Skip to main content

اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۤءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۗ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّـكُمْ ۗ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّـكُمْ ۗ لِكُلِّ امْرِىٴٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَالَّذِىْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ

Indeed
إِنَّ
بیشک
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
brought
جَآءُو
جو لائے ہیں
the lie
بِٱلْإِفْكِ
جھوٹ۔ بہتان
(are) a group
عُصْبَةٌ
ایک جتھہ ہیں ۔ گروہ ہیں
among you
مِّنكُمْۚ
تم میں سے
(Do) not
لَا
نہ
think it
تَحْسَبُوهُ
تم سمجھو اس کو
bad
شَرًّا
برا
for you
لَّكُمۖ
تمہارے لیے
nay
بَلْ
بلکہ
it
هُوَ
وہ
(is) good
خَيْرٌ
اچھا ہے
for you
لَّكُمْۚ
تمہارے لیے
For every
لِكُلِّ
واسطے ہر
person
ٱمْرِئٍ
شخص کے
among them
مِّنْهُم
ان میں سے وہ ہے
(is) what
مَّا
جو
he earned
ٱكْتَسَبَ
اس نے کمایا
of
مِنَ
سے
the sin
ٱلْإِثْمِۚ
گناہ میں سے
and the one who
وَٱلَّذِى
اور وہ شخص
took upon himself a greater share of it
تَوَلَّىٰ
جس نے حصہ لیا۔ متولی ہوا
took upon himself a greater share of it
كِبْرَهُۥ
اپنی بڑی بات کا
among them
مِنْهُمْ
ان میں سے
for him
لَهُۥ
اس کے لیے
(is) a punishment
عَذَابٌ
عذاب ہے
great
عَظِيمٌ
بڑا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے

English Sahih:

Indeed, those who came with falsehood are a group among you. Do not think it bad for you; rather, it is good for you. For every person among them is what [punishment] he has earned from the sin, and he who took upon himself the greater portion thereof – for him is a great punishment [i.e., Hellfire].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو تمہارا پردہ کھول دیتا بیشک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے ہیں تمہیں میں کی ایک جماعت ہے اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے ان میں ہر شخص کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں وہ جس نے سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے

احمد علی Ahmed Ali

بے شک جو لوگ یہ طوفان لائے ہیں تم ہی میں سے ایک گروہ ہے تم سے اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے ان میں سے ہر ایک کے لیے بقدرِ عمل گناہ ہے اور جس نے ان میں سے سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں (١) یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے (٢) تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے (٣) ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے (٤)۔

١١۔١ اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کر دیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کر دیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔
١١۔٢ ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔
١١۔٣ کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت ونصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔
١١۔ ٤ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ ﻻئے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروه ہے۔ تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناه ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بےشک جو لوگ جھوٹا بہتان گھڑ کر لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو۔ بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس (گروہ) میں سے ہر آدمی کیلئے اتنا حصہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا ہے۔ اور جو ان میں سے اس (گناہ) کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کیلئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بیشک جن لوگوں نے زنا کی تہمت لگائی وہ تم ہی میں سے ایک گروہ تھا تم اسے اپنے حق میں شر نہ سمجھو یہ تمہارے حق میں خیر ہے اور ہر شخص کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جو اس نے خود کمایا ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہّ لیا ہے اس کے لئے بڑا عذاب ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک جن لوگوں نے (عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا پر) بہتان لگایا تھا (وہ بھی) تم ہی میں سے ایک جماعت تھی، تم اس (بہتان کے واقعہ) کو اپنے حق میں برا مت سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر (ہوگیا) ہے٭ ان میں سے ہر ایک کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس نے کمایا، اور ان میں سے جس نے اس (بہتان) میں سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے زبردست عذاب ہے، ٭ (کیونکہ تمہیں اسی حوالے سے احکامِ شریعت مل گئے اور عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کی پاک دامنی کا گواہ خود اللہ بن گیا جس سے تمہیں ان کی شان کا پتہ چل گیا۔)

