Skip to main content

هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰـطِيْنُۗ

Shall
هَلْ
کیا
I inform you
أُنَبِّئُكُمْ
میں بتاؤں تم کو
upon
عَلَىٰ
اوپر
whom
مَن
کس کے
descend
تَنَزَّلُ
اترتے ہیں
the devils?
ٱلشَّيَٰطِينُ
شیطان

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اُترا کرتے ہیں؟

English Sahih:

Shall I inform you upon whom the devils descend?

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اُترا کرتے ہیں؟

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اترتے ہیں شیطان،

احمد علی Ahmed Ali

کیا میں تمہیں بتاؤں شیطان کس پر اترتے ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

(اچھا) میں تمیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اُترتے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

شیاطین اور جادوگر
مشرکین کہا کرتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا یہ قرآن برحق نہیں۔ اس نے اسکو خود گھڑلیا ہے یا اس کے پاس جنوں کا کوئی سردار آتا ہے جو اسے یہ سکھا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس اعتراض سے پاک کیا اور ثابت کیا کہ آپ جس قرآن کو لائے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے اسی کا اتارا ہوا ہے۔ بزرگ امین طاقتور فرشتہ اسے لایا ہے۔ یہ کسی شیطان یا جن کی طرف سے نہیں شیاطین تو تعلیم قرآن سے چڑتے ہیں اس کی تعلیمات ان کے یکسر خلاف ہیں۔ انہیں کیا پڑی کہ ایسا پاکیزہ اور راہ راست پر لگانے والا قرآن وہ لائیں اور لوگوں کو نیک راہ بتائیں وہ تو اپنے جیسے انسانی شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو پیٹ بھر کر جھوٹ بولنے والے ہوں۔ بدکردار اور گناہگار ہوں۔ ایسے کاہنوں اور بدکرداروں اور جھوٹے لوگوں کے پاس جنات اور شیاطین پہنچتے ہیں کیونکہ وہ بھی جھوٹے اور بداعمال ہیں۔ اچٹتی ہوئی کوئی ایک آدھ بات سنی سنائی پہنچاتے ہیں اور وہ ایک جو آسمان سے چھپے چھپائے سن لی تو سو جھوٹ اس میں ملاکر کاہنوں کے کان میں ڈالدی۔ انہوں نے اپنی طرف سے پھر بہت سی باتیں شامل کرکے لوگوں میں ڈینگیں ماردیں۔ اب ایک آدھ بات تو سچی نکلی لیکن لوگوں نے ان کی اور سو جھوٹی باتیں بھی سچی مان لیں اور تباہ ہوئے۔ بخاری شریف میں ہے کہ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا حضور کبھی کبھی تو ان کی کوئی بات کھری بھی نکل آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ وہی بات ہوتی ہے جو جنات آسمان سے اڑا لاتے ہیں اور ان کے کان میں کہہ کر جاتے ہیں پھر اسکے ساتھ جھوٹ اپنی طرف سے ملاکر کہہ دیتے ہیں صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے با ادب اپنے پر جھکا دیتے ہیں۔ ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر بجائی جاتی ہو جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوتی ہے تو آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ رب کا کیا حکم صادر ہوا ہے ؟ دوسرے جواب دیتے ہیں کہ رب نے یہ فرمایا اور وہ عالی شان اور بہت بڑی کبرائی والا ہے۔ کبھی کبھی امر الہی سے چوری چھپے سننے والے کسی جن کے کان میں بھنک پڑجاتی ہے جو اس طرح ایک پر ایک پر ہو کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ راوی حدیث حضرت سفیان نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھیلاکر اس پر دوسرا ہاتھ اس طرح رکھ کر انہیں ہلاکر بتایا کہ اس طرح۔ اب اوپر والا نیچے والے کو اور وہ اپنے سے نیچے والے کو وہ بات بتلا دیتا ہے یہاں تک کہ جادوگر اور کاہن کو وہ پہنچادیتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات پہنچاتے اس سے پہلے شعلہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس کے پہلے ہی وہ پہنچادیتے ہیں اس میں کاہن و جادوگر اپنے سو جھوٹ شامل کر کے مشہور کرتا ہے چونکہ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ سب باتوں کو ہی سچا سمجھنے لگتے ہیں۔ ان تمام احایث کا بیان آیت (حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23؀) 34 ۔ سبأ ;23) کی تفسیر میں آئے گا۔ انشاء اللہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ فرشتے آسمانی امر کی بات چیت بادلوں پر کرتے ہیں جسے شیطان سن کر کاہنوں اور وہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کافر شاعروں کی اتباع گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ عرب کے شاعروں کا دستور تھا کسی کی مذمت اور ہجو میں کچھ کہہ ڈالتے تھے لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہوجاتی تھی اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کی ایک جماعت کیساتھ عرج میں جا رہے تھے راستے میں ایک شاعر شعر خوانی کرتے ہوئے ملا۔ آپ نے فرمایا اس شیطان کو پکڑ لو یا فرمایا روکو۔ تم میں سے کوئی شخص خون اور پیپ سے اپنا پیٹ بھرلے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے اپنا پیٹ بھرے۔ انہیں ہر جنگل کی ٹھوکریں کھاتے کسی نے نہیں دیکھا ؟ ہر لغو میں یہ گھس جاتے ہیں۔ کلام کے ہر فن میں بولتے ہیں۔ کبھی کسی کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ کبھی کسی کی مذمت میں آسمان و زمین سر پر اٹھاتے ہیں جھوٹی خوشامد جھوٹی برائیاں گھڑی ہوئی بدیاں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ یہ زبان کے بھانڈ ہوتے ہیں لیکن کام کے کاہل ایک انصاری اور ایک دوسری قوم کے شخص نے ہجو کا مقابلہ کیا جس میں دنوں کے قوم کے بڑے بڑے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ پس اس آیت میں یہی ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے گمراہ لوگ ہیں۔ وہ وہ باتیں بکا کرتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی کیا نہ ہو۔ اسی لئے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی شاعر نے نے اپنے شعر میں کسی ایسے گناہ کا اقرار کیا ہو جس پر حد شرع واجب ہوتی ہو تو آیا وہ حد اس پر جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ دونوں طرف علماء گئے۔ واقعی وہ فخر و غرور کے ساتھ ایسی باتیں بک دیتے ہیں کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا حالانکہ نہ کچھ کیا ہو اور نہ ہی کرسکتے ہوں۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت نعمان بن عدی بن فضلہ کو بصرے کے شہر یسان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ وہ شاعر تھے ایک مرتبہ اپنے شعروں میں کہا کہ کیا حسینوں کو یہ اطلاع نہیں ہوئی کہ ان کا محبوب یسان میں ہے جہاں ہر وقت شیشے کے گلاسوں میں دور شراب چل رہا ہے اور گاؤں کی بھولی لڑکیوں نے گانے اور ان کے رقص وسرور مہیا ہیں ہاں اگر میرے کسی دوست سے ہوسکے تو اس بڑے اور بھرے ہوئے جام مجھے پلائے لیکن ان سے چھوٹے جام مجھے سخت ناپسند ہیں۔ اللہ کرے امیر المومنین کو یہ خبر نہ پہنچے ورنہ برا مانیں گے اور سزادیں گے۔ یہ اشعار سچ مچ حضرت امیرالمومنین (رض) تک پہنچ گئے آپ سخت ناراض ہوئے اور اسی وقت آدمی بھیجا کہ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کیا۔ اور آپ نے ایک خط بھیجا جس میں بسم اللہ کے بعد حم کی تین آیتیں (الیہ المصیر) تک لکھ کر پھر تحریر فرمایا کہ تیرے اشعار سے مجھے سخت رنج ہوا۔ میں تجھے تیرے عہدے سے معزول کرتا ہوں۔ چناچہ اس خط کو پڑھتے ہی حضرت نعمان دربار خلافت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ امیر المومنین واللہ نہ میں نے کبھی شراب پی نہ ناچ رنگ و گانا بجانا دیکھا، نہ سنا۔ یہ تو صرف شاعرانہ ترنگ تھی۔ آپ نے فرمایا یہی میرا خیال ہے لیکن میری تو ہمت نہیں پڑتی کہ ایسے فحش گو شاعر کو کوئی عہدہ دو ۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) کے نزدیک بھی شاعر اپنے شعروں میں کسی جرم کے اعلان پر اگرچہ وہ قابل حد ہو تو حد نہیں لگائی جائے گی اس لئے کہ وہ جو کہتے ہیں سو کرتے نہیں ہاں وہ قابل ملامت اور لائق سرزنش ضرور ہیں۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھرلینے سے بدتر ہے۔ مطلب یہ کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو شاعر ہیں، نہ ساحر، نہ کاہن، نہ مفتری ہیں۔ آپ کا ظاہر حال ہی آپ کے ان عیوب سے براءت کا بہت بڑا عادل گواہ ہے جیسے فرمان ہے کہ تو ہم نے انہیں شعر گوئی سکھائی ہے نہ اس کے لائق ہے یہ تو صرف نصیحت اور قرآن مبین ہے۔ اور آیت میں ہے یہ رسول کریم کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں تم میں ایمان کی کمی ہے یہ کسی کاہن کا قول نہیں۔ تم میں نصیحت ماننے کا مادہ کم ہے یہ تو رب العلمین کی اتاری ہوئی کتاب ہے اس سورت میں بھی یہی فرمایا گیا کہ یہ رب العلمین کی طرف سے اتری ہے۔ روح الامین نے تیرے دل پر نازل فرمائی ہے عربی زبان میں ہے اس لیے کہ تو لوگوں کو آگاہ کردے اسے شیاطین لے کر نہیں آئے نہ یہ ان کے لائق ہے نہ ان کی بس کی بات ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ کردئیے گئے ہیں۔ جو جھوٹے مفتری اور بد کردا ہوتے ہیں ان کے پاس شیاطین آتے ہیں جو اچٹتی باتیں سن سناکر ان کے کانوں میں آکر ڈال جاتے ہیں۔ محض جھوٹ بولنے والے یہ خود ہوتے ہیں شاعروں کی پشت پناہی اوباشوں کا کام ہے وہ تو ہر وادی میں سرگرداں ہوتے ہیں زبانی باتیں بناتیں ہیں عمل سے کورے رہتے ہیں۔ اس کے بعد جو فرمان ہے اسکا شان نزول یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت جس میں شاعروں کی مذمت ہے جب اتری تو دربار رسول کے شعراء حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن مالک (رض) روتے ہوئے دربار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعروں کی تو یہ گت بنی اور ہم بھی شاعر ہیں اسی وقت آپ نے یہ دوسری آیت تلاوت فرمائی کہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے تم ہو ذکر اللہ بکثرت کرنے والے تم ہو مظلوم ہو کر بدلہ لینے والے تم ہو پس تم ان سے مسثنیٰ ہو ( ابن ابی حاتم وغیرہ) ۔ ایک روایت میں حضرت کعب کا نام ہے ایک روایت میں صرف عبداللہ کی اس شکایت پر کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر تو میں بھی ہوں اس دوسری آیت کا نازل ہونا مروی ہے لیکنے یہ قابل نظر۔ اس لئے کہ یہ سورت مکیہ ہے شعراء انصار جتنے بھی تھے وہ سب مدینے میں تھے پھر ان کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا یقینا محل غور ہوگا اور جو حدیثیں بیان ہوئیں وہ مرسل ہیں اس وجہ سے اعتماد نہیں ہوسکتا ہے یہ آیت کا نازل بیشک استثناء کے بارے میں ہے اور صرف یہی انصاری شعراء (رض) ہی نہیں بلکہ اگر کسی شاعر نے اپنی جاہلیت کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی اشعار کہے ہوں اور پھر مسلمان ہوجائے توبہ کرلے اور اس کے مقابلے میں ذکر اللہ بکثرت کرے وہ بیشک اس برائی سے الگ ہے۔ حسنات سیات کو دور کردیتی ہے جب کہ اس نے مسلمان کو اور دین حق کو برا کہا تھا وہ برا تھا لیکن جب اس نے ان کی مدح کی تو برائی بھلائی سے بدل گئی۔ جیسے حضرت عبداللہ بن زبعری (رض) نے اسلام سے پہلے حضور کی ہجو بیان کی تھی لیکن اسلام کے بعد بڑی مدح بیان کی اور اپنے اشعار میں اس ہجو کا عذر بھی بیان کرتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت شیطانی پنجہ میں پھنسا ہوا تھا اسی طرح ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب باوجود آپ کا چچا زاد بھائی ہونے کے آپ کا جانی دشمن تھا اور بہت ہجو کیا کرتا تھا جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ دنیا بھر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محبوب انہیں کوئی نہ تھا۔ اکثر آپ کی مدح کیا کرتے تھے اور بہت ہی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ صحیح مسلم میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو سفیان صخر بن حرب جب مسلمان ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہنے لگا مجھے تین چیزیں عطا فرمائیے ایک تو یہ کہ میرے لڑکے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجیے۔ دوسرے مجھے کافروں سے جہاد کے لئے بھیجیے اور میرے ساتھ کوئی لشکر دیجیے تاکہ جس طرح کفر میں مسلمانوں سے لڑا کرتا تھا اب اسلام میں کافروں کی خبر لوں۔ آپ نے دونوں باتیں قبول فرمائیں ایک تیسری درخواست بھی کی جو قبول کی گئی۔ پس ایسے لوگ اس آیت کے حکم سے اس دوسری آیت سے الگ کرلئے گئے۔ ذکر اللہ خواہ وہ اپنے شعروں میں بکثرت کریں خواہ اور طرح اپنے کلام میں یقینا وہ اگلے گناہوں کا بدلہ اور کفارہ ہے۔ اپنی مظلومی کا بدلہ لیتے ہیں۔ یعنی کافروں کی ہجو کا جواب دیتے ہیں۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان سے فرمایا تھا ان کفار کی ہجو کرو جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔ حضرت کعب بن مالک شاعر نے جب شعراء کی برائی قرآن میں سنی تو حضور سے عرض کیا آپ نے فرمایا تم ان میں نہیں ہو مومن تو جس طرح اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے۔ واللہ تم لوگوں کے اشعار تو انہیں مجاہدین کے تیروں کی طرح چھید ڈالتے ہیں۔ پھر فرمایا ظالموں کو اپنا انجام ابھی معلوم ہوجائے گا۔ انہیں عذر معذرت بھی کچھ کام نہ آئیگی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ظالم سے بچو اس سے میدان قیامت میں اندھیروں میں رہ جاؤ گے۔ آیت عام ہے خواہ شاعر ہوں خواہ شاعر نہ ہوں سب شامل ہیں۔ حضرت حسن نے ایک نصرانی کے جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ آپ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ روم میں جب حضرت فضالہ بن عبید تشریف لے گئے اس وقت ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جب انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد بیت اللہ کی بربادی کرنے والے ہیں کہا گیا کہ اس سے مراد اہل مکہ ہیں، یہ بھی مروی ہے کہ مراد مشرک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت عام ہے سب پر مشتمل ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میرے والد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے انتقال کے وقت اپنی وصیت صرف دو سطروں میں لکھی۔ جو یہ تھی بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ ہے وصیت ابوبکر بن ابی قحافہ کی۔ اس وقت کی جب کہ وہ دنیا چھوڑ رہے تھے۔ جس وقت کافر بھی مومن ہوجاتا، فاجر بھی توبہ کرلیتا تب کاذب کو بھی سچا سمجھتا ہے میں تم پر اپنا خلیفہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو بنا جارہا ہوں۔ اگر وہ عدل کرے تو بہت اچھا اور میرا گمان بھی ان کے ساتھ یہی ہے اور اگر وہ ظلم کرے اور کوئی تبدیلی کر دے تو میں غیب نہیں جانتا۔ ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں۔ سورة شعراء کی تفسیر بحمد اللہ ختم ہوئی۔