٢۔١ خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو اپنی نمازوں میں گڑگڑانے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
جن کی صفات کاملہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ بلا شبہ وہ ﴿ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾ ’’اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘ نماز میں خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل اللہ تعالیٰ کو قریب سمجھتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہو۔۔۔ اس سے قلب کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کی تمام حرکات ساکن اور غیر اللہ کی طرف اس کا التفات کم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، وہ اپنی نماز کے اندر، اول سے لے کر آخر تک جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے پورے استحضار کے ساتھ کہتا ہے۔ اس طرح اس کے دل سے تمام و سو سے اور غلط افکار زائل ہوجاتے ہیں۔ یہی نماز کی روح اور یہی اس سے مقصود ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو بندے کے لئے لکھ دیا گیا ہے۔ پس وہ نماز جو خشوع و خضوع اور حضور قلب سے خالی ہو اس پر اگرچہ ثواب ملتا ہے مگر صرف اتنا ملتا ہے جتنا قلب اس کو سمجھ کر ادا کرتا ہے۔