آل عمران آية ۱۰۴
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۗ وَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں،
English Sahih:
And let there be [arising] from you a nation inviting to [all that is] good, enjoining what is right and forbidding what is wrong, and those will be the successful.
1 Abul A'ala Maududi
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے
3 Ahmed Ali
اور چاہیئے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اوراچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کی دعوت دے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی وہ لوگ ہیں (جو دین و دنیا کے امتحان میں) کامیاب و کامران ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے, نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یِّدْعُوْنَ اِلَی الْخِیْرِ (الآیۃ) سابقہ آیت میں ہر فرد کو ایک خاص انداز سے اپنی اصلاح کرنے کی ہدایت دی گئی کہ ہر شخص تقویٰ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے سلسلہ میں (اسلام) سے مربوط ہوجائے۔ مذکورہ دو آیتوں میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ رکھیں اسی صورت سے پوری قوم کی اصلاح بھی ہوگی اور ربط و اتحاد کو بقاء و قیام بھی ہوگا۔
مسلمانوں کی قومی اور اجتماعی فلاح دو چیزوں پر موقوف ہے : پہلے تقویٰ اور اعتصام بحبل اللہ کے ذریعہ اپنی اصلاح اور دوسرے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح کی فکر۔ وَلْتَلُنْ مِّنْکُمْ ، میں اسی دوسری ہدایت کا بیان ہے۔ سورة (والعصر) کی آیت (اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ) میں اسی مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ قومی اجتماعی زندگی کے لیے جس طرح حبل متین اور اس کا اعتصام ضروری ہے اسی طرح اس رشتہ کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے بھائیوں کو احکام قرآن و سنت کے مطابق اچھے کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کو ہر شخص اپنا فریضہ سمجھے تاکہ یہ رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رسی ٹوٹ نہیں سکتی ہاں البتہ چھوٹ سکتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس رسی کے چھوٹنے کے خطرہ کے پیش نظر یہ ہدایت جاری فرمائی کہ ہر مسلمان جس طرح خود نیک عمل کرنے کو اور گناہ سے بچنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے اس کو بھی ضروری سمجھے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیک عمل کی ہدایت اور برے عمل سے روکنے کی کوشش کرتا رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سب مل کر مضبوطی کے ساتھ اللہ کی رسی کو تھامے رہیں گے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، کسی نہ کسی درجہ میں چھوٹے پیمانہ پر تو ہر فرد امت پر فرض ہے، لیکن یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک مستقل جماعت خاص اسی کام کے لیے ہونی چاہیے کہ مخلوق کو دعوت خیر دے اور برے کاموں سے روکے، کام کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت کا ہر فرد دعوت الی الخیر اور نہی عن المنکر کی پوری پوری ذمہ داری ادا کرے مگر اللہ تعالیٰ نے کمال رحمت اور ضعف بشری کی رعایت کرتے ہوئے تمام مخلوق کے بجائے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے ایک مخصوص جماعت مقرر فرما دی اور یہ اس لیے کہ جن اوصاف اور شرائط کی ضرورت ہے کیا عجب کہ بہت سوں کے لیے دشوار ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
مطلب یہ ہے کہ اے مومنو ! جن پر اللہ نے ایمان لانے اور اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا ہے، تم میں سے ﴿أُمَّةٌ﴾ ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے ﴿يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ﴾ ” جو بھلائی کی طرف بلائے۔“ (خیر) ” بھلائی“ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ سے قریب کرنے والی اور اس کی ناراضی سے دور کرنے والی ہو۔ ﴿وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ﴾” اور وہ نیک کاموں کا حکم کرے“ (معروف) اسے کہتے ہیں جس کا اچھا ہونا عقل اور شریعت کی روشنی میں معلوم ہوچکا ہو۔﴿ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ﴾” اور برے کاموں سے روکے“ (منکر) اسے کہتے ہیں جس کا برا ہونا عقل اور شریعت کے ذریعے سے معلوم ہوچکا ہو۔ اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہئے جو لوگوں کو اس کی راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کار بند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں مثلاً ماپ تول کے پیمانوں اور باٹوں کو چیک کریں، بازار میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دھوکا بازی سے اور لین دین کے ان معاملات سے روکیں جو شرعاً ناجائز ہیں۔ یہ سب کام فرض کفایہ ہیں۔ جیسے کہ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ﴾ ” تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی تم میں ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہئے جس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ جب کسی خاص کام کا حکم دیا جائے، تو اس میں ان تمام کاموں کا حکم شامل ہوتا ہے، جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوں۔ لہٰذا وہ تمام کام جن پر ان اشیاء کا وجود موقوف ہے، وہ سب ضروری ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جہاد کے لئے طرح طرح کے سامان تیار کرنا، جن سے دشمنوں کا قلع قمع کیا جا سکے اور اسلام کا نام بلند کیا جا سکے، وہ علم سیکھنا جس کی مدد سے نیکی کی طرف بلایا جا سکے۔ علم و رہنمائی کے لئے مدارس کی تعمیر، لوگوں میں شریعت نافذ کرنے کے لئے حکمرانوں کی قولی، عملی اور مالی امداد اور ایسے دوسرے کام جن پر ان امور کا دار و مدار ہے۔ یہ جماعت جو نیکی کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے کمربستہ ہے، یہ خاص مومنین ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“ یعنی کامیاب ہیں جنہیں مطلوب حاصل ہوگا اور خطرناک نتائج سے محفوظ رہیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur tumharay darmiyan aik jamat aesi honi chahiye jiss kay afrad ( logon ko ) bhalai ki taraf bulayen , naiki ki talqeen keren , aur burai say roken . aesay hi log hain jo falah paaney walay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
یوم آخرت منافق اور مومن کی پہچان
حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس جماعت سے مراد خاص صحابہ اور خاص راویان حدیث ہیں یعنی مجاہد اور علماء امام ابو جعفر باقر (رح) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا صبر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے، یاد رہے کہ ہر ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے، ایک اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں، (صحیح مسلم) مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن قبول نہ ہوں گی۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو کسی اور مقام پر ذکر کی جائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم سابقہ لوگوں کی طرح افتراق و اختلاف نہ کرنا تم نیک باتوں کا حکم اور خلاف شرع باتوں سے روکنا نہ چھوڑنا، مسند احمد میں ہے حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رض) حج کیلئے جب مکہ شریف میں آئے تو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اہل کتاب اپنے دین میں اختلاف کر کے بہتر گروہ بن گئے اور اس میری امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے خواہشات نفسانی اور خوش فہمی میں ہوں گے بلکہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی رگ رگ میں نفسانی خواہشیں اس طرح گھس جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے ہوئے انسان کی ایک ایک رگ اور ایک ایک جوڑ میں اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اے عرب کے لوگو اگر تم ہی اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز پر قائم نہ رہو گے تو اور لوگ تو بہت دور ہوجائیں گے۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں پھر فرمایا اس دن سفید چہرے اور سیاہ منہ بھی ہونگے۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل سنت والجماعت کے منہ سفید اور نورانی ہونگے مگر اہل بدعت و منافقت کے کالے منہ ہونگے، حسن بصری فرماتے ہیں یہ کالے منہ والے منافق ہونگے جن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیوں کیا اب اس کا مزہ چکھو۔ اور سفید منہ والے اللہ رحیم و کریم کی رحمت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ حضرت ابو امامہ (رض) نے جب خارجیوں کے سر دمشق کی مسجد کے زینوں پر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ان سے بدر مقتول روئے زمین پر کوئی نہیں انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہدین پھر آیت (يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ) 3 ۔ آل عمران :106) تلاوت فرمائی، ابو غالب نے کہا کہ جناب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے ؟ فرمایا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہی نہیں، ابن مردویہ نے یہاں حضرت ابوذر کی روایت سے ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو بہت ہی عجیب ہے لیکن سنداً غریب ہے۔ دنیا اور آخرت کی یہ باتیں ہم تم پر اے نبی کھول رہے ہیں اللہ عادل حاکم ہے وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو آپ خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے (جن کے کالے منہ ہوئے وہ اسی لائق تھے) زمین اور آسمان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں اور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے متصرف اور با اختیار حکم دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