العنکبوت آية ۵۲
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَيْنِىْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًا ۚ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
طاہر القادری:
آپ فرما دیجئے: میرے اور تمہارے درمیان اﷲ ہی گواہ کافی ہے۔ وہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب کا حال) جانتا ہے، اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اﷲ کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں،
English Sahih:
Say, "Sufficient is Allah between me and you as Witness. He knows what is in the heavens and earth. And they who have believed in falsehood and disbelieved in Allah – it is those who are the losers."
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) کہو کہ "میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے وہ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ جانتا ہے جو لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ سے کفر کرتے ہیں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ اللہ بس ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ جو باطل پر یقین لائے اور اللہ کے منکر ہوئے وہی گھاٹے میں ہیں،
3 Ahmed Ali
کہہ دو الله میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے جانتا ہے اور جو لوگ جھوٹ پر ایمان لائے اورالله کا انکار کیا وہی نقصان پانے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کہہ دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالٰی کا گواہ ہونا کافی ہے (١) وہ آسمان و زمین کی ہرچیز کا عالم ہے، جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالٰی سے کفر کرنے والے (۲) ہیں وہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں (۳)۔
٥٢۔١ اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقینا منجانب اللہ ہے۔
٥٢۔۲یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔
٥٢۔۳ کیونکہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے جو چیز آسمانوں میں اور زمین میں ہے وہ سب کو جانتا ہے۔ اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور خدا سے انکار کیا وہی نقصان اُٹھانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالیٰ گواه ہونا کافی ہے وه آسمان وزمین کی ہر چیز کا عالم ہے، جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے ہیں وه زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے! کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کیلئے اللہ کافی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور جو لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے خدا کافی ہے جو آسمان اور زمین کی ہر چیز سے باخبر ہے اور جو لوگ باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کا انکار کرتے ہیں وہ یقینا خسارہ اٹھانے والے لوگ ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے جو چیز آسمانوں میں اور زمین میں ہے وہ سب کو جانتا ہے اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور خدا سے انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں
آیت نمبر 52 تا 63
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان میری سچائی پر گواہ کافی ہے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے سب باتوں کی خبر ہے اور انہیں میں میرا اور تمہارا حال بھی ہے اور جو لوگ باطل پر اور وہ اللہ کے علاوہ وہ چیزیں ہیں جن کی پوجا پاٹ کی جاتی ہے یقین رکھتے ہیں اور تم میں سے اللہ کے منکر ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے سودے میں نقصان اٹھانے والے ہیں اس طور پر کہ انہوں نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کرلیا ہے اور یہ لوگ آپ سے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں اور اگر عذاب کی مدت متعین نہ ہوتی تو ان پر فوری عذاب آچکا ہوتا اور ان پر وہ عذاب دفعۃً آپہنچے گا اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی، یہ لوگ آپ سے دنیا ہی میں عذاب کا تقاضا کرتے ہیں (ذراتسلی رکھیں) بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرے میں لینے والی ہے جس دن عذاب ان کو ان کے اوپر سے اور نیچے سے گھیرے گا، عذاب کے ذمہ دار فرشتے کہیں گے اپنے اعمال کی جزا چکھو یقول میں نون اور یا دونوں ہیں، اگر نون ہو تو مطلب ہوگا ہم فرشتوں کو یہ بات کہنے کا حکم کریں گے تو تم ہم سے بچ کر نہیں