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ام المومنین عائشہ صدیقہ کی پاکیزگی کی شہادت
اس آیت سے لے کر دسویں آیت تک ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آبرو پر حرف نہ آئے۔ ان بہتان بازوں کی ایک رٹی تھی۔ اس لعنی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا۔ اس بےایمان نے ایک ایک کان میں بنابناکر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ چناچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ چلی، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے۔ میں اپنے ھودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ھودج اتار لیا جاتا۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ھودج رکھ دیا جاتا۔ ہم لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوے سے فارغ ہوئے، واپس لوٹے، مدینے کے قریب آگئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضاء حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جاکر میں نے قضاء حاجت کی۔ پھر واپس لوٹی، لشکر گاہ کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ھودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں۔ ھودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں۔ تو میرے ھودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا۔ اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی۔ الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا، نہ جواب دینے والا، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے۔ مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی۔ اتفاق سے حضرت صفوان بن معطل سلمی ذکوانی (رض) جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا۔ غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنالیا۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی، نہ میں نے کچھ سنا، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا، میں اس سے محض بیخبر تھی۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے ؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی۔ پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے ! اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی۔ اب سنئے اس وقت تک گھروں میں پاخانے نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضاء حاجت کیلئے جایا کرتے تھے۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں۔ گھروں میں پاخانے بنانے سے عام طور پر نفرت تھی۔ حسب عادت میں، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب (رض) کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا۔ جب ہم واپس آنے لگے تو حضرت ام مسطح کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا، توبہ کرو، تم اسے گالی دیتی ہو، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی۔ اس وقت ام مسطح (رض) نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم ؟ میں نے کہا کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہوگئی۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی، اس خبر نے تو نڈھال کردیا، جوں توں کرکے گھر پہنچی۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جاکر اور اچھی طرح معلوم تو کرلوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے ؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے ؟ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے ؟ میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دیدی، میں یہاں آئی، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں ؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے، میں سر ڈال کر روتی رہتی۔ کس کا کھانا پینا، کس کا سونا بیٹھنا، کہاں کی بات چیت، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اور حضرت اسامہ بن زید (رض) کو بلوایا، وحی میں دیر ہوئی، اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کردیں یا کیا ؟ حضرت اسامہ (رض) نے تو صاف کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے۔ ہمارے دل ان کی عفت، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں۔ ہاں حضرت علی (رض) نے جواب دیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف سے آپ پر کوئی تنگی نہیں، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں۔ اگر آپ گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت گھر کی خادمہ حضرت بریرہ (رض) کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ عائشہ کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ۔ بریرہ نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سو جاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لئے اسی دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا کون ہے ؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد بن معاذ (رض) کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہ (رض) کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر حضرت سعد بن معاذ (رض) سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا۔ یہ سن کر حضرت اسید بن حضیر (رض) کھڑے ہوگئے یہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ تم جھوٹ کہتے ہو، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آگیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑپڑیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کردیئے تھے، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشیرف لائے اور سلام کرکے میرے پاس بیٹھ گئے۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی حالت تھی۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہوسکے۔ آپ نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر اما بعد فرما کر فرمایا کہ اے عائشہ ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر، بندہ جب گناہ کرکے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔ آپ اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔ میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ ہی جواب دیجئے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جواب دوں ؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیجئے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں ؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا۔ میں نے کہا، آپ سب نے ایک بات سنی، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بےگناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل حضرت ابو یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول ہے آیت (فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون) پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیرلی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برات اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میری برات دکھا دے۔ واللہ ابھی تو نہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا عائشہ خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات نازل فرما دی۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑی ہوجاؤ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برات اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے۔ پس آیت (ان الذین جاء و بالافک) سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئیں۔ ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں حضرت مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا۔ اس پر آیت (ولا یاتل اولوالفضل الخ) ، نازل ہوئی یعنی تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں، انہیں نہ چاہئے کہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے ؟ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر (رض) نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں۔ چناچہ اسی وقت حضرت مسطح (رض) کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب بنت جحش (رض) سے بھی جو آپ کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو سوائے بہتری کے عائشہ (رض) کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا اس میں ہے کہ سعد بن معاذ (رض) کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح تھیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح کو کو سا، میں نے منع کیا پھر پھسلیں، پھر کو سا، میں نے پھر روکا۔ پھر الجھیں، پھر کو سا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام کردیا تھا۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا ! آج کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بھی یہ بات پہنچی ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہوگیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب (رض) کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ چناچہ میں واپس چلی گئی۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، بیخبر ی سے سو جاتی ہیں۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتادے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا۔ اسی طرح میں صدیقہ پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ( رض ) ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بےشرمی کی بات ہے ؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں ؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد وثناء کے بعد جواب دیا تھا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہرچند حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا۔ اس میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش، مسطح، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا اور حدیث میں ہے کہ میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش کو۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ کے والد اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوچکا ہے تو آپ بیہوش ہو کر گرپڑیں۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں۔ آپ کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے پوچھا یہ کیا حال ہے ؟ میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہوگیا ہوگا ؟ جب آپ کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ نے انہیں سن کر فرمایا کہ یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ کے فضل سے۔ تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کہتی ہو ؟ صدیقہ (رض) نے فرمایا ہاں۔ اب آیتوں کا مطلب سنئے جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر (رض) اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لئے بھلا ہے۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے۔ حضرت عائشہ کی برات قرآن کریم میں نازل ہوگی، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت ابن عباس (رض) اماں صاحبہ (رض) کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ام المومنین آپ خوش ہوجائیے کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ رہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محبت سے پیش آتے رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی برات آسمان سے نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت زینب اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو حضرت زینب (رض) نے فرمایا میرا نکاح آسمان سے اترا۔ اور حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل (رض) مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے۔ حضرت زینب نے پوچھا یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے ؟ آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل اس پر وہ بول اٹھیں کہ تم نے مومنوں کا کلمہ کہا تھا۔ پھر فرمایا جس جس نے پاک دامن صدیقہ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا۔ اور جس نے اس کی ابتدا اٹھائی ہے، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے۔ ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے حسان ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں بیان کردیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ حضرت حسان (رض) بڑے بزرگ صحابہ میں سے ہیں۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جواب دیتے تھے۔ انہی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ " تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں۔ " حضرت مسروق (رض) کا بیان ہے کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا کہ حضرت حسان بن ثابت (رض) آئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو ، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ انہیں کیوں آنے دیتی ہیں ؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے تو ام المومنین نے فرمایا اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا یہ نابینا ہوگئے تھے۔ تو فرمایا شاید یہی عذاب عظیم ہو۔ پھر فرمایا تمہیں نہیں خبر ؟ یہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان (رض) نے اس وقت حضرت عائشہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ پاکدامن، بھولی، تمام اوچھے کاموں سے، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں، تو آپ نے فرمایا تم تو ایسے نہ تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے حضرت حسان (رض) کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حسان جنتی ہیں۔ وہ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کی ہے، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان ہے، میں ان سب کو فنا کرکے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کرسکتا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کرے ؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے نیک پر فدا ہیں۔ جب تم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے ؟ ام المومنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے ؟ فرمایا ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں ؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں، تلوار ان پر اٹھی، وہ تو کہئے حضرت صفوان رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے۔