحیح پر مبنی ہے کیونکہ ہدایت ہر اس چیز کا وصف ہے جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ ہدایت وہ طریق کار ہے جس سے اصولی اور فروعی مسائل میں راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا حسن اور جن میں پنہاں عدل و حکمت عقل صحیح اور فطرت سلیم کے نزدیک معروف ہے اور یہ چیز مامورات و منہیات کی تفاصیل پر غور کرنے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
hum ney her ummat kay logon kay liye ibadat ka aik tareeqa muqarrar kiya hai , jiss kay mutabiq woh ibadat kertay hain , lehaza ( aey payghumber ! ) logon ko tum say iss moamlay mein jhagrra nahi kerna chahiye , aur tum apney perwerdigar ki taraf dawat detay raho . tum yaqeenan seedhay raastay per ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
مناسک کے معنی اصل میں عربی زبان میں منسک کا لفظی ترجمہ وہ جگہ ہے، جہاں انسان جانے آنے کی عادت ڈال لے۔ احکام حج کی بجاآوری کو اس لئے مناسک کہا جاتا ہے کہ لوگ بار بار وہاں جاتے ہیں اور ٹھیرتے ہیں۔ منقول ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ہر امت کے پیغمبر کے لئے ہم نے شریعت مقرر کی ہے، اس امر میں لوگ نہ لڑے، سے مراد یہ مشرک لوگ ہیں۔ اور اگر مراد ہر امت کے بطور قدرت کے ان کے افعال کا تقرر کرنا ہے۔ جیسے سورة بقرہ میں فرمان ہے کہ ہر ایک لئے ایک سمت ہے جدھر وہ متوجہ ہوتا ہے یہاں بھی ہے کہ وہ اس کے بجالانے والے ہیں تو ضمیر کا اعادہ بھی خود ان پر ہی ہے یعنی یہ اللہ کی قدرت اور ارادے سے کررہے ہیں ان کے جھگڑنے سے تو بددل نہ ہو اور حق سے نہ ہٹ۔ اپنے رب کی طرف بلاتا رہ اور اپنی ہدایت واستقامت پر مکمل یقین رکھ۔ یہی راستہ حق سے ملانے والا ہے، کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ جیسے فرمایا ہے ( وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 87ۚ ) 28 ۔ القصص :87) خبردار کہیں تجھے اللہ کی آیتوں کے تیرے پاس پہنچ جانے پر بھی ان سے روک نہ دیں، اپنے رب کے راستے کی دعوت عام برابر دیتا رہ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حق قبول کرنے سے جائے تو اس سے کنارہ اختیار کیجئے اور کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے۔ جیسے کئی جگہ اسی مضمون کو دہرایا ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ اگر " یہ تجھے جھٹلائیں تو ان سے کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں۔ " پس یہاں بھی ان کے کان کھول دیئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے وہ تمہاری ادنیٰ سی ادنیٰ حرکت کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے تم میں کافی شاہد ہے قیامت کے دن ہم تم میں فیصلہ اللہ خود کردے گا اور اس وقت سارے اختلافات مٹ جائیں گے جیسے فرمان ہے تو اسی کی دعوت دیتا رہ اور ہمارے حکم پر ثابت قدم رہ اور کسی کی خواہش کے پیچھے نہ لگ اور صاف اعلان کردے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر میرا ایمان ہے۔