نکل سکتے اے میرے ایماندار بندو ! میری زمین بہت کشادہ ہے میری ہی بندگی کرو جہاں بھی عبادت آسان ہو، لہٰذا اس سرزمین سے جہاں عبادت آسان نہ ہو اس سرزمین کی طرف ہجرت کر جاؤ (کہ جہاں عبادت کرنا آسان ہو) (یہ آیت) مکہ کے ان کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ میں اظہار اسلام کے بارے میں تنگی میں تھے، ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم سب زندہ ہونے کے بعد ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے تُرْجَعُوْنَ تا اور یا کے ساتھ، جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ہم ان کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جنت کے بالا خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ہم نے ان کے لئے جنت کے بالا خانہ میں ہمیشہ رہنا مقدر کردیا ہے، عمل کرنے والوں کا اجر کیا ہی خوب ہے یہ اجر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مشرکین کی ایذاؤں اور دین کے اظہار پر صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں تو وہ ان کو ایسے طریقے سے روزی دے گا کہ ان کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو کمزوری کی وجہ سے اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے اے ہجرت کرنے والو ! اللہ تم کو بھی رازی دے گا اور ان کو بھی اگرچہ تمہارے پاس زادراہ اور خرچہ نہ ہو وہ تمہاری باتوں کو سنتا ہے اور تمہارے دل کے رازوں کو جانتا ہے اور اگر آپ ان سے یعنی کفار سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور کس نے شمس و قمر کو مسخر کر رکھا ہے ؟ ولَئِن میں لام قسم کا ہے تو یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے، تو پھر یہ لوگ توحید کو چھوڑ کر اس کا اقرار کرنے کے بعد کہاں الٹے چلے جارہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسکا چاہتے ہیں بطور آزمائش رزق کشادہ کردیتے ہیں اور کشادہ کرنے کے بعد اس کا رزق تنگ کردیتے ہیں یا بطور آزمائش جس کی چاہیں (روزی تنگ کردیتے ہیں) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئ کے حال سے واقف ہے اور اسی (معلوم) شئ میں روزی کشادہ اور تنگ کرنے کا محل بھی ہے اور اگر آپ سے دریافت کریں کہ وہ ذات کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس پانی کے ذریعہ زمین کو خشک ہوجانے کے بعد تروتازہ کردیا ؟ تو یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے تو پھر اس کے ساتھ کسی کو کیوں شریک کرتے ہیں ؟ آپ کہیے تمہارے اوپر حجت ثابت ہونے پر، الحمدللہ، بلکہ ان میں اکثر لوگ اس معاملہ میں اپنے (قول میں) تناقض کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : صَفْقَۃٌ ہاتھ پر مارنا، تالی بجانا، معاملہ کرنا، عرب کی عادت تھی کہ بیع کے تام ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے اختتام بیع پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے، یہاں مطلقاً بیع مراد ہے جس کو تجارتی اصطلاح میں سودا کہتے ہیں۔
قولہ : فَاِیَّایَ فَا عْبُدُوْن، اِیَّایَ اپنے ماقبل فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے بعد کا فعل اس کی تفسیر کررہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے فاعبدوا ایّایَ فاعبدون .
قولہ : لَنُبَوِّئنّھُمْ جمع متکلم لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ بَوَّءَ یُبَوِّ ءُ تَبْوِئَۃً (تفعیل) بَوْءٌ مادہ ہے، ٹھکانہ دینا، جگہ درست کرنا، اور ایک قراءت میں لَنُثْوِیَنَّھُمْ ای لنقیمنّھُمْ مشتق من الثواء بمعنی اقامت، اس دوسری قراءت کے مطابق غُرَفًا مفعول بہ ہوگا نُثوِی نُنزِلْ لے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے۔ اس صورت میں ننزل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بدومفعول ہوگا، مفعول اول ھم ضمیر ہے اور دوسرا غُرَفًا بتقدیر فی ہے، ای فی غرفٍ من الجنۃ پہلی قراءت میں غُرَفًا مفعول ثانی ہے اور ھم مفعول ہے اس لئے کہ بَوَأَ متعدی بدومفعول ہے، قال اللہ تعالیٰ تُبَوِّ ئُ المؤمنینَ مقاعِدَ لِلقتال اور کبھی متعدی بالام بھی ہوتا ہے کما قال تعالیٰ وَاِذ بَوّ أنا لاِْبراھیم مکان البیتِ. قولہ : تجری من تحتھا الانھار یہ جملہ ہو کر غُرَفًا کی صفت ہے۔
قولہ : وَالذین آمنوا مبتداء لَنُبَوِّ ئَنَّھُمْ اس کی خبر والذین آمنوا فعل محذوف کی وجہ سے منصوب بھی ہوسکتا ہے جس پر بعد کا فعل دلالت کررہا ہے اس صورت میں یہ باب اشتغال سے ہوگا۔
قولہ : مقدرین الخلود فیھا اس سے اشارہ ہے کہ خالدین حال مقدرہ ہے ای انھم حین الدخول یقدرون الخلود .
