آپ برائی کو ایسے طریقہ سے دفع کیا کریں جو سب سے بہتر ہو، ہم ان (باتوں) کو خوب جانتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں،
English Sahih:
Repel, by [means of] what is best, [their] evil. We are most knowing of what they describe.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں
2 Ahmed Raza Khan
سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں
3 Ahmed Ali
بری بات کے جواب میں وہ کہو جو بہتر ہے ہم خوب جانتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو، (١) جو کچھ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں۔
٩٦۔١ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ (٢٤۔٣٥)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو۔ اور یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے
6 Muhammad Junagarhi
برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی واﻻ ہو، جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ برائی کو احسن طریقہ سے دفع کریں۔ ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (آپ کی نسبت) بیان کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعہ رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو اور یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے
10 Tafsir as-Saadi
یہ ان مکارم اخلاق میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ﴾ ” دور کریں برائی کو اس طریقے سے جو احسن ہو۔“ یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن قول و فعل کے ذریعے سے آپ کے ساتھ برائی سے پیش آئیں تو آپ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئیں، ہرچند کہ برائی کا بدلہ اسی قسم کی برائی سے دینا جائز ہے مگر آپ ان کے برے سلوک کے بدلے میں، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے برا سلوک کرنے والے پر احسان ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ حال اور مستقبل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے برائی میں تخفیف ہوگی۔ آپ کا یہ حسن سلوک آپ کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے کو حق کی طرف لانے میں زیادہ ممد ثابت ہوگا۔ آپ کا حسن سلوک برائی سے پیش آنے والے کو ندامت، تاسف اور توبہ کے ذریعے سے بدسلوکی سے رجوع کرنے کے زیادہ قریب لے آئے گا۔ معاف کرنے والے کو احسان کی صفت سے متصف ہونا چاہیے، اس سے وہ اپنے دشمن شیطان پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور رب کریم کی طرف سے ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰـهِ ﴾ )الشوریٰ :42؍42)” جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔“ اور فرمایا : ﴿ دْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ (حمٓ السجدۃ:41؍34۔35)” آپ برائی کو ایسی نیکی کے ذریعے سے روکئے جو بہترین ہو تب آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص، جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے، آپ کا جگری دوست بن جائے گا اور یہ صفت نصیب نہیں ہوتی ( یعنی خلق جمیل کی توفیق) مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اس صفت سے بہرہ مند نہیں ہوتے مگر وہ لوگ جو بہت بڑے نصیب کے مالک ہیں۔ “ ﴿ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴾ ” ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ان باتوں کو جو کفر اور تکذیب حق کو متضمن ہیں ہمارے علم نے ان کی باتوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ان کے بارے میں حلم سے کام لیا، ہم نے ان کو مہلت دی اور ہم نے ان کے بارے میں صبر کیا ہے۔ حق ہمارے لیے ہے اور ان کی تکذیب بھی ہماری طرف لوٹتی ہے۔ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپ ان کی اذیت ناک باتوں پر صبر کریں اور ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں انسانوں کی طرف سے برے سلوک کے مقابلے میں بندہ مومن کا یہی وظیفہ ہے۔ رہی شیاطین کی بدسلوکی تو ان کے ساتھ حسن سلوک کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ شیاطین تو اپنے گروہ کے لوگوں کو دعوت دیتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جہنم میں جھونکے جانے والوں میں شال ہوجائیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( lekin jab tak woh waqt naa aaye ) tum burai ka dafiya aesay tareeqay say kertay raho jo behtareen ho . jo baaten yeh log banatay hain , hum khoob jantay hain .