Skip to main content

وَكَانَ فِى الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ

And were
وَكَانَ
اور تھے
in
فِى
میں
the city
ٱلْمَدِينَةِ
شہر
nine
تِسْعَةُ
نو
family heads
رَهْطٍ
گروہ۔ جتھے
they were spreading corruption
يُفْسِدُونَ
وہ فساد کرتے تھے
in
فِى
میں
the land
ٱلْأَرْضِ
ز مین
and not
وَلَا
اور نہ
reforming
يُصْلِحُونَ
اصلاح کرتے تھے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اُس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے

English Sahih:

And there were in the city nine family heads causing corruption in the land and not amending [its affairs].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اُس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور شہر میں نو شخص تھے کہ زمین میں فساد کرتے اور سنوار نہ چاہتے،

احمد علی Ahmed Ali

اور اس شہر میں نو آدمی ایسے تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے اوراصلاح نہیں کرتے تھے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اس شہر میں نو سردار تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے رہتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور اس شہر میں نو افراد تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور (قومِ ثمود کے) شہر میں نو سرکردہ لیڈر (جو اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ) تھے ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اونٹنی کو مار ڈالا
ثمود کے شہر میں نوفسادی شخص تھے جن کی طبعیت میں اصلاح تھی ہی نہیں یہی ان کے رؤسا اور سردار تھے انہی کے مشورے اور حکم سے اونٹنی کو مار ڈالا ان کے نام یہ ہیں رعی، رعم، ھرم، ھریم، داب، صواب، مطع، قدار بن سالف یہ آخری شخص وہ ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں۔ جس کا بیان آیت ( فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ 29؀) 54 ۔ القمر ;29) اور ( اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا 12۝۽) 91 ۔ الشمس ;12) میں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو درہم کے سکے کو تھوڑا ساکتر لیتے تھے اور اسے چلاتے تھے۔ سکے کو کاٹنا بھی ایک طرح فساد ہے چناچہ ابو داؤد وغیرہ میں حدیث ہے جس میں بلاضرورت سکے کو جو مسلمانوں میں رائج ہو کاٹنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے الغرض ان کا یہ فساد بھی تھا اور دیگر فساد بھی بہت سارے تھے۔ اس ناپاک گروہ نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ آج رات کو صالح کو اور اسکے گھرانے کو قتل کرڈالو اس پر سب نے حلف اٹھائے اور مضبوط عہد و پیمان کئے۔ لیکن یہ لوگ حضرت صالح تک پہنچیں اس سے پہلے عذاب الٰہی ان تک پہنچ گیا اور ان کا ستیاناس کردیا۔ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی اور ان سب سرداروں کے سر پھوٹ گئے سارے ہی ایک ساتھ مرگئے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے خصوصا جب انہوں نے حضرت صالح کی اونٹنی کو قتل کیا۔ اور دیکھا کہ کوئی عذاب نہیں آیا تو اب نبی اللہ (علیہ السلام) کے قتل پر آمادہ ہوئے۔ مشورے کئے کہ چپ چاپ اچانک اسے اور اسے کے بال بچوں اور اس کے والی وارثوں کو ہلاک کردو اور قوم سے کہہ دو کہ ہمیں کیا خبر ؟ اگر صالح نبی ہے تو ہمارے ہاتھ لگنے کا نہیں ورنہ اسے بھی اس کی اونٹنی کے ساتھ سلادو اس ارادے سے چلے راہ ہی میں تھے جو فرشتے نے پتھر سے ان سب کے دماغ پاش پاش کردئیے ان کے مشوروں میں جو اور جماعت شریک تھی انہوں نے جب دیکھا کہ انہیں گئے ہوئے عرصہ ہوگیا اور واپس نہیں آئے تو یہ خبر لینے چلے دیکھا کہ سب کے سر پھٹے ہوئے ہیں بھیجے نکلے پڑے ہیں اور سب مردہ ہیں۔ انہوں نے حضرت صالح پر ان کے قتل کی تہمت رکھی اور انہیں مار ڈالنے کے لئے نکلے لیکن ان کی قوم ہتھیار لگا کر آگئی اور کہنے لگے دیکھو اس نے تم سے کہا کہ تین دن میں عذاب اللہ تم پر آئے گا تم یہ تین دن گذرنے دو ۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کے قتل سے اللہ کو اور ناراض کروگے اور زیادہ سخت عذاب آئیں گے اور اگر یہ جھوٹا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ سے بچ کر کہاں جائے گا ؟ چناچہ وہ لوگ چلے گئے۔ فی الواقع ان سے نبی اللہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے صاف فرمادیا تھا کہ تم نے اللہ کی اونٹنی کو قتل کیا ہے تو تم اب تین دن تک مزے اڑالو پھر اللہ کا سچا وعدہ ہو کر رہے گا۔ یہ لوگ حضرت صالح کی زبانی یہ سب سن کر کہنے لگے یہ تو اتنی مدت سے کہہ رہا ہے آؤ ہم آج ہی اس سے فارغ ہوجائیں جس پتھر سے اونٹنی نکلی تھی اسی پہاڑی پر حضرت صالح (علیہ السلام) کی ایک مسجد تھی جہاں آپ نماز پڑھا کرتے تھے انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ نماز کو آئے اسی وقت راہ میں ہی اس کا کام تمام کردو۔ جب پہاڑی پر چڑھنے لگے تو دیکھا کہ اوپر سے ایک چٹان لڑھکتی ہوئی آرہی ہے اس سے بچنے کے لئے ایک غار میں گھس گئے چٹان آکر غار کے منہ میں اس طرح ٹھہر گیا کہ غار کا منہ بالکل بند ہوگیا۔ سب کے سب ہلاک ہوگئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کہاں گئے ؟ انہیں یہاں عذاب آیا وہاں باقی والے وہیں ہلاک کردئیے گئے نہ ان کی خبر انہیں ہوئی اور نہ ان کی انہیں۔ حضرت صالح اور باایمان لوگوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور اپنی جانیں اللہ کے عذابوں میں گنوادیں۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کی چال بازی کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ اور انہیں اس سے ذرا پہلے بھی مطلق علم نہ ہوسکا۔ انجام کار ان کی فریب بازیوں کا یہ ہوا کہ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے۔ یہ ہیں ان کی بستیاں جو سنسان پڑی ہیں انکے ظلم کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگئے ان کے بارونق شہر تباہ کردئے گئے ذی علم لوگ ان نشانوں سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم نے ایمان دار متقیوں کو بال بال بچالیا۔