قولہ : ھٰذا الاجریہ مخصوص بالمدح ہے۔
قولہ : الذین صَبَروا، ھم مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ شارح نے ظاہر کردیا اور العاملین کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔
قولہ : وکأین من دابۃ کأیّن مبتداء ممیّز، من دابۃٍ اس کی تمییز لا تحمل دابّۃٍ کی صفت اللہ یَرزُقُھا جملہ ہو کر کأیِّن مبتداء کی خبر۔
تفسیر وتشریح
شروع سورت سے یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور توحید و رسالت سے مسلسل انکار اور حق اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاٹوں کا بیان تھا، مذکورۃ الصدآیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق کو شائع کرنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے یعنی اس وطن اور ملک کو چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور ہو اور شعائر دین کو آزادی سے ادا نہ کرسکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ ارضی وَاسِعَۃٌ فاِیّایَ فَاعْبُدُوْن یعنی اگر کسی ملک میں یا کسی علاقہ میں ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ جہاں فرائض دین اور شعائر اسلام کو بآسانی ادا نہ کرسکے اور باطل کی مجبوراً تائید کرنی پڑے تو ایسی جگہ سے ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے، فرائض میں کوتاہی یا عدم ادائیگی کے بارے میں یہ عذر عند اللہ قابل قبول نہ ہوگا کہ جہاں ہم رہتے تھے کافروں اور ظالموں کی حکومت تھی فرائض اور شعائر اسلام کی دائیگی وہاں ممکن نہیں تھی، اس لئے کہ اللہ کی زمین وسیع ہے ہجرت کرجانا چاہیے تھا۔ وطن سے ہجرت کرکے کسی دوسری جگہ جانے میں عام طور پر عادۃً دو قسم کے خطرات پیش آیا کرتے ہیں جو ہجرت سے روکتے ہیں، پہلا خطرہ اپنی جان کا ہے، جب وطن کو چھوڑ کر جائیں گے تو یہاں کے کفار اور ظالم لوگ راہ میں حائل ہوں گے اور ممکن ہے کہ راستہ میں دیگر کافروں سے بھی مقابلہ یا مقاتلہ کہ نوبت آجائے جس سے جان کا خطرہ ہو، اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ کل نفسٍ ذائقۃ الموت یعنی موت تو ہرحال اور ہر جگہ آنے والی ہے اس لئے موت سے خوف اور گھبراہٹ مومن کا کام نہیں ہونا چاہیے اور مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ موت اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آسکتی اس لئے ہجرت کرنے میں موت کا خوف حائل نہ ہونا چاہیے، خصوصاً جبکہ احکام الہٰی کی اطاعت کرتے ہوئے موت آجانا دائمی راحتوں اور نعمتوں کا ذریعہ ہے جو ان کو آخرت میں ملیں گی، جس کا ذکر بعد کی ان دو آیتوں میں فرمایا اَلَّذِینَ آمَنُوْا وَعمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِنَ الجنۃِ غُرَفًا .(الآیۃ)
دوسرا خطرہ ہجرت کی راہ میں یہ پیش آتا ہے کہ دوسرے ملک یا دوسری جگہ جاکر رزق کا کیا سامان ہوگا ؟ اپنی جگہ رہتے ہوئے تو انسان کا کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش ہوتا ہے، ہجرت کی وجہ سے یہ سب ختم ہوجاتا ہے، اس کا جواب بعد کی تین آیتوں میں اس طرح دیا گیا ہے کہ تم اس حاصل کردہ سامان اور ذریعہ کے بھی رزق پہنچا دیتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سامان اور اسباب کے ہوتے ہوئے بھی انسان رزق سے محروم ہوسکتا ہے اس کے بیان کے لئے فرمایا وَکَأَیِّنْ مِنْ دَابَّۃٍ لاَتَحْمِلُ رِزْقَھَا واِیّا کُمْ یعنی اس پر غور کرو کہ زمین پر چلنے والے ہزاروں قسم کے جانور ہیں کہ جو اپنا رزق جمع کرنے اور رکھنے کا انتظام نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ ان کو روزانہ رزق مہیا کرتا ہے، سفیان بن عینیہ (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان اور چوہا اور چیونٹی کے سوا کوئی حیوان اپنی غذا جمع نہیں کرتا بعض حضرات نے کوے کو بھی شمار کیا ہے وہ بھی آشیانہ میں غذا چھپا کر رکھتا ہے مگر بھول جاتا ہے، چیونٹی چونکہ سردی کے موسم میں اپنے سوراخ سے باہر نہیں آتی اس لئے موسم گرما ہی میں سرما کا انتظام کرلیتی ہے، بقیہ ہزار ہا اقسام کے جانور جن کا شمار بھی مشکل ہے ان میں کوئی جانور ایسا نہیں ہے کہ جو کل کی فکر کرتا ہو، حدیث میں ہے کہ یہ پرندے صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس ہوتے ہیں نہ ان کی کوئی کھیتی باڑی ہے اور نہ زمین جائدادنہ کسی کارخانہ یا دفتر کے ملازم ہیں کہ وہاں سے اپنا رزق حاصل کریں اور یہ ایک دن کا معاملہ نہیں جب تک وہ زندہ رہتے ہیں روزانہ ان کو پیٹ بھرائی رزق ملتا ہے۔ (معارف)
خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت سے روکنے والی دوسری شئ فکر معاش ہے مگر یہ انسان کا خام خیال ہے اس لئے اپنے جمع کردہ اسباب معاشی پر بھروسہ کرلینا درست نہیں ہے اس لئے یہ دوسرا خطرہ بھی ہجرت سے مانع نہیں ہونا چاہیے۔ ہجرت سے متعلق الفاظ عام ہونے کی وجہ سے حکم اگرچہ عام ہے مگر آیت کے شان نزول میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مومنین کو جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم کس طرح مدینہ جائیں نہ وہاں گھر ہے نہ در اور نہ وہاں مال، ہمیں وہاں کون کھلائے گا ؟ تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
مسئلہ : جس شہر یا ملک میں انسان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی نہ ہو، وہ کفر وشرک یا احکام شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور ہو تو ایسی جگہ سے بشرطیکہ قدرت ہو ہجرت کرنا واجب ہے البتہ اگر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو کہ وہاں آزادی سے اپنے دین پر عمل کرسکے تو وہ شرعاً معذور ہے۔
مسئلہ : جس جگہ عام احکام دینیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو وہاں سے ہجرت فرض یا واجب تو مگر مستحب ہے، اور اس میں دارلکفر ہونا بھی ضروری نہیں دارلفسق جہاں احکام الہٰیہ کی خلاف ورزی اعلاناً ہوتی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اگرچہ اس کو دارالاسلام کہا جاتا ہو، یہ تفصیل حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر فرمائی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قُلْ كَفَىٰ بِاللّٰـهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ﴾ ” کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔“ اس لیے میں نے اسے گواہ بنایا ہے اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کا عبرتناک عذاب نازل ہو اگر اللہ تعالیٰ میری تائید اور مدد کرتا اور میرے لیے میرے تمام معاملات آسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جلیل القدر شہادت تمہارے لیے کافی ہونی چاہیے اور اگر تمہارے دلوں میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت۔۔۔ جسے تم نے سنا ہے نہ دیکھا ہے۔۔۔ دلیل کے لیے کافی نہیں تو اللہ تعالیٰ ﴿ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ”آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ میرا حال، تمہارا حال اور میری باتیں اس کے جملہ علم میں شامل ہیں۔ اگر میں نے اس پر جھوٹ گھڑا ہے، حالانکہ وہ اس کا علم رکھتا ہے اور مجھے سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے، تو یہ اس کے علم، قدرت اور حکمت میں قادح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾ (الحاقۃ: 69؍44۔ 46) ” اور اگر اس نے ہم پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑلیتے اور پھر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔ “ ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّـهِ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اوراور اللہ کا انکار کیا، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لا کر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب، اسی لیے وہ قیامت کےروز، اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : meray aur tumharay darmiyan gawahi denay kay liye Allah kafi hai , ussay unn tamam cheezon ka ilm hai jo aasmano aur zameen mein mojood hain . aur jo log batil per emaan laye hain , aur Allah ka inkar kiya hai , wohi hain jo sakht nuqsan uthaney walay hain .